کچھ انصاف اور سزا کے بارے میں


\"wajahat\" بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے سن رسیدہ رہنماﺅں کو چوالیس برس قبل ہونے والی خانہ جنگی کے دوران مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے جماعت اسلامی کے 73 سالہ امیر مطیع الرحمن نظامی کو بھی سزائے موت دی گئی ہے۔ دنیا بھر میں اس معاملے پر تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ ان مقدمات میں شفاف سماعت کے تقاضے پورے نہیں کئے جا رہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان مقدمات کا محرک انصاف کی بجائے سیاسی انتقام ہے۔ بنگلا دیش کی موجودہ حکومت ان مقدمات کی مدد سے سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاریخی اور نظریاتی اسباب کی بنا پر پاکستان میں اس موضوع پر زیادہ حساسیت پائی جاتی ہے۔ ہمارے برادر اسلامی ممالک میں شفاف سماعت کے تقاضے پورے کئے بغیر سزائے موت دینے کا چلن عام ہے ۔ ایران سے اس نوع کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔ سعودی عرب میں تو ہر برس درجنوں پاکستانی باشندوں کو سزائے موت دی جاتی ہے تاہم پاکستان میں اس پر کسی خاص تشویش کا اظہار سننے میں نہیں آتا۔ ہم نے اپنے ہاں انصاف اور قانون کے مباحث کو سیاسی عصبیت کے تابع کر رکھا ہے۔ آئین پاکستان میں آرٹیکل 10اے کا اضافہ ایک اہم سنگ میل ہے جس میں شہریوں کو منصفانہ سماعت کی ضمانت دی گئی ہے تاہم ہمارے سیاسی اور تمدنی حلقوں میں ابھی تک قانون کو اقتدار کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد سے سننے کو ملتا ہے کہ عام آدمی کو قانون اور آئین سے کیا غرض ، عام آدمی تو اپنی دال روٹی کی فکر میں ہوتا ہے۔ صاحب، قانون اور آئین حتمی تجزیے میں عام آدمی کی دال روٹی ہی کا بندوبست ہے۔ ہمیں قانون اور شہریوں کے معیار زندگی میں باہم تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

انسانی حقوق کے تصورات اور مسائل خاصے پیچیدہ ہیں۔ کسی ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال نیز انسانی حقوق کے احترام، تحفظ اور فروغ کی کوششوں پر ریاستی قوانین، سماجی ڈھانچوں اور انفرادی رویوں کے علاوہ عالمی حقائق بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن اپنے نقطہ نظر پر سمجھوتہ کیے بغیر زمینی حقائق کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔ سماج میں اجتماعی شعور کی مطلوبہ سطح موجود نہ ہو تو ریاست انسانی حقوق کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ انصاف اور آزادی کے حصول کے لیے اہل علم، باصلاحیت، دیانتدار اور جرات مند انسانوں کی طویل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کا حتمی معیار انسانی ضمیر کی وہ آواز ہے جو آزاد اور ذمہ دار افراد کے کھلے اجتماعی مکالمے کی روشنی میں تشکیل پاتی ہے۔

دنیابھر میں سزائے موت کی منسوخی انسانی حقوق کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور تنظیموں نے ہمیشہ سے سزائے موت کی اصولی اور غیر مشروط مخالفت کی ہے تاہم پاکستان کے مخصوص سیاسی، سماجی اور قانونی حالات کے باعث سزائے موت کی تنسیخ کا سوال ابھی تک انسانی حقوق کی تحریک میں مرکزی اہمیت اختیار نہیں کر سکا۔ ایک طرف دنیا بھر میں ایسے ممالک کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جہاں فوجداری قوانین میں سزائے موت کو حرف غلط کی طرح مٹایا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی قانون میں سزائے موت کے حوالے سے گذشتہ برسوں میں متعدد دستاویزات، قرار دادوں او ر معاہدوں کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف ہمارے قانونی نظام میں ایسے جرائم کی فہرست روز بروز طویل ہو رہی ہے جن کے نتیجے میں سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ریاستی اداروں کا زوال اور ریاستی اقتدار کا دیوالیہ پن ہے۔ انسانی تاریخ میں ہمیشہ جب کوئی مخصوص حکمران ٹولہ ملکی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو پھر سخت سزاﺅں اور تشدد کے ذریعے حکمرانی کے بحران پر عارضی بند باندھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ سزائے موت کے حوالے سے ہمارے موقف پر سیاسی نقطہ نظر، مذہبی شناخت اور علاقائی وابستگیوں کے اثر انداز ہونے کا امکان ابھی ختم نہیں ہوا۔ اگر انسانی حقوق کے کارکن مخالف نقطہ نظر رکھنے والے ملزم کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کریں تو یہ ایک نامناسب رویہ ہوتا ہے۔ انسانی جان کا تحفظ ایک بنیادی اور ناقابل تنسیخ حق ہے۔ کوئی فرد یا گروہ یا معاشرتی ادارہ انسان کو زندگی عطا نہیں کرتا اور نہ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ کسی فرد، گروہ یا معاشرتی ادارے کو انسانی جان لینے کا حق بھی نہیں دیا جا سکتا۔ قانون اور انصاف کا کوئی نظام غلطی کے امکان سے خالی نہیں ہوتا۔ اگرکسی شخص کو غلطی سے سزائے موت دے دی جائے تو اس کی تلافی کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ قانون کی اس ناگزیر کمزوری کے پیش نظر سزائے موت کو درست قرارنہیں دیا جا سکتا۔ سزائے موت پانے واے شخص کے اہل خانہ جس عذاب سے گزرتے ہیں وہ انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے کیونکہ یہ لوگ بے گناہ ہونے کے باوجود بے پناہ اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔

سزائے موت کا بنیادی محرک انتقام کا جذبہ ہے۔ انتقام کا اصول تسلیم کرنے والا نظام قانون، کسی بھی معاشرتی برائی کی جڑ تک پہنچنے سے قاصر ہوتا ہے۔ روایتی اخلاقیات میں بھی انتقام کو ایک ناگوار اور منفی قدر سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اگر انصاف مہیا کرنے والے اداروں اور قوانین میں بھی انتقام جیسے منفی رویے کا جواز فراہم کیا جائے تو انسانی معاشرہ اپنے مہذب مقام سے گر جاتا ہے۔ سزائے موت کی حمایت کرنے والے افراد معاشرے میں عبرت وغیرہ جیسے جواز فراہم کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بدترین اور غیر انسانی سزاﺅں کی ایک طویل فہرست کے باوجود عبرت کبھی جرائم کی روک تھام کے لیے مو¿ثر ذریعہ قرار نہیں پائی۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں جیب کاٹنے پر سزائے موت دی جاتی تھی۔ تاریخ میں یہ سچائی درج ہے کہ جیب کاٹنے پر سزائے موت پانے والے مجرم کا تماشہ دیکھنے جو ہجوم جمع ہوتا تھا اس میں بھی بہت سے افراد کی جیب کٹ جاتی تھی۔ پاکستان میں گزشتہ چند برس میں بہت سے قوانین میں سزائے موت کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان سزاﺅں کے باوجود معاشرے میں امن و امان کی صورت حال بدتر ہوئی ہے اور جرائم کی شرح بلند ہوئی ہے۔ بات یہ ہے کہ محض ”عبرت ناک“ سزاﺅں سے معاشرتی برائیوں کی جڑ ختم نہیں کی جا سکتی۔ اس دلیل کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عبرت ناک سزا میں لازمی طور پر منصفانہ اور جائز حد سے آگے بڑھ کر سزا کا رجحان پایا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں خوف پیدا کیا جا سکے۔ یہ امر بذات خود سزا پانے والے مجرم کے ساتھ زیادتی ہے کہ اسے محض دوسروں کے لیے ایک عبرت ناک مثال بنانے کی غرض سے اپنے جرم سے بڑھ کر سزا ملے۔

کسی معاشرے میں قوانین کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزی اس امر کا اشارہ دیتی ہے کہ معاشرتی ادارے شہریوں کے درمیان پُرامن اور تسلی بخش رشتے قائم رکھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ عوام دشمن اور غیر منصفانہ حکومتیں ایسے مواقع پر اداروں اور قوانین میں مناسب تبدیلیوں کی بجائے سخت ترین سزاﺅں کا ہتھکنڈا اختیار کرتی ہیں کیونکہ معاشرتی اور ریاستی نظام میں بنیادی تبدیلیوں سے حکمران طبقے کو اپنی اجارہ داری ختم ہونے کا خوف لاحق ہوتا ہے۔ چنانچہ محض قتل ہی نہیں بلکہ نسبتاً کم سنگین جرائم پر بھی سزائے موت جیسی انتہائی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔تاہم سزا تو انصاف کے لئے موجود ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے، سزا ئیں دینا بذات خود مقصد نہیں ۔ انصاف کا تصور محض سزاﺅں تک محدود نہیں۔ ہمیں سزاﺅں کی بجائے انصاف کے تصورات پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).