پنجاب کے وزیر اعلٰی کا کھیل سپر اوور تک جا سکتا ہے


بوڑھا شکاری اپنے ساتھیوں، بالکوں کو لے کر شکار پر نکلا۔ شکاری پرانا گھاگ اپنے نشانہ میں طاق تھا۔ تیر تیشے بالے چلتے رہے۔ کچھ جانور شکار ہوئے کچھ گھائل کچھ زخمی ہو کے بھاگ نکلے۔ شکار کے ساتھ ساتھ جنگل کا فاصلہ بھی طے ہوتا رہا۔ چلتے چلتے جنگل کا وسط آگیا لیکن اتنا شکار ہاتھ نہ آیا جسے کامیابی کہا جائے۔ استاد نے بالکوں کو حکم دیا واپسی کا رخت سفر باندھیں۔ سب حیران لب بستہ دلگیر۔ اتنی مشقت کے بعد یوں سیر ہوئے بغیر جانا۔ زخمی شکار کا تعاقب کیا جائے تو کامیابی کے امکان بہت۔ پرانے ساتھی تو چپ چاپ رہے لیکن نئے بالکوں سے نہ رہا گیا۔ استاد سے عرض کیا ” جنگل میں اگر اور آگے بڑھا جائے تو کامیابی ہاتھ آئے“۔ استاد ہمہ تن گوش سب سنتا رہا۔ کچھ ثانیے توقف کے بعد بولا ” یہ جنگل ہے یہاں زندگی موت شانہ بشانہ چلتی ہے ”۔ شکاری اور شکار آمنے سامنے ہو تو دونوں کے پاس اک ہی وار ہوتا ہے۔ شکار اگر خود شکار کرنے پہ آجائے تو فیصلہ ہو کے رہتا ہے۔ ہم نے یہاں تک پہنچتے پہنچتے نصف اسلحہ ہتھیار ختم کرلیے۔ آگے جانے بڑھنے سےاور شکار تو مل سکتا ہے لیکن ہماری حفاظت کی ضمانت ترکش خالی ہوجائے گا۔ بالک نے آمین کہا اور بخیر واپسی ہوئی۔

شہباز شریف نے بعدازالیکشن استاد اور گھاگ شکاری کا کردار ادا کیا۔ کوئی کچھ بھی کہے لیکن شہبازشریف کی دوراندیشی نے بہت بڑے بحران سے بچالیا۔ اگر نون لیگ احتجاج پہ اتر آتی تو پھر جمہوریت کا خدا حافظ ہوتا اور باقی بچتا دمادم مست قلند۔ جس کی خواہش لیے بہت سے دیوانے سر بازار نظر آتے ہیں۔ جو آگ مولانا فضل الرحمٰن نے لگائی تھی اس میں نون لیگ کی شمولیت جلتی پہ تیل کا کام کرتی بلکہ جلتی پہ ڈیزل کا کام کرتی۔ اسے مفاہمت، بے بسی، مجبوری یا کچھ بھی کہا جائے شہباز شریف صاحب نے مولانا فضل الرحمٰن کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔

وقت و حالات بھی اسی بات کے متقاضی ہیں جو ہے اسے طوعاً و کرہاً قبول کرلیا جائے۔ بائیکاٹ نہ کرنے کے جو چند فوائد ہیں ان سے پہلا تو پنجاب کا میدان ہے جس کے حاصل ہونے کی موہوم سی امید ہے۔ پنجاب نون لیگ کے لیے زندگی موت، فنا بقا کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہی نون لیگ کا آرسنل، یہی توپ خانہ یہی ہوم گراؤنڈ اور یہی میدان کارزار ہے۔ شریف فیملی نے برسوں جم کر پنجاب پر حکومت کی ہے۔ اس کے گلی کوچوں سے آشنائی۔ حکومتی مشینری بھی اس صوبے میں خود فٹ کی ہوئی ہے۔ پنجاب ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر یہ لوگ مرکز میں پہنچے ہیں۔ ویسے بھی لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ حاکم وہی ہوتا ہے جو دل پہ حکمران ہو۔ محبت ہو یا سیاست۔ عبادت ہو یا عدالت فیصلہ دل سے ہوتا ہے۔

مرکز چھوڑ کے تو گزارا ہو سکتا ہے لیکن صوبہ چھوڑ کے نون لیگ کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ گھر بھی جائے اور در بھی۔ پاکستانی سیاست کا محور مرکز پنجاب ہے جس کے شہبازشریف صاحب دامے درمے سخنے سر توڑ کوشش کررہے ہیں۔ اگرچہ نظر بظاہر تو تحریک انصاف نمبر گیم میں آگے ہے لیکن سیاست میں کوئی چیزحرف آخر نہیں ہوتی۔ سیاست بھی بعض اوقات مشترکہ مفاد کونسل ہوتی ہے۔ کل کا طلوع ہونے والا سورج کیا نوید لے کر آئے کا یہ میرے رب اکبر کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ سیاست کے میدان میں دوستیاں دشمنیاں وقتی اور مفادات کے مرہون منت ہوتی ہے۔ گدھے کو باپ بنانے والے مثال نہ ہی دی جائے تو بہتر۔

کل تک اک دوسرے پہ تبرا کرنے والے سیاسی حریف آج شیروشکر ہیں۔ جیسے اے این پی اور جمیعت علما اسلام یعنی ایم ایم اے اک دوسرے کی ضد ہیں لیکن مشترکہ مفادات انہیں پاس لے آئے ہیں۔ نظر بظاہر کل تک پیپلز پارٹی اور نون لیگ اک دوسرے کی ضد تھے لیکن آج قدرتی اتحادی۔ کل تک چوہدری پرویز الہٰی نون لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے لیے شجر ممنوعہ تھا۔ زرداری نے تو ق لیگ کو قاتل لیگ بھی کہا لیکن وہی قاتل لیگ اک وقت میں ان کے لیے آب حیات ثابت ہوئی۔ اسی نظریہ پہ عمل پیرا نون لیگ اور تحریک انصاف بھی اب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کے لائن میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن چوہدریوں نے حسب توقع عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

سیاست مفادات کا کھیل ہے اور کھیل فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوا چاہتا ہے۔ اس وقت ترپ کے پتے آزاد امیداوار ہیں۔ آزاد امیدوار اسی جماعت میں جائیں گے جہاں انہیں زیادہ فائدہ ہوگا۔ دونوں طرح کا فائدہ وقتی بھی اور دیرپا بھی۔ مارکیٹ اوپن ہے اور تیزی کا رجحان ہے۔ میاں شہباز شریف صاحب نے اب تک خوبصورتی سے پتے چھپا کر کھیل رہے ہیں۔ سوائے چند ناموں کے انہوں نے بہت زیادہ شو آف نہیں کیا نہ ہی بڑی بڑی ڈینگیں ماری ہیں۔ اک خبر جو باہر آئی ہے وہ حمزہ شہباز صاحب کا وزارت اعلیٰ کا متوقع امیدوار ہونا ہے۔ یہاں کسی حد نون لیگ کو سبقت حاصل ہے۔ نون لیگ میں کوئی کتنا بھی بڑا لیڈر ہو، گروپ ہو وہ چپ چاپ شریف خاندان کے آگے سرنگوں ہوتا ہے۔ مریم نواز صاحبہ اور حمزہ شہباز صاحب کی قیادت پہ سب کو خوشی کے شادیانے بجانے ہیں اور آمین کہنا ہے۔ جو معترض ہوا اس کو خدا حافظ۔

دوسری طرف تحریک انصاف اوپنلی کھیل رہی ہے۔ سوائے وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے نام کے سب کچھ اوپن ہے۔ محترمہ یاسمین راشد صاحبہ، میاں اسلم اقبال اور علیم خان کے نام مارکیٹ میں گردش کررہے ہیں۔ یہ سب میں نے بلحاظ اپنی ترجیح درج کردیے ہیں۔ تحریک انصاف میں بقول عمران خان گروپ بندی ہے اور جب بھی کسی ایک گروپ کا بندہ فائنل ہوا۔ انصاف کے اندر بے انصافی کی صدائیں رنگ میں بنے ڈال دیں گی۔ جس گروپ کو فی الوقت سبقت حاصل ہے وہ جہاز والا گروپ ہے۔ جہاز اور جہاز والوں کا خوب چرچا ہے۔ ہرروز نئے چہرے جہاز میں نشست پذیر ہورہے ہیں۔ جہازوں کا سفر مفت میں نہیں ہوتا بڑا مال چاہیے، بڑے پیسے لگتے ہیں۔ اور جہاں تک بات مال، پیسے لگنے لگانے کی ہے۔ آج تک چھانگا مانگا والوں سے بہتر کوئی بھی مال نہیں لگا سکا۔ چھانگا مانگا والے اس کھیل کی موجد اور استادوں کے استاد۔ اگر ادھر جہاز ہے تو ادھر پوری ائیرلائن ہے۔ نظر بظاہر تو نون لیگ خاموش ہے لیکن اس بحر کی خاموشی میں طوفان چھپا ہے۔ کھیل آخری مراحل میں داخل ہوا چاہتا ہے اور بات آخری بال ہی نہیں سپر اوور تک بھی جاسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).