کتنے پیسے چاہئیں؟


1.4 کھرب روپے۔ مطلب۔ 140 ارب، ابھی کتنے جمع ہوئے؟ 51 کروڑ یعنی ایک ارب میں بھی 49 کروڑ کم۔ اگراسی رفتار سے چلیں تو۔

ایک سال میں۔ 6ارب، 10سال۔ 60 ارب، 20سال۔ 120ارب۔ اور30سال میں۔ 180ارب روپے بنتے ہیں۔ کئی نسلیں بس فنڈز ہی جمع کرتی رہیں تو کہیں جا کربات بنے گی۔ اور ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عوام اسی تندہی، خوش دلی سے ڈیم کے لیے فنڈ جمع کراتے رہیں اور سپریم کورٹ اس پر کڑی نگاہ رکھے، ساتھ ساتھ ڈیم کی تعمیر بھی ہوتی رہے۔

لیکن یہ کیا۔ آپ نے تو فوراً ہی ہاتھ اٹھا لیے، ارے قدم تو جمالینے دیتے۔ اُونٹ کسی کروٹ بیٹھ جاتا، کوئی نئے پرانے گھوڑے تیارہوجاتے۔ وزارتیں مل جاتیں اور حلف برداری بھی ہوجاتی۔ فائلوں سے نکل کر اختیارات حقیقی روپ دھارلیتے۔ پھرذرا ان وزیروں اور مشیروں کاچال چلن کچھ عرصہ دیکھتے“پھر آئندہ دو ماہ میں ٹیک اوور کی باتیں کرتے،

جب ایک ماہ میں 50 کروڑ سے بھی بات اوپر پہنچ سکتی ہے، تو دو ماہ اور انتظار کرنے میں کیا حرج تھا، حکومت کو بھی ٹائم مل جاتا، عوام بھی خوش دلی سے عطیہ دیتے اور ملک کا بھی بھلا ہوجاتا۔ نگرانی کا ذمہ اپنے پاس رکھتے، تاکہ ٹیم بھی بن جاتی، کام بھی شروع ہوجاتا، اور عوام کا پیسہ بھی ضائع نہ ہوتا۔ آپ کےنام کی آس لگی ہے، عوام کے دلوں میں امید کادیا جلتا رہتا۔ اصل میں ڈر یہ ہے کہ اقتدار اور پیسہ دیکھ کر اچھے اچھوں کی نیت بدل جاتی ہے، ویسے بھی وہ کھلاڑی سے لیڈر اور پھر سیاستدان بنے ہیں۔ تھوڑا سا اور وقت لگ سکتا ہے

پچھلے منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی اتنی آسانی سے انہیں کوئی کا م کرنے نہیں دیں گے، جن کے منہ کو مفت کی لگی ہو، مشکل ہی چھوٹتی ہے۔ کم از کم چیک اینڈ بیلنس تو آپ رکھیں، انتخابات ہوئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے اور آپ نے کہہ دیا اپنا کام خود کرو۔ یہ عدلیہ کے کرنے کے کام نہیں، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
”حکومت چاہے تو ڈیموں کی تعمیر کے لیے قائم فنڈ کو ٹیک اوور کرلے کیوں کہ ججوں کا کام نہیں کہ فنڈز اکٹھے کریں۔“

ویسے اب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے عوام کی بہبود کے نا م پر پیسے بٹورے اور اڑائے ہی ہیں۔ حکمرانو ں کے لیے اربوں کھربوں یہاں سے وہاں کرنا تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، ایک چڑیا بٹھائی اور اربوں ایک بینک سے دوسرے میں ٹرانسفر۔

ڈیمز سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے کہا ”سپریم کورٹ ٹھیکے دینے کے معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی، نہ ہی دونوں ڈیمز (دیامربھاشا اور مہمند )کے تعمیری منصوبے اور ڈیزائن کے معاملے میں دخل دے گی، تاہم یہ بات یقینی بنائی جائے گی کہ منصوبے کے لیے مختص فنڈ میں کوئی گڑ بڑنہ کی جائے نہ اس رقم سے غیر قانونی طور پر کمیشن بنایا جائے۔“

اس سال مارچ میں حکومت نے بھی اصولی طور پر اس ڈیم کی تعمیر کے لیے رقم مختص کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجٹ میں سے 370 ارب روپے اس ڈیم کی تعمیر کے لیے رکھے جائیں گے، جبکہ واپڈا تقریباً 116 ارب روپے اپنے ذرائع سے جمع کرے گا۔ بقیہ 163 ارب روپے بینکوں سے قرضوں کی مد میں لیے جائیں گے۔

حکومتی اعلان کے مطابق پہلے مرحلے میں دیامر بھاشا ڈیم کے صرف پانی ذخیرہ کرنے کی سہولت پر کام ہوگا جبکہ بجلی بنانے والے سیکشن کی تعمیر میں مزید 744 ارب روپے درکار ہوں گے اور کل منصوبے کی تعمیر پر 1.4 کھرب روپے کی لاگت آسکتی ہے۔

ڈیم کی تعمیر کے لیے زمین حاصل کرنے اور آبادکاری کا کام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور اس مقصد کے لیے اب تک حکومت 58 ارب روپے خرچ کر چکی ہے جبکہ مزید 138 ارب روپے اسی سلسلے میں مختص کیے گئے ہیں۔

اور سنیے سپریم کورٹ نے راولپنڈی کے داڈوچہ ڈیم کی عدم تعمیر کا نوٹس لے لیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس کے پوچھنے پر وکیل اعتزاز احسن نے بتایا کہ ڈیم کے لئے مختص زمین پہلے بحریہ ٹاؤن اور پھر ڈی ایچ اے نےخرید لی، چیف جسٹس نے پوچھا کہ ابھی تک ڈیم بنا کیوں نہیں؟ اعتزاز احسن نے کہا کہ پنجاب حکومت کہتی ہے ہمارے پاس پیسے ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے لئے پیسے ہیں اور ڈیم کے لئے نہیں، ان منصوبوں کے بغیر زندہ رہا جا سکتا ہے مگر پانی کے بنا نہیں۔

پیسے جمع کرنے کا طریقہ حکومت نے اپنے تیئں وضع کرلیا، اور اعداد و شمار کے طویل گیم سے کتنے سال میں یہ رقم جمع ہوسکتی ہے اس پر بھی بات ہوگئی۔
لیکن کتنے پیسے چاہئیں؟ اور کتنے عرصے میں؟

پانی کی ضرورت ابھی ہے، 2025 تک پاکستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ بدترین خشک سالی کی شکل اختیا رکرجائے گا۔ اس کا عندیہ تو ’پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘ نے دے ہی دیا ہے، اس لیے اس سے قبل ہی ہنگامی طور پر کام کرنا ہوگا۔

ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے حاصل شدہ رقم، پلی بارگین کے ذریعے برآمد کی گئی رقم، جال میں پھنسی بڑی مچھلیوں کی ضبط کی گئی جائیدادیں، مختلف بزنس ٹائیکونزسے وصول کی گئی رقم اور زر ضمانت بھی اگر انہی فنڈز میں ڈال دیا جائے تو معاملہ جلد از جلد حل ہوسکتا ہے، عوام کی لوٹی ہوئی رقم صحیح جگہ استعمال ہوسکتی ہے، اور یقینا ً اس کے بعد بھی کئی ارب تو بچ بھی جائیں گے اس سے ملکی قرض اتارا جائے،

ورنہ ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر ہوتی رہے گی، ڈیم کی لاگت بڑھتی رہے گی، سیلاب آتے رہیں گے، فصلیں اور آبادیاں برباد ہوتی رہیں گئی، پانی ضائع ہوتا رہے گا، لٹیروں کی موجیں ہوتی رہیں گی۔ اورعوام روپیہ پیسہ جمع کرانے، خون پسینہ بہانے کے باوجود پانی کی بوند بوند کو ترستے رہیں گے۔ (نعوذباللہ)

خیر۔ آپ عمر، عہدے، سمجھ بوجھ میں بڑے ہیں، یقینا ً کوئی اچھا فیصلہ ہی کیا ہوگا، حکمرانوں کی آپس کی دوستیاں اور دشمنیاں، ملکی وغیرملکی مفادات بھی ہم عوام سمجھ نہیں پاتے۔ جانتے ہیں تو صرف اتنا بھارت میں بھی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن اب تلک و ہ پاکستانی دریاؤں پر 14 سے زیادہ ڈیم بنا چکا ہے۔

ہم عوام بہت بھولے ہیں سیاست اور ریاست کے معاملات کو نہیں سمجھتے، ہم صرف اپنا اور اپنے جیسے دوسرے غریب عوام کا غم جانتے ہیں، ان کاساتھ دینا جانتے ہیں، ایک آواز پر لبیک کہنا جانتے ہیں، کوئی ہمارے لیے اچھا کرے تو جان دینا بھی جانتے ہیں، باقی اللہ مالک ہے۔ 70 سال گزر گئے ہیں اور بھی گزر جائیں گے۔

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza