سوشل میڈیا سے مویشی منڈی تک



جنوبی افریقہ کے سیاہ فاموں کے لیے بابائے جمہوریت نیلسن منڈیلا کی جدوجہد ہو؛ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف مسلمانوں، ہندووں اور سکھوں کی مشترکہ مسلح جنگ ہو یا فاٹا سے ایف سی آر کے خاتمے کے لیے قبائلی بھائیوں کے احتجاجی مظاہرے۔ ان سب کے مطالبات جائز ہونے کے باوجود اپنے اپنے وقت کے سرمایہ داروں یا فرعونوں نے ان کے حقوق ماننے سے انکار کیا۔ با الفاظ دیگر حکمرانوں اور طاقتوروں نے ہر دور میں سچ اگلنے والی زبان پر قدغن لگائی۔ اب ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جس میں مین اسٹریم میڈیا بھی سوشل میڈیا کا محتاج ہے۔ اس لیے حکمران طبقے کوسب سے بڑا خطرہ سوشل میڈیا سے ہے۔

سوشل میڈیا سے معاشرے کو لگنے والی بیماریوں اور اس کے دیگر نقصانات کا محکمہ زراعت کو پتا ہوگا۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ آج اگر ایک گدھے اور کتے کو انصاف ملا ہے تو وہ صرف سوشل میڈیا کی بدولت ممکن ہوا ہے۔

کیلاش میں زبردستی خواتین کی وِڈیو بنانے والا شخص بھی سوشل میڈیا ہی کی وجہ سے گرفتار ہوا۔ عمران خان نے اگر فاروق بندیال کو سابق کارستانیوں کی وجہ سے چند گھنٹوں کے اندر اندر پارٹی سے نکالا تو یہ صرف سوشل میڈیا پر تنقیدی طوفان کے سبب ممکن ہوا۔ قصور کی ننھی زینب اور مردان کی اسما کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کے سانحوں نے اگر حکمرانوں کی کرسیوں میں ارتعاش پیدا کیا تو اس کے پیچھے بھی سوشل میڈیا کی طاقت تھی۔

نومبر 2016ء کو سیالکوٹ میں ججا بٹ نے شنایا نامی خواجہ سرا کو الٹا لٹایا اور شلوار نیچے کر کے اس پر چمڑے کی بیلٹ سے تشدد کیا۔ یہ وِڈیو چند گھنٹوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے پولیس سے ججا بٹ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، یوں ججا بٹ گرفتار ہوگئے۔ راو انوار اگر آج ڈیوٹی کی بجائے مقدمات بھگت رہے ہیں تو یہ بھی سوشل میڈیا کی وجہ سے ورنہ پی ٹی ایم کے لیڈر تو 444 افراد کی بات کرتے ہیں۔

عرض یہ کہ مرحومہ قندیل بلوچ کی مفتی عبدالقوی کے ساتھ وائرل پکچرز ہوں، ماہرہ خان کی رنبیر کپور کے ساتھ تصاویر ہوں یا صبا قمر کی سیٹ پر اتاری گئی تصاویر؛ ان کے ظہور کے لیے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا نے حکمران طبقے کی ناک میں دم کررکھا ہے۔ خاص کر اس طبقے کی ناک میں جس کے بارے میں والٹئیر  نے کہا تھا کہ اگر تم جاننا چاہتے ہو کہ کون تمھیں کنٹرول کر رہا ہے تو بس اس کی طرف دیکھ لو، جس پر تنقید کرنے کی تمھیں اجازت نہیں ہے۔

اب آپ کو پتا چل گیا ہوگا کہ آئے دن سوشل میڈیا کی بندش پر ایک مخصوص طبقے کی طرف سے پے در پے حملے کیوں ہورہے ہیں۔ اس کی بندش کے بارے میں یہ لوگ کبھی سیدھا بیان داغ دیتے ہیں اور کھبی سائبر کرائم بل کا لبادہ اوڑھ کر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ توبھلا ہو ہمارے پولیس ڈیپارٹمنٹ کا جنھیں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (RTI) اور سائبر کرائم بل سمجھانا دادی اماں کو آئی فون کے آپشن سمجھانے کے مترادف ہے۔

لاوڈ اسپیکر سے لے کر کے ریڈیو تک اور ٹیلی وژن سے لے کر کے انٹرنیٹ تک ہر آلے کے استعمال کا مثبت اور منفی پہلو ہوتا ہے لیکن یہ میں کس سے کہہ رہا ہوں؟ جس سے میں مخاطب ہوں وہ تو پہلے سے یہ سب کچھ جانتے ہیں۔ تو پھر باربار سوشل میڈیا کی بندش کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ کیوں کہ متوسط اور نچلے طبقے کے پاس حکمرانوں پر انگلی اٹھانے کے لیے یہ ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ سائبرکرائم بل سرمایہ دار طبقے کی مفادات پر انگلی اٹھانے والوں کے خلاف لاٹھی چارج۔

ان سب باتوں سے بالاتر ہوکر سوشل میڈیا انٹرٹینمنٹ کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔ مضمون بھی میں اس مقصد سے لکھ رہا تھا کہ وہ تمام پروپگنڈے یا مزاحیہ بیانات آ پ کے ساتھ شیئر کروں، جو عام انتخابات کے بعد سوشل میڈیا حصوصا فیس بک کی زینت بنے، لیکن جس وقت میں مضمون لکھنے کے لیے بیٹھا اسی وقت ایک دوست نے واٹس ایپ پر پیغام بھیجا کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سوشل میڈیا کی بندش کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ حکمرانوں میں ذاتی اختلافات عروج پر ہی کیوں نہ ہوں، جب عام آدمی کی بات آتی ہے تو یہ سب اس کے خلاف ایک ہو جاتے ہیں۔ اس لیے مزاحیہ مضمون لکھنے کی بجائے سوشل میڈیا کی معاشرے پر مثبت اثرات کے بارے میں لکھنا پڑا۔

سوشل میڈیا پر کاپی پیسٹ کا آپشن ایسے استعمال ہوتا ہے جیسے مسالے میں پسی ہوئی اینٹیں اور دودھ میں پانی۔ اس لیے ان بیانات کے خالق کون ہیں، اس کے بارے میں شواہد ملنا مشکل ہوتا ہے۔ چند ایک ملاحظہ ہوں۔
1۔ اب تک ایٹمی دھماکا کروانے کا کریڈٹ پندرہ اشخاص لے چکے ہیں۔ (نامعلوم)
2۔ کوئٹہ میں پی ٹی آئی کے جیت پر فوج نے ہوائی فائرنگ کی۔ کیا میں نریندرمودی کا بھائی ہوں؟ (سنیٹر حمداللہ جے یو آئی)
3۔ عمران خان کی تقریر کے بعد رُپے نے ڈالر کو پیچھے چھوڑ دیا (راقم)
4۔ موجودہ مسترد شدہ سیاست دانوں میں زرداری صاحب کی مثال سات نمبر پر کھیلنے والے شاہد آفریدی کی طرح ہے۔ ابھی تک پولین میں بیٹھے ہیں، اس لیے تحریک انصاف کی ٹیم پر پریشر ہے۔ (راقم )
5۔ مولانا فضل الرحمان نے دوبارہ گنتی میں مخالف امیدوار کو آگے چھوڑ دیا۔ (ابن حافظ)
6۔ مجھے اداکاروں میں سراج الحق اور شہباز شریف جب کہ کھلاڑیوں میں زرداری اور مولانا فضل الرحمان پسند ہیں۔ (راقم )
7۔ لڑکیوں کا مطالبہ ہے کہ نیا پاکستان پنک کلر کا ہونا چاہیے۔ ( نامعلوم )
8۔ اب یہ افواہ کون پھیلا رہا ہے کہ جب تک مولانا فضل الرحمان کو وزیر پٹرولیم نہیں بنایا جاتا تب تک احتجاج جاری رہے گا۔ (راقم )
9۔ اب تک کے نتائج کے مطابق عسکریت آگے ہیں اور اکثریت پیچھے۔ (افسر الملک )
10۔ انتخابات کے دن ووٹ کی قیمت آخری دو گھنٹوں میں دس ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ (راقم)
11۔ راشد منہاس نے جان کی بازی لگا کر یہ درس دیا ہے کہ افسر اگر غدار ہو تو اس کا حکم ماننا ضروری نہیں۔ (قسیم اللہ جان)
12۔ پیپلز پارٹی وہ ہاتھی ہے جس کا دکھانے والا دانت بلاول ہے، جب کہ کھانے والا دانت زرداری ہے۔ (نامعلوم) 13۔ مہذب دنیا میں سوال اٹھایا جائے تو جواب ڈھونڈا جاتا ہے، ہمارے ہاں سوال کرنے والے کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ تاکہ اسے اٹھایا جاسکے۔ (نامعلوم)
14۔ ڈیم چندوں پر بن رہے ہیں اور دوسرے پراجیکٹس کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جارہا ہے تو عوام کے ٹیکس کدھر جارہے ہیں؟ (راقم )
15۔ مویشی منڈی کے بعد سب سے منہگی منڈی آزاد امیدواروں کی لگتی ہے۔ (نامعلوم)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).