کیا اخبار محض کارپوریٹ گھرانوں کے مرہون منت ہوتے ہیں؟


پرسوں واجپئی اے بی پی نیوز سے کیا الگ ہوئے یاکر دیے گئے ملت میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ کئی حلقوں سے اس پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ اچھی بات ہے ہمیں صحافت کی آزادی کے لئے آواز اٹھانی چاہیے لیکن ساتھ ہی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب ان کے اپنے مفاد کی بات آتی ہے تو سب ایک ہو جاتے ہیں، خواہ وہ رویش ہوں، ملندکھانڈیلکر، ابھیسارشرمایا کوئی اور۔ اس سلسلہ میں بٹلہ ہاوس انکاونٹر اور ابھی حال ہی میں پیش آنے والا ایک اہم واقعہ شہریت کے قومی اندراج (این آرسی) کے ذریعہ 40 لاکھ افراد کو شک کے دائرے میں لے آنے والا معاملہ سمیت ہزاروں مسائل بکھرے پڑے ہیں جن کو انھیں میڈیا والوں نے بگاڑا ہے یا راست طور پر اس کو بگاڑنے میں شریک رہے ہیں۔ آخر ہم کب بیدار ہوں گے۔ ہم کب تک اپنی کم مائگی اور بے بضاعتی کا شکوہ کرتے رہیں گے؟

آج بلا تمہید مجھے یہ بات کہنے جو جی کرتا ہے کہ اب پانی حد سے اوپر اٹھ گیا ہے۔ اب وقت واقعی آگیا ہے کہ ملت کے ارباب حل و عقد اس پر غور و خوض کریں اور ہندوستان میں ایک توانا آواز کو زندہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ جو لوگ ملی صحافت کے نام پر دلالی کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں ملی صحافت کا نام نہاد نام لے کر کروڑوں روپئے اپنے پیٹ میں ڈال رہے ہیں وہ بھی اب ملت کو بخش دیں اور اگر آپ سے یہ کام نہیں ہوتا تو آپ اس سے دست بردار ہو جائیں اور کسی دوسرے کو اسے سونپ دیں یا موقع دیں تاکہ وہ اسے بہتر ڈھنگ سے نکال سکیں۔ کم ازکم وہ اپنے ذاتی یا چند لوگوں کے مفادات کی خاطر پوری قوم کو تو رسوا نہ کریں۔

میں اور زیادہ کچھ نہ کہتے ہوئے معروف مفکر اور سماجی کارکن نوم چومسکی نے ملک ’میکسیکو ’کے ایک دورے سے واپس لوٹنے کے بعد 2009میں تحریرکیے گئے اپنے ایک سفرنامہ میں وہاں کی ایک چھوٹی سی کمیونٹی کے ذریعہ جاری کردہ ایک انگریزی اخبار ’لاجورناڈا‘ کا ذکر کرنا چاہوں گا، جہاں کے اخبار اس کے ذمہ داران اور اس کمیونٹی کی تعریف کرتے ہوئے نام چومسکی نے اسے دنیا کے لئے ایک آئیڈیل قرار دیا تھا۔ نوم چومسکی کی تحریر کا وہ حصہ یہاں دہرائے جانے کے قابل ہے۔

نوم چومسکی نے لکھا تھا کہ 1984میں جاری ہونے والا اس اخبار نے انتہائی کم مدت میں وہاں سے نکلنے والے اخبارات میں اول مقام حاصل کر لیا، یہی نہیں بلکہ اس اخبار نے اپنی خبروں، تبصروں اور تجزیوں سے وہاں کی حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا اور بسا اوقات تو ایسا ہوا کہ حکومت کو بھی اس اخبار اور اس کے ذمہ داران کی پالیسی کے موافق فیصلہ طے کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

نوم چومسکی نے لکھا ہے کہ جب یہ اخبار اپنی 25 ویں سالگرہ تقریب منا رہا تھا تب تقریب کے دوران اس کے بانی سربراہ کارلوس پیان نے بتایا کہ اخبار کی شروعات کے وقت تقریباً 800 متوقع سرمایہ کار وارد ہوئے تھے اور انہوں نے ہزار پیسا (76 امریکی ڈالر) فی حصص کے طور پر شراکت کی۔ ان شراکت داروں میں اسی کمیونٹی کا ’کارلوس سلم‘ بھی موجود تھا جو آج دنیا کا تیسرا امیر ترین شخص ہے مگر اس وقت وہ ایک معمولی سا سرمایہ کار تھا۔ علاوہ ازیں میکسیکو کے دو مشہور مصور ’رفینو تمایو‘ اور ’فرانسسکو ٹولیڈو‘ نے اپنی بیش قیمت تصاویر کے ذریعے ’لاجورناڈا ’کے اصل سرمائے میں انمول اضافہ کیا۔ اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس اخبار کو خرید کر پڑھتا ہے۔ بڑی تعداد میں کمیونٹی کے لوگ اشتہارات دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ یہ اخبار اپنے پاؤں پر کھڑا ہے اور وقتا فوقتا کئی رفاہی کام بھی انجام دیتا رہتا ہے۔ چنانچہ 1989میں ’میکسیکو‘ میں جب وہاں زلزلہ آیا تو اس اخبار نے تقریبا 30 ہزار زندگیوں کی باز آبادکاری میں نمایاں کردار ادا کیا۔
نوم چومسکی نے لکھا ہے اس اخبار کو دیکھنے کے بعد مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنے اس خیال کو بدلنا پڑا کہ اخبار محض کارپوریٹ گھرانوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔

اس اخبار کی بابت نوم چوسکی کی کن کن باتوں کا تذکرہ کیا جائے کہ انھوں نے تو اس پر پورا ایک مضمون تحریر کیا ہے جو بہر حال پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور ایک زندہ اور متحرک قوم یعنی اہل اسلام کو جھنجھوڑتا ہے کہ ان کی تو اولین ذمہ داریوں میں سے ایک یہی تھی کہ وہ حق اور سچ کو صحیح ڈھنگ سے لوگوں تک پہنچانے کے لئے زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کر تے لیکن ان کا رویہ قابل افسوس ہے۔

کیا مسلم قوم بھی ’میکسیکو ’ کی اس کمیونٹی کی طرح بیدار ہوگی؟ اپنی آواز کو تقویت بخشنے کے لئے کچھ کرے گی؟ اس پر یقینی طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن بہر حال یہ امید ضرور رکھی جا سکتی ہے کہ مسلمانان ہند ایک زندہ اور متحرک قوم ہونے کا ثبوت حقیقی معنوں میں پیش کریں گے اور عملی قدم اٹھاتے ہوئے ایک ایسی تحریک کا بھرپور ساتھ دیں گے جو ہندوستان میں عملی طور پر ان کے وجود کو منوا سکتی ہے، حکومتوں کے ذریعہ ان کے فیصلہ تبدیل کروا سکتی ہے اور ان کے مسائل کو دنیا کے سامنے مضبوطی کے ساتھ پیش کر سکتی ہے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah