عمران خان کی خارجہ پالیسی


جناب عمران خان کی کی جشن فتح کے تقریر پر بہت سارے لوگوں نے تبصرہ کیا ہے۔ ٹوئٹر کے تبصرے بہت دل چسپ ہوتے ہیں۔ ایک سو چالیس الفاظ میں پوری بات کہنا ہوتی ہے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنا پڑتا ہے۔ معروف صحافی اور سابق نیوز کاسٹر محترمہ ماریہ میمن کے ٹوئٹر پر تبصرے نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ انھوں نے خان صاحب کی جشن فتح کی تقریر پر تبصر ہ کرتے ہوئے لکھا “آج عمران خان سیاست دان سے بلند ہو کر عظیم مدبر سیاست دانوں کی صف میں شامل ہو چکے ہیں”۔ ان کے انگریزی میں الفاظ اور بھی زیادہ دل چسپ تھے۔ ”ڈان“ کے جواں سال کالم نگار جناب عمیر جاوید کے اندازے کے مطابق “یہ (عمران خان) کے سیاسی کیرئیر میں مواد (content) کے حوالے سے شاید بہترین تقریر ہے۔ اور اس تقریر کا وقت کتنا شان دار لمحہ ہے”۔

منتظر وزیراعظم، جناب عمران خان نے اپنی جشن فتح کی تقریر میں خارجہ امور کو اچھا خاصا وقت دیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ عمران خان کے خارجہ امور سے متعلق موقف میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ جیتنے سے پہلے بھی وہ خارجہ امور کے حوالے سے اسی طرح کا موقف رکھتے تھے، جیسا کہ انھوں نے جیت کے بعد بیان کیا۔ پاکستان اور ہندوستان میں یہ ایک عام روایت ہے کہ سیاست دان انتخابی مہم کے دوران کچھ بیانات دیتے ہیں اور جیتنے کے بعد کچھ موقف اختیار کر لیتے ہیں۔ شاید حکومتی مجبوریاں سیاست دانوں کو اپنے موقف تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اور کبھی کاروباری مفادات اور مالی کرپشن بھی حکمرانوں سے جرات فیصلہ چھین لیتی ہے۔

عظیم سیاست دانوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ جھوٹے خواب نہیں دکھاتے۔ وہ انتخابی مہم کے دوران وہ وعدہ نہیں کرتے، جسے وہ جیت کر پورا نہ کر سکیں۔ وژنری، مشنری اور بابصیرت سیاست دان بہت سوچ سمجھ کر سیاست میں قدم رکھتے ہیں۔ عمران ایک مشنری سیاست دان ہے۔ وہ سیاست میں ایک مشن کے ساتھ ہے۔ یہ بات اس کی خارجہ پالیسی بیانات سے واضح ہے۔ دیانت داری اور کردار کی مضبوطی اصل میں حوصلہ اور بہادری عطا کرتی ہے۔ بدعنوان سیاست دان کبھی بہادر نہیں ہو سکتا۔ کرپٹ پالیٹیشن کو ہر وقت ڈرایا دھمکایا، اسے بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔ جمہوری دور میں آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھنے کے لیے مالی بدعنوانی سے پاک ہونا ضروری ہے۔ حضرت اقبال نے فرمایا تھا:

وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے جس کی کاری

اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری

چوں کہ خان صاحب مالی طور پر کرپٹ نہیں ہیں، لہذا وہ دلیرانہ فیصلے لے سکتے ہیں۔ ان کی وزارت عظمی میں ہم ایک آزاد، خودمختار اور شفاف خارجہ پالیسی کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کو اب ایک طفیلی ریاست (client state) کی طرح ڈیل نہیں کیا جا سکے گا۔

عمران خان صاحب نے برابری کی بنیاد پر تعلقات پر زور دیا ہے۔ دو ریاستوں کے درمیان برابری کا اصول ہی خارجہ پالیسی کا پائیدار اصول ہے۔ ہر ریاست کو دوسری ریاست کے اقتداراعلی کو تسلیم کرنا ہوگا ہو اور اس اقتداراعلی کا احترام کرنا ہوگا۔ پاکستان کا اقتدار اعلی (sovereignty) ماضی میں پامال کیا گیا ہے۔ اقتدار اعلی براہ راست غیر ملکی فوجی آپریشن کی شکل میں بھی پامال ہوتا ہے۔ اور اقتدار اعلی پس پردہ امور مملکت میں دخل اندازی سے بھی پامال ہوتا ہے۔ عمران سے توقع ہے کہ وہ ہر دو محاذوں پر مملکت اسلامیہ پاکستان کے اقتدار اعلی کا تحفظ اور احترام یقینی بنائے گا۔ پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور اقتدار اعلی کی حرمت برقرار رکھنا خارجہ پالیسی کا اولین فریضہ ہے۔

خان صاحب کو میں یہ بات بتا سکتا ہوں کہ آپ پاکستان کی آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کے لیے کڑے فیصلے کریں۔ قوم آپ کو معاشی حوالے سے مایوس نہیں کرے گی۔ قوم آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کے لیے پیٹ پر پتھر باندھنے کے لیے بھی تیار ہو جاتی ہے۔ افغان جہاد کے اختتام پر امریکا نے پاکستان سے نظریں پھیر لیں۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں جب پاکستان پر ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھا، تو قوم نے معاشی مشکلات کا سامنا کیا، لیکن ایٹمی پروگرام پر سمجھوتا نہیں کیا۔ کیوں کہ قوم سمجھتی تھی کہ ایٹمی پروگرام ان کے آزادی و خود مختاری اور آزاد خارجہ پالیسی کی ضمانت ہے۔

خان صاحب کے لیے خارجہ پالیسی کے معاملے میں ایک حرف نصیحت ہے۔ وہ یہ کہ خارجہ پالیسی سازی میں کسی ساجھے دار یا اسٹیک ہولڈر کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ دانشور، بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین، غور فکر کے ادارے (تھنک ٹینکس)، حزب اقتدار سب خارجہ پالیسی کے ساجھے دار ہیں۔ پاکستانی فوج کا ادارہ بھی ایک اہم ساجھے دار ہے۔ کیوں کہ خارجہ پالیسی کا ملک کے دفاع پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اگر کسی کو شک ہے تو امریکی خارجہ پالیسی کا مطالعہ کر لے۔ کس طرح امریکی فارن افیئرز ڈیپارٹ منٹ اور پینٹاگان ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں۔

عظیم نظریہ ساز پرشین جنرل اور مفکر نے کارل فلپ گوٹفرائد وان کلازوٹز (Philipp Gottfried von Clausewitz) نے کہا تھا کہ “جنگ ایک دوسر ے انداز میں سیاست ہی کا تسلسل ہے۔” کسی ملک کی خارجہ پالیسی کی آزادی کا انحصار جہاں اس ملک کی مضبوط معیشت پر ہوتا ہے وہیں ملک کی خارجہ پالیسی کا اثر و رسوخ اس ملک کی فوجی قوت (military might) پر منحصر ہوتا ہے۔ مضبوط فوج امن اور آزادی کے لیے ضروری ہے۔

جب سیاست دان جنگ کے فیصلوں میں شریک ہو سکتے ہیں، تو خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فوج کی رائے کو درخور اعتنا کیوں نہیں سمجھا جا سکتا۔ جب سیاست دان جنگ کرنے نہ کرنے کے فیصلے کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں، کہ جنگ کس سطح کی ہو۔ محدود ہو یا آل آؤٹ۔ کون سا ہتھیار استعمال ہو، کیا ایٹمی ہتھیار ہو یا روایتی۔ تو فوج کی آرا کو خارجہ پالیسی کی تشکیل میں مدنظر کیوں نہیں رکھا جا سکتا۔ فرانسیسی مدبر آں جہانی جارج بنیامین کلیمنسو جنگ عظیم اول کے دوران فرانس کے وزیراعظم تھے۔ ان کا مشہور قول ہے کہ جنگ بہت اہم معاملہ ہے اسے تنہا فوج پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اسی طرح فارن پالیسی ایک اہم معاملہ ہے اسے تنہا فارن آفس پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

خارجہ پالیسی نہ تو مکمل طور پر فوج کے حوالے کی جا سکتی ہے اور نہ اس خارجہ پالیسی سازی میں فوج کی رائے (input) کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ یہ توازن منتخب سویلین حکمران کا امتحان ہے۔ نئے وزیراعظم سے توقع ہے کہ وہ یہ توازن قائم رکھ سکیں گے۔

ہماری فوج اتنی ہی حب الوطن ہے جتنی کہ ہماری سیاسی قیادت۔ ہمہ جہت اور ہمہ گیر اور متوازن خارجہ پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ تمام حب الوطن لوگوں کی آرا اس پالیسی کی تشکیل میں شامل ہوں۔ خارجہ پالیسی کے دفاعی اثرات و مضمرات (implications) کے بارے میں فوج سے بڑھ کر کون بتا سکتا ہے۔ خارجہ پالیسی کی کامیابی کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ قومی امنگوں کی آئنہ دار ہو اور کسی بھی مسئلے پر قومی موقف کی عکاس ہو۔ ایک جامع متوازن متفق قومی موقف کی حامل خارجہ پالیسی کے لیے قوم کے تمام طبقات بشمول حزب اختلاف کی آراء کو خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اہمیت دینا ضروری ہے۔

ایک اور بات جو نئے وزیراعظم کو معلوم ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے فارن آفس کی صلاحیت کار (capacity) بہت کم ہے۔ فارن آفس روزمرہ (day to day) امور تو چلا سکتا ہے لیکن پالیسی کی تشکیل اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ پالیسی آرا (input) کے لیے نہ صرف فارن سروس کے افسران بلکہ خارجہ امور کے ماہر پروفیسروں اور دانشوروں کو فارن آفس میں جگہ اور سرپرستی دینی پڑے گی۔ لیکن خارجہ امور کے ماہر پروفیسروں اور دانشوروں کو فارن آفس میں جگہ صرف پالیسی سازی کی حد تک دینی چاہیے۔ خارجہ امور کے انتظامی عہدوں اور بطور سفیر ان پروفیسروں اور دانشوروں کی تعیناتی فارن سروس کے مستقل افسران کی حق تلفی بھی ہے اور اس سے فارن سروس کے توانا ہمت اور جوان سال افسروں کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔ ان کی تربیت اور ان کا تجربہ ان کے بطور سفیر کام کرنے کی صلاحیت کو بہت بڑھا دیتا ہے۔

دفتر خارجہ کے ماتحت پیشہ ورانہ سفیر چوں کہ ریاست کے ملازمین ہوتے ہیں لہذا عام طور پر ان کی وفاداری اور تگ و دو کا مرکز ریاست کا مفاد ہوتا ہے۔ پچھلی حکومت کے آخری دنوں میں امریکا میں پاکستانی سفیر کی تعیناتی پر میں نے لکھا تھا کہ کاروباری افراد کی بطور سفیر تعیناتی درست نہیں۔ وہ بعض اوقات ریاست، ریاست کے مفاد اور ریاست کے کام پر کاروبار، کاروباری منافع اور کاروباری تقاضوں اور کاروباری فکر پر مبنی اغراض و خیالات (considerations) کو ترجیح دے دیتے ہیں۔ اور جب ریاستی عہدے کا اثرورسوخ کاروبار کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے تو اسے کرپشن کی ایک شکل کہا جا تا ہے۔

خارجہ پالیسی کی تشکیل میں سب افراد اور اداروں کی آرا کو خوش آمدید کہیے۔ لیکن خارجہ پالیسی پر عمل درآمد صرف وزارت خارجہ کے افسران سے کروائیے۔

خارجہ امور میں کامیابی کے لیے جہاں علم کی ضرورت ہے اور وہاں عزم وہمت اور رجحان (aptitude) اور اعتماد کی بھی ضرورت ہے۔ اور یہ عزم و ہمت، رجحان اور اعتماد جناب عمران خان کی شخصیت میں بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالی قوم کو اس عزم وہمت، رجحان اور اعتماد سے فائدہ دے۔

حمد اللہ ملیبرن، آسٹریلیا
Latest posts by حمد اللہ ملیبرن، آسٹریلیا (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).