چاچو، چاچی اور گڈو – پرانی شادی اور نئی محبت


چاچو کا اصل نام معلوم نہیں کیا تھا۔ لیکن سب انہیں چاچو ہی کہتے تھے۔ چاچو عمر کی ساٹھ بہاریں دیکھ چکے تھے۔ اب تو اس بات کو بھی ایک دہائی ہونے کو آ رہی، جب چاچو نے اپنی ساٹھویں سالگرہ منائی تھی۔ محلے میں چاچو کے ہم عمر بہت تھوڑے سے رہ گئے تھے۔ اور بزرگ تو شاید انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ ان میں سے بھی اکثر تو ان کو چاچو ہی پکارتے تھے۔ لیکن کچھ تھے جو انہیں پیشے کی مناسبت سے ماسٹر جی کہا کرتے تھے۔ ماسٹر جی کی اپنی تعلیمی قابلیت پر تو ہمیشہ شکوک کے گہرے بادل ہی چھائے رہے۔ لیکن چونکہ ایک پرائیویٹ سکول کے مالک تھے لہذا اس لقب پر بہت خوش ہوا کرتے تھے۔

طبیعت میں نفاست کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اپنے گھر اور سکول میں ایک تنکا برداشت نہیں کرتے تھے۔ لیکن سکول کے سامنے والا پلاٹ کافی عرصے سے خالی پڑا تھا۔ اس کا بہترین مصرف سکول کے صفائی والوں کو معلوم تھا۔ اگرچہ چاچو اس طرح سے گند پھیلانے کے خلاف تھے۔ لیکن کبھی اپنی نا پسندیدگی کا شکوہ زبان پر نہیں لائے۔ یوں سکول کی ماسی سارا کوڑا ساتھ والے پلاٹ میں پھینکتی رہی اور ماسٹر صاحب کی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھاتی رہی۔

ماسٹر صاحب مزاج کے درشت تھے۔ کم از کم ہم نے ان کو کبھی مسکرا کر بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ لیکن عینی شاہد گواہ ہیں کہ سکول کی خوش شکل ٹیچرز کے ساتھ چاچو کی شگفتگی بے مثال ہوتی تھی۔ چاچو کے قریبی دوست میر صاحب بتایا کرتے تھے کہ ماسٹر صاحب جوانی میں واقعی بہت خوش مزاج ہوا کرتے تھے۔ لیکن ان کے والد گرامی جو انگریزی فوج سے ریٹائر ہوئے تھے، ان کی بے جا مداخلت نے ماسٹر جی کی شخصیت کو مسخ کر دیا۔

ماسٹر صاحب اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھے۔ ماسٹر صاحب کے والد سے زیادہ ان کے دادا مرحوم کو پوتا دیکھنے کی خواہش تھی۔ منتوں مرادوں کے بعد اللہ نے خوشی دکھائی تو بتانے والے بتاتے ہیں کہ دادا جان کے پاؤں زمین پر نا لگتے تھے۔ ماسٹر صاحب کے والد محترم کی دادا جان سے ہمیشہ ان بن ہی رہی۔ کبھی کبھی حکم عدولی بھی کر جایا کرتے تھے۔ جس پر دادا جان بہت ملول رہا کرتے تھے۔ اب پوتا آیا تو دادا کی جائیداد کا وارث ٹھہرا۔ دادا محترم اپنے پوتے کو دیکھ کر ایک مرتبہ پھر توانا محسوس کرنے لگے۔ لیکن اصل میں بیٹے کی نافرمانی سے اندر سے ٹوٹ کر رہ گئے تھے۔ برسوں پرانی بیماری عود کر سامنے آ گئی۔ اور پوتے کی پہلی سالگرہ کے ایک ماہ بعد ہی دادا جان اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ اور وصیت میں بیٹے کو پوتے کی جائیداد کا نگہبان مقرر کر گئے۔

لیکن محض دس سال بعد ہی ماسٹر صاحب کے والد نے وکیلوں سے ساز باز کر کے ساری جائیداد اپنے نام کرا لی۔ ماسٹر صاحب کا بچپن تھا لہذا انہوں نے اسے بغیر کسی پس و پیش کے قبول کر لیا۔
کچھ عرصے بعد دادا جان کی ہمشیرہ نے اپنے مرحوم بھائی کی آخری خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ لیکن ناکام رہیں۔ اور اسی غم کو دل سے لگائے دنیا سے کوچ کر گئیں۔ ماسٹر صاحب اب بیس سال کے نوجوان تھے۔ علم بغاوت بلند کیا۔ اور والد صاحب سے اپنا حق واپس لے لیا۔ لیکن ان کے والد گرامی اتنی آسانی سے ہار کہاں ماننے والے تھے۔ ماسٹر صاحب کی تیسویں سالگرہ سے قبل ہی جائیداد ایک بار پھر اپنے نام کرا لی۔ ماسٹر صاحب کی عمر پینتیس برس تھی جب والد کی مرضی سے ان کی شادی ہو گئی۔

ہر ارینجڈ شادی کی طرح ماسٹر صاحب کو بھی اپنی دلہن سے محبت ہو ہی گئی۔ چاچی شرمیلی بھی تھیں۔ اور سگھڑ بھی۔ اوپر سے ماسٹر صاحب کے والد کی پسند بھی۔ لہذا گھر میں ایک خوشگوار تبدیلی آ گئی۔ سسرال میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے۔ لیکن پہلے چند سال کوئی بڑا جھگڑا نہیں ہوا۔ ماسٹر صاحب بھی بہت خوش تھے۔ گھر میں نئی نئی چیزیں آ گئی تھیں۔ ڈیوڑھی اور برآمدہ کشادہ ہو گیا تھا۔ نیا پلستر بھی ہو گیا۔ چاچی نے ماسٹر صاحب کو نیا موبائیل فون بھی لے کر دیا۔ محلے میں ماسٹر جی پہلے شخص تھے جن کے گھر میں با قاعدہ ڈرائیو وے بنا۔ زندگی کا لطف آنا شروع ہو گیا تھا۔ ماسٹر صاحب کے والد کو بھی پسند کا ناشتہ مل جاتا، استری شدہ کپڑے اور کلف لگی ہوئی۔ لیکن وہ پھر بھی مطمئن نہیں تھے۔ اسی اثنا میں وہ ہو گیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ چاچی نے اپنے سسر کی بے جا باتیں ماننے سے انکار کر دیا۔ جھگڑا زیادہ بڑھ گیا۔ اور چاچی نے ایک رات علم بغاوت بلند کر دیا۔ اگلے ہی روز ماسٹر صاحب نے چاچی کو گھر بھیج دیا۔

تین سال کی علیحدگی کے بعد ایک بار پھر محبت جاگی اور ماسٹر صاحب بہت چاؤ کے ساتھ چاچی کو دوبارہ گھر کی رونق بنا کر لے آئے۔ اس بار پہلے سے بھی زیادہ خوشیاں منائی گئیں۔ اسی دوران چاچو نے اپنی پچاسویں سالگرہ بھی بہت دھوم دھام سے منائی۔ دور دراز سے رشتہ دار مدعو تھے۔ چاچی نے شاندار انتظامات سے سب کا دل موہ لیا۔ پڑوسیوں سے بھی برسوں پرانی کھینچا تانی ختم کرنے کے عہد و پیمان باندھے گئے۔ لیکن دو سال بعد ہی ایک بار پھر لڑائی ہو گئی۔ وقت گزرتا گیا اور چاچی کا آنا جانا لگا رہا۔ لیکن 35 سال کی رفاقت کے بعد ماسٹر جی کا دل بھر چکا تھا۔ اب وہ ایک عدد سکول کے مالک تھے۔ ان کے والد محترم بھی اب چاچی سے سخت ترین نالاں تھے۔

اسی اثنا میں سکول میں گڈو آئی۔ اگرچہ گڈو جوانی کی دہلیز پار کر چکی تھی لیکن اب بھی اس کے جلوے کسی کو بھی ہوش و حواس سے بیگانہ کر سکتے تھے۔ گڈو جوانی میں گیمز ٹیچر کے طور پر ماسٹر صاحب کے سکول میں ملازمت کر چکی تھی۔ لیکن اب وہ کافی عرصے بعد سکول کی کوآرڈینیٹر بن کر واپس آئی تھی۔ سکول کے سالانہ فنکشن میں اس نے سب کو ہی اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ماضی کی بے رنگ تقاریب کے بر عکس اس فنکشن میں اس نے شاندار میوزک اور یادگار پرفارمنس سے سب کے دل موہ لیے۔ ماسٹر صاحب جیسا دل پھینک جلد ہی اس کی گرہ کا اسیر ہو گیا۔ گڈو نے بھی لبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کی فیشن سینس ماڈرن دور کے مطابق تھی۔ چاچی ایک سادہ سی بات سادہ طریقے سے کہتی تو ماسٹر جی کو برا لگتا تھا۔ لیکن انہی کی تقریباً ہم عمر گڈو جب ماتھے پر لٹ ڈال کر وہی بات کہتی تو ماسٹر صاحب کے دل کی دنیا اتھل پتھل ہو جاتی۔

ماسٹر صاحب کے خیر خواہ سمجھاتے رہے کہ چاچی کچھ بھی ہو، آپ سے بے وفائی نہیں کرے گی۔ لیکن ماسٹر جی کے دماغ پر تو گڈو کی اداؤں کا بھوت سوار تھا۔ محلے کے فلسفی، جسے سب پیار سے برو کہتے تھے، نے پہلے تو گڈو کی حمایت کی۔ لیکن ڈاکٹر صلو اور زبیر پر دیسی نے جب گڈو کی حرکتوں کا بتایا تو برو نیوٹرل ہو گیا۔ لیکن جب بھی وہ چاچی کی خدمات کا ذکر کرتا، ماسٹر جی کا منہ بن جاتا۔ کہتے اس گنوار عورت کے ساتھ گذارا نہیں ہو سکتا۔ بھلے وہ کھانا اچھا بناتی ہے لیکن ہاتھوں سے لہسن پیاز کی بدبو آتی ہے۔

آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی بھی بہت ہے۔ اپنے گھر والوں پر مہربانیاں کرتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ پڑوسیوں کے ہاں بھی اس کی سیٹنگ ہے۔
بہت سمجھایا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

گڈو کی اداؤں نے محلے میں آگ لگا رکھی تھی۔ کئی بوڑھے جوان ہو گئے اور کئی بچے جوان ہونے کو بے تاب۔
اور بالآخر گڈو ماسٹرنی بن کے ماسٹر جی کے ہاں آگئی۔ اس موقع پر ماسٹر صاحب کے ابا جان نے گڈو کو اپنی بہو بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ ۔ ۔ ماسٹر صاحب کی خوشی سے لگتا تھا کہ ستر سال کی عمر میں سہی، سچی محبت نصیب تو ہوئی۔

لیکن کیا دیکھتا ہوں، کل ماسٹر صاحب، میر صاحب کو کہہ رہے ہیں یار گڈو کے ہاتھوں سے تو پہلی والی کے ہاتھ بہتر تھے۔ کم از کم صابن سے دھوتی تو تھی۔ ہلنا تو دور کی بات، اسے تو آٹا گوندھنا ہی نہیں آتا۔ پہلی والی تو پڑوسیوں سے بھی ابا حضور کی اجازت کے بعد ہی ملتی تھی لیکن یہ گڈو۔ ۔ ۔ ۔ کہتی ہے اپنی سالگرہ پر اگلے ہفتے انہیں مہمان خصوصی بنانا ہے۔ ۔ ۔
ہم محلے والے دم بخود اگلے منظر کے منتظر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).