لوگ سازشی نظریات کو کیوں سچ مان لیتے ہیں؟


نا صرف ہمارے معاشرے بلکہ پوری دنیا میں ہر جگہ ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو سازشی نظریات (Conspiracy Theories) پر یقین رکھتے ہیں۔ سازشی نظریات ایسے نظریات ہیں جو کسی بھی واقعے یا مظہر (phenomenon) کی متبادل وجوہات بیان کرتے ہیں؛ حالاں کہ ان متبادل وجوہات کا اس واقعے کی اصل وجہ، جو عموماً اپنی نوعیت میں سیدھی سی ہوتی ہے، سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اس سے پہلے کہ ہم سازشی نظریات کے تناظر میں انسانی ذہن کا نفسیاتی تجزیہ پیش کریں، بہتر ہوگا کہ ایک مثال پیش کی جائے۔ اور اگر مثال ہی پیش کرنی ہے تو کیوں ناں اقوام عالم کی سب سے ترقی یافتہ قوم کی بات ہو جائے۔

امریکا کے سابق صدر باراک اوبامہ نے جب الیکشن میں فتح حاصل کی تو لوگوں نے اس کی فتح کو ایک سازش سے جوڑا اور کہا کہ یہ تو امریکا میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ اسے تو خفیہ طاقتوں نے باہر سے لا کر امریکیوں پر مسلط کیا ہے۔ یہ کہہ کر اوبامہ سے پیدایش کا سرٹیفکیٹ دکھانے کا مطالبہ کر دیا۔ دن گزرتے گئے اور مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ بالآخر اوبامہ نے اپنے پیدایشی سرٹیفکیٹ کا ایک صفحہ جاری کردیا اور اس سرٹیفکیٹ کے مطابق وہ امریکی ریاست ہوائی میں پیدا ہوا تھا۔

یار لوگ اتنی آسانی سے کہاں ماننے والے تھے، انھوں نے اعتراض اٹھایا کہ دوسرا صفحہ بھی دکھاؤ تب مانیں۔ اوبامہ نے مانا اور دوسرا صفحہ بھی دکھا دیا۔ جب پورا برتھ سرٹیفکیٹ دکھا دیا گیا تو یاروں نے کہا کہ یہ یقیناً جعلی سرٹیفکیٹ ہے بلکہ یہ تو ہمیں چپ کروانے کے لیے بنوایا گیا ہے۔

بہت سے امریکی آج بھی اس سازش پر یقین رکھتے ہیں کہ اوبامہ دراصل ہوائی میں پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ اسے کئی سالوں پر محیط ایک سازش کے تحت ہوائی میں پیدا ”کروایا“ گیا تا کہ ایک دن اسے امریکا میں الیکشن جتوا کر امریکی عوام پر مسلط کیا جا سکے۔

سازش اور انسانی نفسیات:

سوال یہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سازشی نظریات کو آسانی کے ساتھ کیوں اپنا لیتی ہے۔ انسانی نفسیات پر تحقیق کرنے والے گولڈ اسمتھ یونیورسٹی آف لندن کے سائیکالوجی کے پروفیسر کرسٹوفر فرنچ کہتے ہیں:

”اگر چہ کہ بعض اوقات سازش پر یقین کسی واقعے (یا واقعات) کے منطقی تجزیے کا نتیجہ ہوتا ہے مگر زیادہ تر یہ تجزیہ اور نتیجہ غلط ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک انسان کے طور پر ہماری سب سے بڑی طاقت مختلف واقعات کو دیکھ کر ان میں ایک ترتیب (پیٹرن) ڈھونڈنا اور پھر ان ترتیبات سے نتائج اخذ کرنا ہے، لیکن بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ واقعات کو جوڑنے اور ان میں ایک ترتیب دیکھنے کی اس کوشش میں ہمیں وہ ترتیب نظر آنا شروع ہو جاتی ہے، جو کہ اصل میں وہاں نہیں ہوتی۔ اور ایسا تب ہوتا ہے جب ان واقعات کا ہونا ہمارے اثر و رسوخ اور اختیار سے باہر ہو“۔

انسان کے لیے سازشی نظریات میں کشش کی بہت سی نفسیاتی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ انسان کے اندر پہلے سے موجود تعصب ہے۔ مثال کے طور پر تمام انسان کسی ایسے ثبوت کو زیادہ وزن دیں گے جو ان کے پہلے سے قبول کیے ہوئے عقیدے کو تقویت دیتا ہو؛ جب کہ ایسے ثبوت کو رد کر دیں گے جو ان کے اس عقیدے سے مطابقت نہ رکھتا ہو یا اس عقیدے کے خلاف جاتا ہو۔ سازشی نظریات کا عنوان بھی حقیقی زندگی کے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو فطری طور پر انتہائی پے چیدہ ہوتے ہیں۔ ان واقعات کی ابتدائی اطلاعات (خبریں) عموماً غلط، متضاد یا پھر مبہم ہوتی ہیں اور سازشی نظریات کے حامل لوگ ایسے ہی واقعات اور اطلاعات کو اپنے سازشی نظریات کی تقویت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

سازشی نظریات کی قبولیت اور ان کی کشش کی دوسری بڑی وجہ انسانی نفسیات کا ایک اور پہلو ہے جسے (proportionality bias) یا تناسبی رجحان (اردو دانوں سے معذرت کہ مجھے اس سے بہتر کوئی لفظ نہیں ملا اور اردو نادانوں سے بھی معذرت کہ اتنے مشکل الفاظ استعمال کیے) کہیں گے۔ اس رجحان کے مطابق انسانی ذہن کسی بڑے واقعے کی وضاحت کے لیے کسی بڑی وجہ کا متلاشی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے لوگوں کے لیے یہ قبول کرنا مشکل ہے کہ امریکی صدر کینیڈی کو اسلحے سے لیس ایک تن تنہا نفسیاتی مریض نے قتل کیا، بلکہ وہ اس بڑے قتل کے واقعے کی وضاحت کسی بڑی سازش میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک اور ذہنی رجحان جس کا تعلق سازشی نظریات کی قبولیت سے ہے وہ ہے عکسی اطلاق (projection)۔ اس کے مطابق ایسے لوگ سازشی نظریات کو آسانی کے ساتھ قبول کرتے ہیں، جو بذات خود سازشی رویہ رکھتے ہوں یا افواہیں پھیلاتے اور دوسروں کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ خود سازشی معاملات میں کردار ادا کرتے رہے ہوں تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ آپ دوسروں کے بارے میں بھی ایسا ہی سوچیں اور آسانی کے ساتھ سازشی نظریات پر یقین کر لیں۔

سازشی نظریات اور بیرونی عوامل:

سازشی نظریات کی قبولیت میں اندرونی انسانی نفسیات کے علاوہ جو بیرونی عوامل کار فرما ہوتے ہیں، ان میں سب زیادہ اہم سازشی نظریات کے ارد گرد پھیلی دل چسپ کہانیاں ہوتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سچ عموماً سادہ اور واضع ہوتا ہے جو کہ اتنا دل چسپ نہیں ہوتا؛ جب کہ سازشی کہانیاں اپنے آپ میں ایک دل چسپی کا سامان لیے ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سچ سے زیادہ سازشی نظریات کی قبولیت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

سازشی نظریات اور دانشور:

ایسے دانشور جو اپنی تحریروں میں یا اپنے بیانات میں سازشی نظریات کا پرچار کرتے ہیں، ان کا قصہ عوام سے ذرا مختلف ہے۔ اگرچہ کہ وہ بھی عوام ہی میں سے ہیں اور سازشی نظریات کی قبولیت کی نفسیاتی وجوہات، جو عوام کے لیے اوپر بیان کی گئی ہیں، وہ دانشوروں پر بھی لاگو ہوتی ہیں، مگر ایک دانشور کے کیس میں ایک اضافی نکتہ انفرادیت کا بھی ہے۔ بہت سے دانشور جو اپنی انفرادیت اور دوسروں سے مختلف ہونے یا مختلف سوچنے پر فخر کرتے ہیں ان میں سازشی نظریات کو قبول کرنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے، اور اس کا اظہار ان کی تحریروں یا کسی بھی واقعے کے بارے ان کی رائے سے بھی ہوتا ہے۔

سازش اور سیاست:

یہ بات طے ہے کہ سازشی نظریات کا سب سے بڑا گڑھ عموماً سیاست کے ایوان ہوتے ہیں، اور یہاں وہ پارٹی یا گروہ سازشی نظریات کا حامل ہوتا ہے؛ جو کہ حکومت میں نہیں ہوتا۔ جب کہ وہ گروہ جو حکومت میں ہوتا ہے وہ ان پر یقین نہیں رکھتا۔ یونیورسٹی آف میامی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر جوزف اوشینسکی کہتے ہیں:
”سازشی نظریات ہارنے والے کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو الیکشن میں ہارے یا جنھیں کوئی مالی نقصان پہنچا ہو یا جو اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھے ہوں، وہ اپنے اس نقصان کے لیے وضاحت کے متلاشی ہوتے ہیں“۔

”اس معاملے میں سازشی نظریات، مجروح شدہ نفسیات کے لیے ٹکور کا کام ایسے ہی کرتے ہیں، جیسے کسی جسمانی زخم کے لیے گرم مٹی کی ٹکور کی جاتی ہے“۔ نوٹرڈیم یونیورسٹی کے پروفیسر جوزف پارنٹ کہتے ہیں۔ ”اگر آپ اپنے نقصان کے لیے اپنے آپ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرانا چاہتے تو پھر آپ اس کی وضاحت کے لیے خفیہ طاقتوں کا سہارا لیتے ہیں“۔

سازشی نظریات اور تضادات:

ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو کسی سازشی نظریے (الف) پر یقین رکھتے ہوں ان میں اس بات کا امکان زیادہ پایا جاتا ہے کہ وہ اس سازشی نظریے (الف) سے متضاد ایک اور سازشی نظریے (ب) پر آسانی سے یقین کر لیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کو امریکی حکومت کے بتائے گئے واقعے سے کئی سال پہلے قتل کیا جا چکا تھا تو غالب امکان یہی ہے کہ آپ اس بات پر بھی یقین کر لیں گے کہ اسامہ بن لادن ابھی زندہ ہے۔

اوپر بیان کیے گئے تمام حقائق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام سازشی نظریات غلط ہوں۔ ان میں سے کچھ صحیح بھی ہو سکتے ہیں۔ یہاں نکتہ یہ ہے کہ عوام میں سے بہت سے لوگ سازشی نظریات کو اپنائیں گے، جس کی بنیادی وجوہات اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سازشی نظریات کے حامل افراد کو خود یہ کبھی معلوم نہیں ہوتا کہ کسی واقعے کی اصل حقیقت کیا ہے، بلکہ انھیں صرف اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ کسی واقعے کی سرکاری وضاحت دراصل سچ کو چھپانے کا ایک ذریعہ ہے۔
نوٹ: یہاں بیان کیے گئے حقائق ٹائم میگزین اور سائنٹیفک امریکن کی ویب سائٹ سے لیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).