یہ کراچی میں کیا ہوا؟


دھاندلی اور بد انتظامی کے الزامات سے بھرپور  2018کے عام انتخابات مکمل ہوئے ، پاکستان تحر یک انصاف اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ، اور سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئیوں کے عین مطابق معلق پارلیمنٹ وجود میں آگئی۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے انتخابی نتائج حیران کن ہیں اور ردعمل میں انھوں نے نتائج مسترد کردئیے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی صورت حال مختلف نہیں، شہر میں 25 جولائی کے انتخابات کے نتائج حیران کن اور نا قابل یقین ہیں۔

ایم کیو ایم جو گزشتہ 31برسوں سے شہر پر بلا شرکت غیرے راج کر رہی تھی، سکڑ کر4 نشستوں تک محدود ہو گئی، تو دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی لیاری کی نشست سے شکست نے سب کو حیران کر دیا۔

کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور جس طرح الیکشن کمیشن نے کراچی کے انتخابی نتائج تقریباً 24 گھنٹوں کی تاخیر سے جاری کیے اس سے دھاندلی کے الزامات کو تقویت تو ملتی ہے مگر اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہیں پاکستان تحریک انصاف کا ووٹر باہر نکلا اور اس نے اپنی جماعت کی کامیابی کے لیے کوشش کی ہے۔

کراچی میں کیا ہوا ، اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بات تو اظہر من الشمس تھی کہ ایم کیو ایم اتنی کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی جیسی ماضی میں اسے حاصل ہوتی رہی۔ ایم کیو ایم کا ووٹر انتخابات سے قبل مخمصے کا شکار تھا، الطاف حسین نے لندن میں بیٹھ کر مہاجروں کو انتخابات کے بائیکاٹ کی ترغیب دی، جسے کراچی کے عوام کی اکثیریت نے مسترد کیا۔

سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو شکست کیوں ہوئی اور وہ بھی اتنی عبرتناک! ایم کیو ایم پاکستان میں پیدا ہونے والے اختلافات نے اس شکست میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ۔

ایم کیو ایم کا ووٹر بد ظن ہوا اور یا تو وہ ووٹ دینے کے  لیے گھر ہی سے نہیں نکلا یا پھر اس نے غصے کا اظہار کیا اور تحریک انصاف کو ووٹ دے دیا۔ الطاف حسین کے بائیکاٹ کی اپیل عمومی طور پر مسترد ہوئی مگر ان کی ماننے والے ووٹر نے اس اپیل پر ووٹ نہیں ڈالا ، پھر ایم کیو ایم اپنے روایتی تنظیمی نیٹ ورک سے بھی محروم تھی، نہ ہی ایم کیو ایم کی طرف سے شہر میں کوئی جاندار انتخابی مہم نظرآئی ۔

اگر یہ کہا جائے کہ ایم کیو ایم کی شکست کی سب سے بڑی وجہ خود ایم کیو ایم کے قائدین ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ دوسری طرف کراچی کے سیاسی افق پر ابھرنے والی جماعت پی ایس پی کی کار کردگی بھی انتہائی خراب رہی اور اس جماعت کو قومی اور صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست نہ مل سکی ۔

پاک سرزمین پارٹی کی طرف سے  مبینہ دھاندلی کی کہانیاں اپنی جگہ مگر اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ مصطفیٰ کمال بھی کراچی والوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد نے شکست تسلیم کی ہے، اور اپنی پارٹی کی سربراہی سے مستعفی ہو گئے۔ کراچی سے ایم کیو ایم کے مقابلے پر تحریک انصاف کی فتح حیران کن اور مشکوک ضرور ہے مگر ایم کیو ایم کے ووٹر نے بھی اپنی سیاسی جماعت سے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

سب سے بڑا اپ سیٹ لیاری کی سیٹ سے بلاول بھٹو زرداری کی شکست ہے، 1970سے آج تک ہونے والے تمام انتخابات میں اس حلقے سے  پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی، یہ حلقہ پیپلز پارٹی کا آبائی حلقہ سمجھا جاتا تھا مگر یہاں سے بھی تحریک انصاف کے امیدوار نے کامیابی حاصل کر لی۔

یہ کامیابی مبینہ دھاندلی کا نتیجہ ہے یا واقعی لیاری کا جیالا پیپلزپارٹی سے ناراض ہو گیا ہے، سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ لیاری کا نوجوان پیپلز پارٹی سے ناراض ہے، پیپلز پارٹی کی طرف سے علاقے کو نظر انداز کرنا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین کو شکست کا مزہ چکھنا پڑا۔

کراچی سے آنے والے انتخابی نتائج مشکوک بھی ہیں اور حیران کن بھی، دھاندلی کے الزامات بھی ہیں  مگر یہ کہنا سراسر غلط ہوگا کہ یہ مکمل طور پر دھاندلی کا نتیجہ ہیں، یہ وقت ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سنجیدگی سے ان وجوہات پر غور کریں جس  کی وجہ سےپی ٹی آئی ان جماعتوں کے مضبوط گڑھ میں نقب لگانے میں کامیاب ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).