عمران خان کے لئے چند تجاویز


پاکستان میں عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل شروع ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کا سحر ٹوٹا اور عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے ایک تیسری جماعت کھڑی کر دی۔ تیسری جماعت جسے پہلی بار مینڈیٹ ملا ہے وہ اگلے چند روز میں حکومت سازی کا عمل مکمل کر لے گی۔ یقیناً نئی حکومت کے پاس ملکی مسائل کے ازالے کے لئے کوئی فریم ورک ہو گا جس کے کچھ نکات عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں واضح بھی کر دیے ہیں۔ فی الوقت اسے سب سے بڑا چیلنج معیشت کے میدان میں درپیش ہے۔ زرمبادلہ کی گرتی ہوئی صورتحال اور روپے پر ادائیگیوں کے دباؤ نے اس کی ساکھ اتنی کمزار کر دی ہے کہ پچھلے چار ماہ میں ڈالر کی قدر میں پچیس روپے اضافہ ہوا ہے اس قسم کی گراوٹ کی مثال حالیہ دہائیوں میں نہیں ملتی۔

حکومت کو فوری طور پر تو شاید آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے مگر اس کے بعد کسی مستقل حکمتِ عملی پر عمل کرنا ہوگا۔ اوورسیز پاکستانی ایک چھپا ہوا اثاثہ ہیں صرف پچھلے مالی سال میں انہوں نے سولہ ارب ڈالر سے زائد زرمبادلہ اپنے ملک بھیجا۔ اس میں اگرچہ ایک بڑا حصہ حصہ خلیجی ممالک میں کام کرنے والی ورک فورس کاہے تاہم مؤثر حکمت عملی سے امریکہ اور یورپ میں موجود متمول پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری پر راغب کیا جا سکتا ہے جس سے اربوں ڈالر ملکی معیشت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف امریکی معیشت میں وہاں مقیم سات لاکھ پاکستانیوں کا سالانہ حصہ 40ارب ڈالر ہے۔

عمران خان پر بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد دیگر قومی لیڈروں کے مقابلے میں زیادہ ہے اس لئے اگر وہ حلف اٹھانے کے بعد امریکہ اور یورپ میں موجود پاکستانی کمیونٹی کے پاس کو ئی منصوبہ لے کر جائیں تو یقیناًوہ اربوں ڈالر دنوں اور مہینوں میں پاکستان لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ملک میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے چندے کی مہم کو بھی مزید مؤثر بنایا جائے اور اس کے ساتھ اس ڈیم کی تعمیر کے لئے الگ سے پرائز بانڈ جاریکیے جائیں۔ بحریہ ٹاؤن جیسی ملکی کمپنیوں کو ا س منصوبے میں شامل کیا جائے تو ا س کی لاگت نصف رہ جائے گی۔

عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستانی دنیا میں خیرات کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہیں مگر ٹیکس دینے والے ممالک میں آخری بیس نمبروں پر ہیں۔ اس سلسلے میں یقیناًایف بی آر پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کے ٹیکس سسٹم میں وسیع اصلاحات کرے۔ سابق حکومت کی جانب سے ایک لاکھ روپے کی ماہانہ آمدن کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے کے بعد اس وقت انفرادی طور پر ٹیکس دینے والوں کی تعداد صرف ایک لاکھ پندرہ ہزار رہ گئی ہے جس میں سے نوکری پیشہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سات ہزار ہے اور باقی بائیس کروڑ کی آبادی میں ٹیکس دہندگان کی تعدا صر ف آٹھ ہزار رہ گئی ہے۔ کینیڈا کی آبادی کا اسی فیصد انکم ٹیکس دیتا ہے سویڈن میں یہ شرح 49فیصد جبکہ بھارت میں بھی یہ شرح پانچ فیصد ہے جبکہ پاکستان میں یہ تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

ملک کے تمام ٹیکس ریونیومیں 82فیصد حصہ 100بڑی کمپنیوں کا ہے۔ اس وقت ایف بی آر سالانہ 3700ارب روپے کا ٹیکس اکھٹا کرتا ہے جبکہ اس کے جی ڈی پی کو دیکھا جائے تو اس میں 12 ہزار ارب روپیہ سالانہ ٹیکس اکھٹا کرنے کی گنجائش موجود ہے ا س لئے نئی حکومت کو اس سلسلے میں وسیع اور مؤثر حکمت عملی اپنانی ہو گی۔ پاکستان میں مہنگائی زیادہ تر مصنوعی ہے جس کی ایک مثال پاکستان دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہونے کے باوجود یہاں دودھ 120روپے لیٹر بک رہا ہے جبکہ امریکہ میں دودھ دو ڈالر یعنی 260کا گیلن آتا ہے ایک گیلن میں پونے چار لیٹر دودھ ہوتا ہے۔ امریکہ اگر اتنی مہنگی لیبر کے باوجود اپنے شہریوں کو سستا دودھ دے سکتا ہے توہم کیوں نہیں۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان میں مڈل مین اور چند بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ دیہات سے دودھ آج بھی کسان سے 45سے 50روپے لیٹر خرید کر ہمیں 120روپے دیا جا رہا ہے۔

اس کا ایک حل تو وہی ہے جودنیا نے اپنایا اور مہنگائی پر قابو پا لیا۔ یعنی کمپنیوں میں مقابلے کی فضا، امریکہ اور یورپ میں کھانے پینے کی تمام اشیاء بڑی بڑی کمپنیاں جن میں وال مارٹ، ایزڈا، ٹیسکو وغیرہ شامل ہیں وہ براہ راست کسان سے اور فیکٹریوں سے خرید کر صارف کو دیتی ہیں۔ درمیان سے مڈل مین نکل جاتا ہے جس کافائدہ صارف کو ہوتا ہے اس کے بعد ان کمپنیوں میں قیمتوں کی کمی کامقابلہ رہتا ہے جس کافائدہ بھی صارف کو ہوتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ سیلز ٹیکس کی آمدن میں بھی کئی گنا ضافہ ہو جائے گا، روزگارکے مواقع بھی بڑھ جائیں گے اور کسان بھی آڑھتیوں کی بلیک میلنگ سے آزاد ہوجائے گا۔

دنیا میں ترقی کے کئی ماڈل چل رہے ہیں لیکن سب سے مؤثر سروسز کا ہے اور یہ پیسے کی حرکت پزیری پر استوار ہے۔ لوگ پیسہ کمائیں اور اس پیسے کو اس انداز سے خرچ کریں کہ یہ پیسہ ملک کی تمام صنعتوں اور شعبوں کی حرکت تیز تر کر دے۔ لیکن ا س میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک کا تعلیمی نظام ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25۔ Aکے تحت بنیادی یعنی میٹرک تک تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے مگر ریاست نے اس ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔

سروے آف پاکستان کے مطابق اس وقت شہروں میں 60فیصد اور دیہات میں 24فیصد بچے پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر طارق رحمٰن کے ایک معاشی جائزے کے مطابق متوسط طبقہ اپنی کل آمدن کا ساٹھ فیصد بچوں کی تعلیم پر صرف کر رہا ہے۔ یعنی وہ پیسہ جسے اس طبقہ کو اپنے بچوں کی غذائی ضروریات، اپنے گھر کی تعمیر اس کی خوبصورتی، ہوٹلنگ اور دیگر تعیشات پر خرچ کرنا چاہیے تاکہ ملک کے انڈسٹری کو فائدہ پہنچے وہ پیسہ صرف ایک شعبہ تعلیم کھا رہا ہے اور ا س کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں اس ملک کا سب سے نفع بخش کاروبار بن چکی ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ میٹرک تک تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر پابندی لگا دے اور صرف اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پرائیویٹ اداروں کو کام کرنے دے۔ اگر فی الوقت یہ ممکن نہ بھی ہو تو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو کہا جائے کہ وہ دوسال میں خود کو اعلی ٰ تعلیم پر شفٹ کر لیں اور ان دو سالوں میں ان کی بھاری فیسوں کو ریگولرائز کیا جائے۔

یہی مشق صحت کے شعبے میں بھی کی جا سکتی ہے۔ ہاؤسنگ کے شعبے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے پاکستانی اپنا پیسہ بڑے بڑے محل بنانے میں صرف کر رہے ہیں۔ ملک میں فوری طور پر دس مرلے سے بڑ اگھر بنانے پر باندی عائد کر دی جائے اگر90فیصد برطانوی باشندے تین مرلے کے گھروں میں رہ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔ جن لوگوں کے گھر ایک سے دو کنال کے ہیں ان پر دو سے پانچ لاکھ سالانہ ٹیکس لگا دیا جائے کیونکہ وہ اپنے گھروں میں بجلی بھی زیادہ خرچ کر ر ہے ہیں اور پانی بھی۔ تمام پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کو کہا جائے کہ وہ اپنے ہسپتال اور سکول کی عمارتیں خود اپنے وسائل سے بنائیں جبکہ وہاں سٹاف اور دیگر سہولیات حکومت دے گی۔

اسی طرح ملک میں نئے سکول اور ہسپتال بنانے کی ذمہ داری متعلقہ ٹاؤنز کو دی جائے آپ دیکھیں گے کہ جس سکول کی عمارت سرکار، سولہ کروڑ میں بناتی ہے وہی عمارت یہ لوگ لیبر ریٹ پر چار کروڑ میں بنا دیں گے اس طرح کم ترین سرمائے سے کئی گنا بڑ اتعلیمی افراسٹرکچر کھڑ اہو جائے گا۔ عمران خان کو مختلف شعبوں میں اصلاحات کے لئے سو بڑے ماہرین کی ایک ٹیم بنانا چاہیے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پاس ہر شعبے کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز کیا ہے انھیں پاکستان آنے کی دعوت دی جائے۔ ان کی تجاویز کا نئے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں انتہائی اہم کردار ہو سکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).