قدیم یونان سے جدید ترکی تک: محبت پا بہ سلاسل



چند روز پہلے اخبار میں ایک خوب صورت لڑکی کا مرا ہوا چہرہ دیکھا؛ جسے پسند کی شادی کرنے پر بھائی نے قتل کر دیا تھا۔ اس کی خواب دیکھنے والی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پر مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی۔ بند آنکھوں کا وہ کرب، محرومی اور احتجاج کئی دنوں تک میرے تصور میں گھومتا رہا۔ یہ پہلی تصویر نہیں تھی جس نے مجھے چونکا دیا ہو، بلکہ کئی سالوں سے اخباروں میں، محبت کے جرم کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دینے والی کئی چہروں کو دیکھتی رہی ہوں۔

جس معاشرے کی عورت ڈر خوف میں مبتلا ہو، وہ ہر طرح کی سماجی برائیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ منفی رسم نہ فقط مشرقی ملکوں میں عام ہے، بلکہ مشرقی وسطیٰ اور یورپ میں بھی آنر کلنگ کے واقعات معمول ہیں۔ کئی ممالک ترقی کرنے کے باوجود بھی انسانی حقوق کی پامالی کو روکنے میں کام یاب نہیں ہوسکے۔ خاص طور پر عورتوں کے حقوق کے استحصال کے حوالے سے مشرق تو دور کی بات مغربی ممالک بھی کوئی موثر قانون تشکیل نہ پا سکے۔

جدید ترکی

ترکی جو ترقی کی دوڑ میں بہت آگے ہے، مگر اس ملک کی عورت آج بھی گھریلو تشدد کا شکار ہے۔ کچھ دن پہلے استنبول میں دو ہزار عورتیں غیر انسانی رویوں کے خلاف مظاہرہ کر رہی تھیں۔ جس کی وجہ عورتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم، گھریلو تشدد اور آنر کلنگ کے واقعات تھے۔ ایک لڑکی کہہ رہیں تھی کہ ہماری زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ہمیں باغات، بسوں اور کام کرنے والی جگہوں پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء کے دوران ترکی میں 409 عورتیں قتل کردی گئیں۔ قتل کرنے والوں میں شوہر اور رشتے دار شامل ہیں۔ یہ تو ترکی جیسے ترقی یافتہ ملک کی حالت زار ہے۔ ہماری حالت تو اس سے کہیں زیادہ بری ہے۔ مگر بدقسمتی سے بہت سارے کیسز کا تھانوں میں اندراج تک نہیں ہوتا۔

عورت مشرقی ہو یا مغربی، اس کے چند مطالبے ہیں، جیسے تعلیم حاصل کرنے کا حق، پسند کی شادی کا حق اور تحفظ کے ساتھ جینے کا حق شامل ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری کا سلوک نہ کیا جائے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صدیا ں گزر جانے کے باوجود بھی جدید ترین معاشرے تک عورتوں کے ساتھ وحشیوں کا سلوک کرنے پر مجبور ہیں۔ معلوم نہیں یہ موروثی اثر ہے یا اندر کی جبلت جو جدید دور میں بھی بدلنے سے قاصر ہے۔

دُہرا معیار رکھنے والے معاشرے میں انفرادی سوچ اور عمل کی نفی کی جاتی ہے۔ خاص طور پر عورتیں، روایتی معاشرے کی زد پہ زیادہ آتی ہیں۔ ان کی سوچ پر پہرے ڈال دیے جاتے ہیں اور خوشیاں جبر کے اندھیروں کی نظر ہوجاتی ہیں۔ تتلی کے رنگ باغ میں نکھرتے ہیں، پرندوں کے پر آزاد فضا بنا ادھورے کہلاتے ہیں۔ پھول اور خوش بو لازم ملزوم ہیں تو پھر محبت کے خوب صورت پھول کو دل کی شاخ سے زبردستی توڑ کر کیسے باہر پھینکا جاسکتا ہے!

یونانی شاعرہ سیفو کی مجلس

ہمارے معاشرے میں ہر برائی کو معاشرتی قبولیت حاصل ہے۔ مرد کے لیے جو جائز قرار دیا جاتا ہے، وہ عورت کے لیے شجر ممنوع بن جاتا ہے۔ اس غیر منطقی جنگ میں معاشرتی زندگی فطری خوشیوں سے محروم ہو چکی ہے۔ عزت کے نام پر ہر روز محبت کرنے والے دل، ابدی نیند سلادیے جاتے ہیں۔ جب بھی کسی لڑکی کی مرجھائے پھول کی طرح بند آنکھیں نظر آتی ہیں، تو مجھے سیفو کی ہم عصر یونانی شاعرہ بلائی ٹس بے اختیار یاد آتی ہے۔ سات سو قبل مسیح سے تعلق رکھنے والی اس شاعرہ نے محبت کی بے باک شاعری کی۔ محبت اس کے لیے گناہ کا حصہ نہ تھی۔ یونان کے دور کی عورت نے بھی لاتعداد دکھ جھیلے ہیں۔ افلاطون نے عورتوں کو کم تر ثابت کرنے کی کم کوششیں نہ کی تھیں۔ دوسری جانب سقراط تھا، جس نے صنف نازک کو ناقص العقل قرار دیا، مگر اسپارٹا کی تباہی کے بعد وہ کہے بغیر نہ رہ سکا، کہ عورتوں کی بدترین حالت اور معاشرتی بد سلوکی نے اسپارٹا کو تباہ کیا۔

کہا جاتا ہے کہ معروف یونانی تمثیل نگار یوری پیڈیز عورتوں کے کم زور پہلوؤں کو ڈراموں میں اجاگر کرتا تھا۔ لہٰذا ایتھنز کی عورتیں اس کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہوگئیں اور اسے شہر میں ”برے شوہر” کے نام سے مشہور کر دیا؛ کیوں کہ یوری پیڈیز کی دو شادیاں بری طرح سے ناکام ہو چکی تھیں۔ اس نے جب ڈراما ٹروجن وومن لکھا تھا، جس میں اس نے یونانی فوجیوں کو عورتوں، بوڑھوں، بچوں پر مظالم ڈھاتے دکھایا تو اسے ایتھنز میں ڈراما پیش کرنے کی اجازت نہ ملی۔ لہٰذا اس نے سرحد کے باہر یہ ڈراما اسٹیج کیا، جس میں سقراط نے واحد تماشائی کے طور پر شرکت کی۔

بلائی ٹس کے دور میں یونان میں جنگوں اور بیرونی حملوں نے معاشرتی زندگی کو منجمد کرکے رکھ دیا تھا۔ ہر یونانی کو فوج میں شامل ہونے کا حکم تھا۔ مرد کم ہوتے گئے اورعورت کی عورت سے محبت پروان چڑھی۔ ہم جنس پرستی جسے اوباما نے قانونی شکل دے کر برائی کے بدلے معاشرتی اقدار کا حصہ بنایا، یہ اوائل ادوار سے انسانی جبلت میں پرورش پاتی رہی ہے۔ بلائی ٹس اپنی نظم میں کہتی ہے:

میں بستر کو ویسے ہی رہنے دوں گی
جیسا وہ چھوڑ کرگئی ہے
(بے ترتیب، شکن آلود اور سلوٹوں سے بھرا ہوا)
تاکہ اس کے جسم کا نقشہ بستر پر بنا رہے
کل تک میں غسل نہیں کروں گی
کوئی لباس نہیں پہنوں گی
بال نہیں بناؤں گی
مجھے ڈر ہے کہ اس کے بدن کا لمس نہ ختم ہوجائے
میں آج کھانا نہیں کھاؤں گی
نہ شام کو اپنے چہرے پر غازہ ملوں گی
نہ ہونٹوں پر سرخی لگاؤں گی
میں کھڑکیاں دروازے بند رکھوں گی
اس ڈر سے
کہ کہیں اس کی یادیں ہوا میں تحلیل نہ ہوجائیں

بلائی ٹس کے اپنے دکھ تھے، جو وہ بے باکی سے بتا سکتی تھی، مگر یہ وہ معاشرہ ہے جس میں عورت اپنی پسند کا اظہار نہیں کرسکتی۔ ایسا کرنے پر وہ زندہ جلا دی جاتی ہے۔ جیسا لاہور میں نسرین بی بی نے اپنی بیٹی زینت کے ساتھ کیا تھا۔ اسے گھر سے بھاگ کے پسند کی شادی کرنے پر بیٹے کی مدد سے زندہ جلا دیا۔ وہ بھائی جو خود باہر نہ جانے کیا کچھ کرتے ہیں اپنی بہن کو پسند سے جینے کا حق نہیں دے سکتے۔

محبت کو سب سے زیادہ خطرہ معاشرے کے دُہرے معیار سے لاحق رہا ہے۔ لہٰذا وہ معاشرہ جو ہر طرح کی برائی کا شکار ہو، مگر محبت بھرے دل کی نفی کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے، ایسا سماج اندر سے کس قدر کھوکھلا اور منتشر ہوگا؛ جہاں ماں اپنی بیٹی کے حقوق کا دفاع کرنے کے بجائے اسے نام نہاد رسموں کے بھینٹ چڑھا دیتی ہے۔ پسندکی شادی کا حق تو اس سے مذہب نے بھی نہیں چھینا۔

عورت کے اندر ایک خلا رہ جاتا ہے جو اسے گھر سے ملتا ہے۔ عدم تحفظ اور معاشرتی تضاد کی شکار ماں، بیٹی کے اندر بے یقینی کی کمی بھر دیتی ہے۔ کہیں باپ کی بے توجہی، اسے پیاس کا صحرا بنا دیتی ہے۔ عورت کے تلخ رویوں سے کہیں نہ کہیں ماضی کی دھتکار جھلکتی ہے۔ چاہے وہ بے رُخی بھائی کی ہو، باپ نے دی ہو یا اس کی ہم جنس ماں نے ورثے میں عطا کی ہو۔ ایک ڈرا، سہما بے یقینی پر مشتمل، ایک ترسا ہوا لمحہ ہر پل اس کے خوابوں کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ یہ برے حالات ہوتے ہیں جو اسے خواب دیکھنے پر اکساتے ہیں۔

معاشرہ جب اس کے پہلے خواب کا قتل کرتا ہے تو اس تکلیف دہ کیفیت سے گزرکر وہ بنتی اور بگڑتی ہے۔ کہیں اپنے اندر مرتے خواب کی گھٹن اس کا حوصلہ بنتی ہے، تو کہیں وہ اپنے لیے خود ساختہ پھندے کا انتخاب کرکے اس پر لٹک جاتی ہے۔ معاشرہ اگر عورت کی غلطی کو قبول کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو، تو حوا کی بیٹیاں کبھی ایسی دردناک موت نہ مرتیں۔ یہ لڑکیاں کیوں اپنا دکھ کسی سے نہیں بانٹ سکتیں، کیوں کسی سے مدد طلب نہیں کرتیں اورحادثوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔

جس معاشرے میں دیواروں سے ہم کلام ہونے کی روایتیں فروغ پاتی ہیں، وہاں دکھ بانٹنے پر انسان موت کو ترجیح دیتا ہے۔

ہر وقت اٹھی ہوئی انگلیوں کا خوف اس کے حواس پر طاری رہتا ہے۔ معاشرے کی سوچ کے رخ پر مرنے اور جینے کی یہ روایتیں خوب صورت زندگی کو نگل جاتی ہیں۔ جتنی عورت کی احساس محرومی گہری ہوتی ہے، اتنا ہی اس کی گردن کے ارد گرد روایتوں کے پھندے تنگ ہونے لگتے ہیں۔ ہر گہری تشنگی کے قریب تباہی کی کھائی ساتھ سفر کرتی ہے۔ وہ معاشرہ جس نے سیراب کرنا سیکھا نہ ہو، پیاس بانٹتے بانٹتے خواہشوں کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق 2002ء میں 15000 افراد نے خودکشی کی جس میں 25 فی صد ٹین ایجرز شامل ہیں؛ جب کہ 2011ء میں 2,131 افراد میں 60 فی صد لڑکیاں شامل ہیں۔ تقریباً پانچ سے چھہ لڑکیاں روز خودکشی کرتی ہیں۔ اخبار میں آئے دن نوجوانوں کی خودکشی کی خبریں ملتی ہیں، جن میں سے اکثر چھوٹی باتوں جیسے موبائل فون نہ ملنے پر خودکشی کرلیتے ہیں۔

گھر ہوں یا اسکول بچوں کی ذہنی و جسمانی تربیت کے حوالے سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے۔ والدین میں جو سمجھ یا ضبط ہوا کرتا تھا وہ آج کے دور میں مفقود ہے۔ وہ اس نئے دور کے تضادات اور انتشار کے پس منظر میں بچوں کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ نہ ان کی غلطیوں کو عقلی بنیاد پر سمجھنے یا حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی احوال درس گاہوں کا ہے، جس میں اسکول سے لے کر جامعات تک کے اساتذہ کے غیر منطقی رویے، نئی نسل کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔

محبت کی موت کے مختلف مناظر دیکھ کر مجھے ولیم بلیک کی نظم بیمار گلاب یاد آنے لگتی ہے۔ بلیک نے یہ نظم معاشرے کے خود ساختہ اخلاقی معیار اور محبت کی کرپشن کے پس منظر میں لکھی تھی۔ جس میں محبت کرنے والوں کو بیمار گلاب سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ حالاں کہ بلیک نے رجعت پرستی کے ماحول میں آنکھ کھولی تھی، مگر وہ محبت کو جسم کی حد بندیوں سے ماورا سمجھتا تھا۔ ولیم بلیک  کی یہ نظم منیر نیازی نے “بیمار گلاب” ہی کے عنوان سے اردو مین ترجمہ کی تھی اور ان کی کتاب چھ رنگین دروازے میں شامل ہے۔ اسی بے مثل ترجمے پر یہ تحریر ختم کرتے ہیں

لال گلاب کے پھول

تجھے روگ لگا ہے

وہ کیڑا جو شور مچاتے طوفانوں میں

رات کو اڑتا پھرتا ہے

اور آنکھ سے اوجھل رہتا ہے

اس نے تیری خوشیوں کا

رنگیلا بستر دیکھ لیا ہے

اس کی بھید بھری چاہت نے

تن من تیرا پھونک دیا ہے

(بیمار گلاب از منیر نیازی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).