اساتذہ کے ساتھ پولنگ سٹیشن پر کیا ہوا


ہم اساتذہ ہیں اور ہمیشہ الیکشن ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں۔ مجھ جیسے سینئر اساتذہ کئی مرتبہ یہ فرض سر انجام دے چکے ہیں۔ یہ ڈیوٹی کرنا آج سے بیس سال پہلے جس قدر مشکل اور تکلیف دہ تھا آج بھی ویسا ہی ہے۔ اگر ہمیں چوائس دی جائے تو ہم میں سے اکثر اس فرض کو انجام دینے سے معذ رت کرنا پسند کریں۔ وجہ بیان تو کر دوں لیکن الفاظ میں وہ تکلیف سمونا مشکل ہے جس سے ہم گزرتے ہیں۔ اس میں دو چارسخت بلکہ زیادہ ہی سخت سخت مقام آتے ہیں۔ اس سب کے باوجود میں پوری ذمہ داری سے یہ کہہ رہی ہوں کہ ہم یہ فرض تندہی، ذمہ داری اور سب سے بڑھ کر ایمانداری سے نبھاتے ہیں۔ اس وقت میرا مقصد تصویر کا دوسرا پہلو( جو نہ صرف روشن ہے بلکہ ہر روشنی کی مانند سچا بھی) سامنے لانا ہے۔

اس لیے راہ کے ان کانٹوں کا ذکر کیے بغیر جو ہمارے پاوں لہولہان کر دیتے ہیں، میں آغاز 25 جولائی کی صبح 6 بجے سے کروں گی جب ہم سب ہدایات کے عین مطابق اپنے اپنے پولنگ سٹیشن پہنچے تاکہ اپنے بوتھ قائم کر کے 8 بجے صبح پولنگ کا آغاز کرواسکیں۔ یہ بات پڑھنے والے جانتے ہیں کہ یہ انتخابات فوج کی زیر نگرانی کروائے جا رہے تھے۔ ہر سٹیشن پر موجود ایک سینئر (میرا خیال ہے صوبیدار) کی ذمہ داری تھی کہ وہ بیلٹ باکسز پر نظر رکھے اور اگر کوئی غیر معمولی سرگرمی دیکھے تواس کی نشاندہی کرے۔ ضرورت محسوس کرنے پر وہ اپنے افسران کو فوری رپورٹ کر سکتا تھا تاہم وہ ہمارے کام میں براہ راست مداخلت بالکل نہیں کر سکتا تھا۔ اسی طرح پہلی دفعہ ان انتخابات میں الیکشن کمیشن نے ہمیں اون کیا ہم سے براہ راست رابطہ رکھا کسی بھی غیر معمولی صورتحال پر ہماری آواز فوری سنی گئی۔

ووٹرز کی قطاریں بنوانا اور امن و امان قائم رکھنا پولیس کی ذمہ داری تھی نگرانی کے لیے وہاں بھی فوج کے جوان موجود تھے۔ یہ تفصیل اس لیے بیان کرنا پڑی کہ واضح ہو سکے کہ فوج کی نگرانی سے کیا مراد ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ تصویریں گردش کر رہی ہیں جن کے متعلق نہ جانے کیوں ایسے تبصرے کیے جارہے ہیں جیسے کہ پولنگ کا سامان فوجیوں نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ اپنی مرضی کا مطلب پہنانا ہو تو اور بات ہے ورنہ جیسا کہ میں نے بتایا سامان پر کھلنے سے پہلے بھی نگرانی کے لیے فوج کے جوان ڈیوٹی پر موجود تھے۔ جب ہم نے سٹیشن پر سامان پہنچایا تو بھی متعلقہ فوجی عملہ ہی وہاں ساری رات حفاظت اور پہرے کی غرض سے موجود رہا تھا۔ (واضح رہے کہ خواتین پولنگ عملے کو الیکشن کمیشن نے رات پولنگ سٹیشن پر گزارنے سے استثنا دیا تھا جبکہ مرد افسران نے رات اپنے سامان کے ہمراہ گزاری)۔

پولنگ اپنے مقررہ وقت پر شروع ہو گئی میں لاہور کے ایک پولنگ سٹیشن پر فرائض سرانجام دے رہی تھی اور یہ شہر کا گنجان آبادی والا علاقہ تھا۔ ساڑھے گیارہ بجے تک ایک ایک دو دو خواتین آتی رہیں۔ سچ مانیے تو میں دل میں مایوس ہوئی کہ اتنا کم ٹرن اوور! لیکن12 بجے کے بعد ووٹرز اس طرح آئے کہ مجھے اور میرے عملے کو پلک جھپکنے کا وقت ملنا بھی مشکل تھا۔ شام چھ بجے تک بہت رش تھا۔ ہمیں اطلاع دی جا چکی تھی کہ الیکشن کمیشن نے اوقات میں اضافہ سے انکار کر دیا ہے۔ پانچ منٹ پہلے بلند آواز میں اعلان کر کے تمام ووٹرز کو گیٹ کے اندر بلا لیا گیا۔ یہاں اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پولنگ چھ بجے بند ہو گئی تھی ووٹرز ختم نہ ہوئے تھے۔ میرے سٹیشن پر بہت رش تھا۔ آٹھ بجے کے قریب آخری ووٹر نے ووٹ ڈالا۔ کاش ہمارا میڈیا کسی بات کا مثبت رخ بھی دیکھنا اور دکھانا سیکھے۔ آپ دو گھنٹوں میں ہی شور مچانے لگ گئے ہیں کہ نتائج میں تاخیر کی جارہی ہے۔ تاخیر!

اللہ کے بندو! میرے تین بوتھ تھے۔ میری کئی کولیگز کے چار اور پانچ تک اور مرد افسران کے تو چھ تک بھی تھے۔ تین بوتھ کے چھ بیلٹ باکسز کو امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کے سامنے سیل کرنا اور ان سب کو سیلز کے نمبر نوٹ کروانا۔ صبح جو سیلز لگائی گئی تھیں ان کے نمبر دوبارہ میچ کروانا۔ اس سارے عمل پر ایجنٹوں کے اظہار اطمینان کے بعد ایک ایک ڈبے کی تمام سیلز توڑنی، سب کے سامنے ایک ایک کر کے ڈبے خالی کرنا، برآمد ہونے والے بیلٹ پیپرز کا ٹوٹل گننا، ہر امیدوار کے ووٹ الگ کرنا، گنتی سے خارج کیے جانے والے ووٹوں کے متعلق واضح کرنا کہ کیوں خارج کیے جا رہے ہیں۔ (خارج کیے جانے والے ووٹوں میں ہم الیکشن کمیشن کی سخت ہدایات کے پابند ہوتے ہیں اور عقل سلیم کہتی بھی رہے پھر بھی ہدایات کے مطابق ہی کرتے ہیں۔ وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی ایک ووٹ کو شک کا فائدہ دے دیا تو پولنگ ایجنٹ ہر ووٹ پر ہی شک کا فائدہ مانگنے لگ جاتے ہیں اور بہت تنگ کرتے ہیں۔

دوبارہ گنتی جو لوگ کرتے ہیں ان کے پاس فیصلے کا اختیار ہوتا ہے اور امیدوار بھی موجود ہوتے ہیں )اس کے بعد تحریر کا مرحلہ آتا ہے۔ فارم 45 جس کا اتنا شور مچایا جا رہا ہے اس پر ہم نے مستند نتیجہ درج کر کے کے اس کی کا پیاں بھی تیار کرنا ہوتی ہیں۔ اس مستند نتیجے پر میرے اور میری سینئر اسسٹنٹ پریزائڈنگ کے دستخط، نشان انگوٹھا اور قومی شناختی کارڈ کا نمبر درج کیا جانا ہے۔ ظاہر ہے میں اس فارم کو تب ہی فل کروں گی جب ہر طرح سے گنتی اور اس گنتی کے گوشوارے کے متعلق اطمینان کر لوں گی اس میں جتنا بھی وقت لگے۔ میری ذمہ داری یہ ضرور ہے کہ جلد از جلد نتیجہ تیار کروں لیکن اس سے بڑھ کر یہ کہ مستند نتیجہ تیار کروں۔ اس مستند نتیجہ کو تیار کرنے کے لیے مجھے باکسز سے نکالے گئے بیلٹ پیپرز اور جو بیلٹ پیپرز میرے بوتھ پر ایشو کیے گئے ان کے کاونٹ ( بیلٹ پیپر کاؤنٹ ) کے متعلق بھی اطمینان کر نا تھا۔ یہ تفصیل پڑھنے میں بھی آپ کو وقت لگ رہا ہو گا لیکن جو زیادہ بزرجمہر ہیں وہ گھر کے بچوں سے ہی سہی سات سو سے ہزار پرچیوں پر نشان لگوائیں اور پھر الگ الگ گن کر کوئی ایک مستند نتیجہ بنانے کی مشق کریں امید ہے کافی افاقہ ہو گا۔ ( اس نتیجے میں بیلٹ پیپر کاؤنٹ پورا ہونا بھی ازحد ضروری ہے )

یہ تمام عمل تین قومی اور تین صوبائی بیلٹ باکسز کے لیے کیا گیا۔ اب مستند نتیجہ تیار ہو گیا ( اتنی آسانی سے بالکل نہیں جتنی آسانی سے یہ جملہ لکھا جا رہا ہے )اب اس کو آر ٹی ایس کرنا ہے۔ آپ کا خیال ہے آر ٹی ایس کیا ہے؟ کاغذ کی تصویر ہی تو کھینچ کر الیکشن کمیشن کو بھیجنی ہے۔ جی نہیں محترم بات ایسی سادہ ہرگز نہیں۔ تصویریں کھینچیں ان میں سے بہترین کا چناؤ کیا، جب ہم تصویر اپلوڈ کرتے ہیں تو وہاں ساری تفصیل پھر سے لکھنی ہوتی ہے یعنی میرے سٹیشن پر بارہ امیدوار تھے۔ اب چاہے کسی کا صفر ووٹ ہے مجھے نہ صرف فارم 45 پر اس کا مکمل اندراج کرنا ہے بلکہ آر ٹی ایس میں بھی ہر امیدوار کے نام کے ساتھ حاصل کردہ ووٹ درج کرنے ہیں۔ اس میں بھی قومی و صوبائی دونوں اندراج مکمل ہوتا ہے تب کہیں جا کر ٹرانسمٹ کا بٹن دبانے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس تمام اندراج کے دوران کہیں غلطی ہو جائے تو یہ عمل نئے سرے سے کرنا پڑتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے انتخابات سے پہلے ٹریننگ کا انتظام کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ٹریننگ بہت عمدہ تھی۔ چند ایک مقامات کے سوا یر جگہ لوگ ان ٹرینرز کے کام سے مطمئن تھے۔ اسی ٹریننگ کا ایک حصہ اینڈرائیڈ فون کا استعمال اور پھر اس پر آر ٹی ایس کا استعمال تھا۔ ہم سب پاکستانی معاشرے کا حصہ ہیں کیا ہم اپنے معاشرے کے فیبرک سے اتنا بھی واقف نہیں ہیں؟ ہم ٹیکنالوجی فرینڈلی نہیں ہیں۔ یمارے بیشتر سینئرزفون کا استعمال صرف کال سننے اور کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ (اس میں کچھ ایسا حرج بھی نہیں ) اگر میں بہت بڑھا کر بھی کہوں تو ہم میں سے ساٹھ فیصد ہوں گے جو اینڈرائیڈ کا استعمال جانتے ہوں گے۔

خواتین کے مسائل تو اس سے بڑھ کر تھے۔ کیا کسی کو یہ بات ماننے میں تامل ہے کہ ایسی خواتین موجود تھیں جنہیں گھر سے اجازت نہیں تھی کہ اینڈرائیڈ فون رکھ سکیں (گھر سے کیا مراد ہے آپ اور میں اچھی طرح جانتے ہیں) میرے پاس نو خواتین کا عملہ تھا دو کے سوا باقی سب نے وٹس ایپ نمبر مانگنے پر بھائی، باپ، میاں یا بیٹے کا نمبر دیا۔ یہ ہمارے معاشرے کی محدودات ہیں اور ہم سب ان زمینی حقائق سے واقف ہیں۔ جان بوجھ کر انجان بنا جائے تو کیا علاج۔

یہ حقیقت ہے کہ ٹریننگ میں اچھی طرح سکھانے کی پوری کوشش کی گئی لیکن زبانی ایک چیز کو سننا ایک بات ہے اور عمل کے وقت اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر پانا ایک بالکل دوسری بات۔ ہم میں سے اکثر آج بھی نیا فریج لے کر اس کا ہدایت نامہ پڑھنے سے پہلے اس کا کوئی بھی بٹن دبانے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے۔ یہ تو پھر آر ٹی ایس تھا۔ میرا گمان ہے کہ اس سسٹم کے بیٹھنے کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہو سکتی ہے (میں نہ صرف یہ کہ ٹیکنالوجی کی ماہر نہیں ہوں طبعا نا پسند بھی کرتی ہوں ) لہذا خاطر جمع رکھیے آر ٹی ایس فیل ہونے کے باوجود ہمارا نہ تو کوئی ارادہ تھا نتائج میں ردوبدل کرنے کا نہ ہی ہم سے کسی نے ایسا کرنے کے لیے کسی بھی سطح پر رابطہ کیا۔ فارم 45 کی ایک ایک کاپی ہمیں ہر امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کو دینی تھی۔ ایک کاپی سٹیشن کے باہر چسپاں کرنی تھی۔ گنتی کے وقت ہر امیدوار کے ایک ہی پولنگ ایجنٹ کو اجازت دی جا سکتی ہے موجود رہنے کی، 12 امیدوار مطلب 12 ایجنٹ مطلب فارم 45 کی 12 کاپیاں۔ اب دوبارہ غور کیجئے مجھے کتنے کاغذوں پر دستخط، نشان انگوٹھا اور قومی شناختی کارڈ کا نمبر درج کرنا تھا؟

پولنگ ایجنٹوں کے سلسلے میں یہ بات مد نظر رکھیے کہ وہ ایک دوسرے کو ریپلیس کر سکتے ہیں پریزائڈنگ کی اجازت سے لیکن گنتی کے وقت ہمیں بہرحال ایک کے سوا باقیوں کو باہر جانے کا کہنا ہوتا ہے اور یہ با ت انہیں ظاہر ہے پسند نہیں آتی۔ اس پسند نا پسند کی شدت میں انفرادی مزاج کے لحاظ سے کمی بیشی ہوتی ہے۔ موسم کی شدت بھی مد نظر رکھیے۔ یہ پولنگ ایجنٹ خواتین صبح 6 بجے سے وہاں بیٹھی تھیں۔ میں اور میرا عملہ سرکاری ملازم تھے یہ خواتین صرف اور محض متعلقہ امیدوار یا پارٹی کی خدمت کے جذ بے کے تحت وہاں تھیں۔ بہت رش ہونے کی وجہ سے سارا دن کھائے پیے بنا انتہائی خوش اسلوبی سے اپنا کام کرتی رہیں۔ یہاں مجبور ہو کر جو بات میں کہہ رہی ہوں وہ شاید پڑھنے یا سننے میں اتنی اہم نہ لگے لیکن اس نے معاشرے کے زوال پذیر اخلاقی رویوں کے متعلق میری فکر میں اضافہ کیا۔

میرا تجربہ تھا کہ پارٹیاں اور امیدوار اپنے پولنگ ایجنٹس کے کھانے پینے کا بہت خیال کرتے تھے بلکہ عملے کو بھی کھانے پینے کو ضرور پوچھتے تھے۔ ہم سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے انکار کرتے ہیں۔ پہلی مرتبہ میں نے دیکھا کہ سارا دن غضب کی گرمی اور حبس میں کسی نے ان تک ٹھنڈا پانی تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ سہ پہر ڈھلے ن لیگ کی ایک ورکر تھوڑا سا کھانا اور ٹھنڈے پانی کی چند چھوٹی بوتلیں لے کر آئی جو میرے کہنے پر ان سب نے مل بانٹ کر کھا لیا۔ یہ کھانا بھی بس اتنا تھا کہ چند نوالے ہی ان سب کا نصیب بنے۔ مجھے اس بات پر خاصا افسوس ہے۔ ہم بہت بہتر معاشرہ تھے یہ ہم نے کیوں اپنی ہی صورت کو بگاڑ لیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2