آ چکی تبدیلی؟


کیا تبدیلی آ چکی ہے؟ میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں مجھے ملتی نہیں سوچا آپ سے پوچھ لوں۔ آ ہی چکی ہو ہوگی۔ یاد کرتے ہیں جب تمام حفاظتی انتظامات کے باوجود محترمہ بے نظیربھٹو وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئیں اور جو سمجھوتے انہوں نے کیے ان کا جواز حکومت چلانے کے علاوہ کچھ ہو نہیں سکتا تب بھی وہ روایتی طاقت کے مراکز کو مطمئن نہ کر پائیں اور اگلے ہی سال قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر غلام مصطفیٰ جتوئی نے محترمہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔ جس کے بعد آنے والا ایک ہفتہ اراکین قومی اسمبلی کے لئے بس ویسے ہی گزرا جیسے یہ ملک قائد اعظم نے صرف ان کے لئے ہی بنایا تھا۔ ایک ہفتہ اس لئے کہ تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے کے ایک ہفتے کے بعد اسمبلی سے نیا ووٹ لینا پڑتا ہے۔

تحریک ناکام ہوئی مگر مرد مومن کا جذبہ حق ابھی پوری توانائی کے ساتھ زندہ و جاوید تھا اس کو سکون کہاں ملنا تھا سو نہیں ملا اور اگلے سال اسی اگست کے مہینے میں غلام اسحاق خان نے دلیرانہ کارروائی کرتے ہوئے، اسمبلی ہی توڑ دی اور عوامی جمہوریت کا سر بلند کرتے ہوئے اسی غلام مصطفیٰ جتوئی کو پاکستان کا پہلا نگران وزیراعظم بنا دیا جس نے گزشتہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔ انتخابات کی شفافیت کو مزید یقینی بنانے کے لئے پنجاب میں مسلم لیگ کے ورکر غلام حیدر وائیں کو نگران وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا اور پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبہ سندھ میں نگران وزیر اعلیٰ جام صادق بنے جو پریس کے سامنے بار بار یہ دہرانا ضروری سمجھتے تھے کہ وہ اسحٰق خان کے ایس ایچ او ہیں۔

یہ سب کچھ اس وقت میاں نواز شریف کو سوٹ کر رہا تھا وہ طاقت کے مراکز کے پسندیدہ لیڈر تھے اور ان کو وزیر اعظم بنانے کے لیے جیسا جنگ اور محبت کے بارے میں کہا جاتا ہے تمام اصول بھلا کر سب کچھ جائز قرار پایا۔ دوسری مرتبہ ان کی حکومت ان کے اپنے بنائے صدر فاروق لغاری نے اسمبلی توڑ کر ختم کر دی، ناراض پیپلز پارٹی کی بی کلاس ٹیم نے ملک معراج خالد کی سربراہی میں الیکشن کروائے اور اس وقت کا پریس ملک صاحب کی سادگی کی داد ہی دیتا رہ گیا ان کا یہ شکوہ کسی نے نہیں سنا کہ ان کی بات کوئی افسر نہیں سن رہا اور صدر فاروق لغاری ہیں جو تمام انتظامات کی نگرانی کر رہے ہیں۔

اس واقعے سے چھ ماہ قبل نواز شریف نے حامد میر، نصرت جاوید اور عامر متین کو پی سی بھوربن بل کر نئی حکومت کے بارے میں اپنے منصوبوں کے بارے بتایا اور ان سے درخواست کی کہ انہیں الیکشن کے بعد، منتخب ہونے کے بعد، حکومت بنانے کے بعد کم از کم چھ ماہ کا عرصہ دیا جائے اس کے بعد تنقید کی جائے۔ اس الیکشن کی شفافیت کا عالم یہ تھا کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی محض 17 نشستیں حاصل کر پائی۔ ان دو مثالوں کو سامنے رکھیں تو حالیہ الیکشن بہت اجلے دکھائی دیتے ہیں۔

اب آئیے نظریاتی سیاست کی طرف، نواز شریف کا بیانیہ جو اب تمام اپوزیشن کا بیانیہ دکھائی دے رہا ہے وہ کیا ہے؟ مختصر الفاظ میں یہ کہ اس ملک میں آئین کے مطابق عمل کیا جائے، اختیار اور اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کیا جائے، سایوں یا ایجنسیوں کا سیاسی کردار کا خاتمہ کیا جائے۔ نواز شریف، موجودہ پیپلز پارٹی، مولانا فضل الرحمان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ منتخب ہونے والے سویلین لیڈر کے ہاتھ پاؤں کس طرح باندھے جاتے ہیں، ان سے زیادہ کون واقف ہے کہ چھوٹی سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے سہارے ملنے والی حکومت کتنی با اختیار ہو سکتی ہے، وہ جانتے ہیں کہ اب عمران کو کس کس طرح زچ کیا جائے گا اور انہیں کنٹرول کرنے کے طریقے کیا ہوں گے۔ سچی بات ہے کہ یہ طریقہ اب اتنا فرسودہ ہو چکا ہے کہ اس کو ہوتے دیکھنا بھی بوریت کے علاوہ کچھ نہیں۔ تو پھر ایک نظریاتی جماعت یا نظریاتی قیادت کو کیا کرنا چاہیے، اگر نظریہ سویلین اقتدار قائم کرنے کا ہے تو راستہ سامنے ہے۔

آج اگر مسلم لیگ ن سمیت تمام اپوزیشن عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دینے کا اعلان کر دے، اور بتائے کہ وہ پاکستان میں صرف منتخب قیادت کو یہ حق دینا چاہتی ہے کہ وہ اقتدار کی مالک ہو، وہ بتائیں کہ آدھے پاکستان نے آپ کو ووٹ دیا باقی نے ہم کو اور ہم سب کا نظریہ عوامی اقتدار ہے یا ووٹ کی عزت ہے اور ہم آپ کے اور اپنے ووٹ کی عزت کرتے ہوئے آپ کو مکمل اعتماد دیتے ہیں۔ ہم اپوزیشن میں رہیں گے آپ کی ایک ایک پالیسی اور ایک ایک قدم پر نظر رکھیں گے اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھیں گے لیکن پارلیمنٹ سے باہر کسی دوسرے کو یہ حق نہیں دیں گے کہ وہ آپ کو بلیک میل کرے یا آپ کو کمزور کرے۔ آپ کو چھوٹی پارٹیوں یا آزاد امیدواروں کے چنگل میں نہیں آنے دیں گے، ہم آپ کے ساتھ وہ نہیں ہونے دیں گے جو ہم نے کیا بھی اور ہمارے ساتھ ہوا بھی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ان انتخابی نتائج میں فساد اور بلیک میلنگ کے بیج عین اسی جگہ موجود ہیں جہاں پہلے رکھے گئے تھے۔

تو بتائیں منظر نامہ کیا بنے گا۔ کون سےوہ کام ہیں جو یہ سب مل کر اس وقت نہیں کر سکتے۔ کون اس وقت ٹینک لانے کی جرات کرے گا۔ کس میں ہمت ہے جو اس وقت ان سب کی مشترکہ طاقت کے سامنے آئے۔ یہ سب اس وقت کی حقیقت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہوتی چلی جائے گی اور پھر یہ سب جائیں گے۔ میں اس عمر سے گزر چکا جب دل کی خواھشات ذہن پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں لہذا مجھے اب موجودہ حکومت اور اپوزیشن سے کوئی امید ہی نہیں کہ وہ اس ملک میں سویلین اقتدار قائم کرنے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہیں۔ یہ اس قدر فرسودہ اور چھوٹے دلوں کے مالک ہیں کہ پھر سے اکٹھے ہو کر صرف اور صرف عمران خان کو ذلیل کرنے میں لگ جائیں گے۔ یہ سب اس کی سیاسی کمزوریوں کو اور بڑھائیں گے اس کی حکومت گرائیں گے، اصل بات کی جانب کبھی نہیں آئیں گے۔

ان کو دوبارہ فوج کی براہِ راست حکومت قبول ہو گی مگر عمران خان نہیں۔ عین اسی طرح جس طرح بی بی کو نواز شریف کو ہٹانا ہی مقصود نظر آتا تھا اور نواز کو بی بی کا ہٹانا، بعد میں کیا ہو گا کسی کو دلچسپی ہی نہیں تھی۔ بند کمروں میں اس وقت آزاد امیدواروں سے کیا بات چیت ہو رہی ہوگی کیا شہباز شریف نہیں جانتے۔ سب جانتے ہیں مگر وہ اس کا مزہ لیں گے۔ نظریاتی قیادت کو فرد سے نہیں اپنے نظریات سے دلچسپی ہوتی ہے، وہ اپنے اصولوں کی حکمرانی چاہتے ہیں محض اپنی نہیں۔

اور کوئی نہیں تو صرف شہباز شریف ہی آگے بڑھیں، اعلان کریں کہ وہ منتخب قیادت کے ساتھ ہیں اور وہ اسے بلیک میل نہیں ہونے دیں گے تو ان کو اور ان کی پارٹی کو جچتا ہے کہ وہ کسی نظریے کی بات منہ سے نکالیں۔ آج دل بڑا کر لیں، آنے والے سارے کل اس ملک کی منتخب قیادت کے ہوں گے لیکن انہیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں، یہ بچے کچھے اقتدار پر ہی خوش ہیں۔ لوگ تو پہلے بھی نکلے تھے اب بھی نکلیں ہیں مگر نہ پہلے انہیں کچھ ملا تھا اور نہ اب ملنے کی امید ہے۔

اب آئیں تحریک انصاف کی جانب، جو قیادت ایک صوبے کے پی میں دو تہائی اکثریت ملنے کے باوجود 8 دن تک اپنے وزیر اعلیٰ کے نام کا اعلان نہ کر پائے، اور پنجاب میں اکثریت بناتے وقت کوئی جانتا ہی نہ ہو کہ ایوان کا قائد کون ہو گا۔ مطلب یہ کہ اسمبلی میں آپ نمبروں کو پورا کر رہے ہیں اس کا علم ہوئے بغیر کہ اس کا قائد یا وزیر اعلیٰ کون ہو گا۔ کمال ہے یا نہیں۔

اعلان ہوا کہ میں وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہوں گا، بعد میں سپیکر ہاؤس کا اعلان ہوا آگے کون جانتا ہے یہ سواری کہاں گرے گی۔ کوئی بھی نہیں۔ یہ ایک واقعہ بتا رہا ہے کہ کتنی خوب تیاری کی گئی ہے، آگے بھی یہ ہی کچھ۔ کبھی کبھی میں پچھتاتا ہوں کہ کیوں ڈراموں کی رنگا رنگ دنیا چھوڑ کر میں نیوز کی اکتاہٹ بھری زنگ آلود کھڑی بس کا مسافر بن گیا، وہاں کم از کم کہانی ہی سہی کبھی کبھی نئی تو ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).