‎معاشرے کی تعلیمی ترقی میں نئے نوجوان چہرے


‎دنیا کے ہر روز معاشرے میں قومیں ترقی کر رہی ہیں اور تبدیلی کی طرف گامزن ہیں اس تبدیلی کی بنیاد تعلیم ہے جس کے ذریعے معاشرے میں فرسودہ نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جب کوئی قوم اپنی کمزوری کو سمجھ جائے تو وہ اسے جڑ سے پکڑ کر ختم کر سکتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں تعلیم کو عام کرنے کے لئے پہلے اس معاشرے کے لوگوں کی ذہنیت اور اس میں موجود کمزوریوں کو سمجھ کر نوجوانوں اور طالب علموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

‎کراچی یونیورسٹی میں 03 اگست 2018 بروز جمعہ کو بلوچ اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں مہمان وہ طالب علم تھے جو اپنے علاقوں میں مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں جس میں رشائل بلوچ اور اللہ بخش بلوچ موجود تھے جو ٹیکری ایجوکیشن سینٹر میں طالب علموں کو مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں اور خود بھی میٹرک کے طالب علم ہیں۔ اسی پروگرام میں اورنگزیب بلوچ جو بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے سلسلے میں کراچی کے قدیم ترین علاقے لیاری میں سرگرم ہیں اور ہُداہیر بلوچ جو ملیر میں طالب علموں کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہیں۔
‎پروگرام میں ان سے تعلیمی معیار اور معاشرے میں موجود تعلیمی مسائل پر سوال کیئے گئے۔

‎رشائل بلوچ نے کہا جب ہم شروع میں ٹیچنگ کر رہے تھے تو ماڑی پور میں موجود لوگوں نے ہمارے کو۔ایجوکیشن سسٹم پر اعتراضات کی بوچھاڑ کی تھی مگر آج پانچ سال مکمل ہونے پر تمام لوگ ہماری کارکردگی پر خوش ہیں اور آج ہم اپنے ایک فرسودہ علاقے کو تبدیلی کی جانب گامزن کر رہے ہیں۔

‎اورنگزیب بلوچ نے کہا ہم تبدیلی اس وقت لاسکتے ہیں جب ہم سب سے پہلے اپنے آپ کو تبدیل کریں اس کے بعد ہم اپنے معاشرے کو تبدیلی کی جانب لے جاسکتے ہیں ایک فرد اپنے لئے سب کچھ خود کرسکتا ہے کوئی باہر سے آکر ہماری مدد نہیں کرے گا ہر انسان اپنی قوم کی ترقی اور بہتری کے لئے خود محنت کرے۔

‎ہُداہیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم تعلیم کے ذریعے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں اور معاشرہ خود انسان کی زندگی میں استاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج ہم رجعت پسند سوچ سے آگے بڑھ کر ترقی پسند ہورہے ہیں۔

اللہ بخش بلوچ کا کہنا تھا کہ جب میں اسکول جاتا تھا تو میں بہت مایوس ہوتا تھا کیونکہ میں معذور ہوں مگر آج ٹیکری ایجوکیشن سینٹر کی بدولت میں خود کو معذور کبھی نہیں سمجھتا بلکہ میں یہ کہتا ہوں معاشرے میں موجود ہر ایک فرد اپنے علاقے کے غریب طالب علموں کو تعلیم فراہم کرسکتا ہے اور اللہ بخش بلوچ نے مزید کہا:۔
‎نیلسن منڈیلا کہتا ہے معاشرہ ایک نقطہ ہے اور اس میں تبدیلی صرف تعلیم ہی کے ذریعے آسکتی ہے۔

‎مہمانوں نے بلوچ اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی آف کراچی یونیورسٹی کا دل سے شکریہ ادا کیا کہ ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

‎اگر آج ہم اپنے معاشرے پر نظر دورائیں تو ہمیں تعلیم یافتہ لوگ تو ملیں گے مگر اُن میں وہ شعور نہیں پایا جائے گا جو واقعی ایک طالب علم کو حاصل ہوتا ہے کیونکہ تعلیم وہ نہیں ہے جو صرف نوکری کے لئے ہو بلکہ تعلیم وہ ہے جو لوگوں میں شعور پیدا کرے تا کہ وہ ایک پُر شعور معاشرے کو جنم دے سکیں۔ آج ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے عظیم شخصیات ملیں گے جو تعلیم کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں اور تعلیم کو عام کر رہے ہیں۔ ہمیں تعلیم ہمیشہ تحکم طریقے سے یا تصورات پسند طریقے سے دی گئی ہے اس وجہ سے آج ہم ایک ربوٹ کی شکل اختیار کر چکے ہیں کیونکہ ہمارے اندر جب سوچنے کی صلاحیت ختم ہوجائے اس کا مطلب ہمیں Man۔ Yes بنایا گیا ہے ہم چیزوں پر تنقید کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

اس کی مثال اس طرح ہے اگر ہم کسی سوال کا جواب پیپر میں اپنی ذہنیت کے مطابق دیں یا تو اس میں نمبر نہیں ملتے یا کم ملتے ہیں یا طالب علموں کو پہلے سے کہا جاتا ہے جو لکھا ہے وہ لکھو جس کی وجہ سے ہم خود سوچنا اور سمجھنا ترک کر دیتے ہیں۔
‎جس طرح بلوچ اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کی ممبر حنا بلوچ نے فرمایا اگر ہم تعلیمی معیار کے مطابق دیکھیں تو آج بھی 22 ملین بچے حصولِ تعلیم جیسی حسین شے سے نا آشنا ہیں۔

‎اس کا مطلب اب یہاں ایک طالب علم کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
‎اپنے مفاد اور ذاتی زندگی کو خوشگوار رکھ کر زندہ رہے یا اِس خوشگواری میں اپنے معاشرے کے طالب علموں کو بھی شامل کرے۔

‎ہر ایک طالب علم کا فرض ہے کہ وہ تعلیم کو پھیلائےاور اپنے آپ سے تبدیلی کی شروعات کرے کیونکہ اگر ہم خود مضبوط ہوجائیں تو معاشرہ ایک مضبوط مقام پر پہنچ جائے گا کیونکہ جب جڑیں مضبوط ہو تو درخت بھی مضبوط ہوگا۔ تو آج معاشرے کے لئے طالب علموں کا مضبوط ہونا جڑ کی طرح ہے اور معاشرہ درخت کی طرح ہے اور اِس میں کامیاب ہونا میٹھے پھل کی طرح تو ہر طالب علم کو اپنا انمول فرض ادا کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).