تحریک انصاف: بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم


جنرل الیکشن بالآخر کامیابی سے اختتام پذیر ہوئے۔ امن و امان کی صورتحال انتہائی اطمینان بخش رہی جس کا کریڈٹ تمام سیکیورٹی اداروں کو جاتا ہے۔ بلوچستان میں اک افسوسناک واقعے کے علاوہ ہر طرف خیریت رہی۔ عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف بہت سے تجزیوں اور خدشات کے برعکس جیت گئی اور موجودہ صورتحال یہ ہے کہ وفاق اور دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ عمران خان وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھانے سے صرف چند دنوں کی دوری پر ہیں۔

دھاندلی دھاندلی کی گردان حسب روایت شکست خوردہ پارٹیوں کی طرف سے جاری ہے لیکن یہ ” کھسیانی بلی کھمبا نوچے“ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اگر مختلف عوامل کا جائزہ لیا جائے تو عمران خان کا اس طرح جیتنا اک ”سیاسی انہونی ” ہے جب اک طرف پی پی پی اور ن لیگ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن جیسا جغادری ہو۔ کیا انتخابات کے کچھ دن کی پیش رفت سے یہ بات روز عیاں کیطرح روشن نہیں کہ ان سب کے مفادات چاہے مختلف ہوں گے لیکن اک مشترکہ مقصد ضرور ہے کہ کوئی ایسی طاقت یا جماعت یا کوئی ایسا شخص اس نظام میں دخل نہ دے سکے جس نظام کے یہ ”بینی فشری“ ہیں

خیر آج کا موضوع نہ ہی الیکشن ہے نہ ہی موجودہ سیاسی صورتحال۔ آج کے کالم کا اصل مقصد ہے تحریک انصاف کے کارکنان اور عمران خان کے چاہنے والوں کی سوشل میڈیا پر بے لوث جد و جہد۔ دو ہزار گیارہ میں جب عمران نے لاہور میں تاریخی جلسہ کیا تب فیس بک وغیرہ پر شاید ہی کوئی اس پلیٹ فارم کے سیاسی استعمال سے واقف ہو پاکستان میں۔ لوگ وقت گزاری اور رابطے کے لئے استعمال کرتے تھے لیکن اس جلسے کے بعد فیس بک آہستہ آہستہ بدلنے لگی۔ عمران خان کی تصویریں اور فرمودات اک غیر محسوس طریقے سے گردش کرنے لگے۔

ادھر عمران خان نے عملی میدان میں کمر کس لی اور ادھر سوشل میڈیا پر اس کے کھلاڑیوں نے اور بنا کسی ذاتی فائدے کے پروپیگنڈہ کا جواب ہو، یا عمران خان کی ذاتی زندگی پر اٹھے کسی سوال کا جواب، اس وقت کے حکمرانوں کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم ہو یا ان کی کرپشن کی داستانیں۔ اس سوشل میڈیائی سیاست نے سیاست میں اک عجیب رنگ بھر دیا۔ حالانکہ مخالف جماعتوں نے باقاعدہ سوشل میڈیا ونگ قائم کیے لیکن تحریک انصاف کا رنگ سوشل میڈیا پر چھایا رہا حتٰی کہ عمران خان کو فیس بک کا وزیراعظم بھی کہا جانے لگا میرے اپنے تجزیے کے مطابق عمران خان کی جیت مین سٹریم میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا کی مرہونِ منت ہے

اس میں کون دو رائے رکھتا ہے کہ جس طرح سوشل میڈیا کا استعمال تحریک انصاف نے کیا کوئی اور پارٹی اس کا عشر عشیر بھی نہ کر سکی۔ جبکہ اک جماعت کے سوشل میڈیا ونگ کے تو خاصے چرچے بھی رہے۔ سو عمران خان کو اس کامیابی کے لئے اپنی سوشل میڈیا فورس کا بھی مشکور ہونا چاہیے کیونکہ یہی ” نسیم ” تھی جس سے بوئے گل پھیلی

جاتے جاتے تذکرہ دھاندلی اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے کا۔ جو جماعتیں دھاندلی کا رونا رو رہی ہیں ان کو چاہیے کہ کم از کم اپنی شکست کو کوئی بہانہ دینے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ ووٹ کو بھی عزت دیں۔ آپ اس طرح ہر اس ووٹر کی تذلیل اور حوصلہ شکنی کر رہے ہیں جس نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا یا کسی بھی جماعت کو۔ مولانا فضل الرحمن اگر دو سیٹیں ہار گیا تو اس میں قصور ہمارا نہیں نہ ہی کسی ایجنسی کا بلکہ مولانا کے اپنے فیصلوں اور کارناموں کا ہے۔ خیر دھاندلی کا ڈھنڈورا تو دو ہزار تئیس تک پیٹا جاتا رہے گا۔
سب پاکستانیوں کو نیا پاکستان مبارک ہو۔ انشاءاللہ اب پاکستان اور کچھ نہیں تو اپنی درست سمت کا تعین کر لے گا۔ اور آنے والا اک اک دن اس کی گواہی دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).