گرمی، الیکشن اور دھاندلی



جنرل الیکشن کے انعقاد کا اعلان کیا گیا، تو میڈیا پرسنز کو پی آئی ڈی کی تصدیق کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے پاسز جاری کئے گئے۔ یہ پاس جاری کرنے کے بعد بتایا گیا صحافی پولنگ اسٹیشن کے اندر کیمرے کا استعمال نہیں کر سکتا۔ تحصیل پیر محل کے صحافیوں کو کہا گیا، آپ فیصل آباد پی آئی ڈی کے دفتر میں اپنے ڈاکیو منٹ جمع کروائیں۔

پیر محل کے صحافی برادرم اسد حفیظ اور راقم نے راحت سفر باندھا، اور یہ صبر آزما سفر اپنے انجام خیر کو پہنچا۔ سندھیلیانوالی سے میرے سمیت کل پانچ صحافیوں نے اپلائی کیا مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میری ٹیم کے چار لوگوں کو کارڈ ہی جاری نہ کیے۔ جن میں کیمرا مین کرائم رپورٹر تحصیل رپورٹر شامل تھے۔ میری ٹیم کے ارکان کو جب یہ پتا چلا انہیں کارڈ جاری نہیں کئے گئے۔ میرے سمیت سب مایوس ہوئے۔ صبح تقریباً 8:15 پہ اپنے آبائی حلقے کے پولنگ اسٹیشن پر پہنچا۔ یہ گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول میں بنایا گیا تھا۔ پولنگ اسٹیشن کے باہر والا گیٹ پولیس کے حوالے تھا۔ مین گیٹ کے باہر بدنظمی تھی دھکم پیل ہو رہی تھی۔ ووٹر پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کے لئے بے صبرے ہو رہے تھے۔

اندر دو لائنیں بنی ہوئی تھیں۔ اور ووٹر بڑے سکون کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ نوجوانوں میں جوش تھا اور چند ایک تو اپنی زندگی کا پہلا ووٹ کاسٹ کر رہے تھے۔ پریزائڈنگ آفیسر ہمیں خندہ پیشانی سے ملے یہ ٹیچر تھے۔ ہم نے پوچھا اگر سامان کی کمی وغیرہ ہے تو بتائیں؟ ہم میڈیا کے توسط سے احکام بالا تک آپ کی بات پہنچائیں گے؟ انہوں نے کہا سب ٹھیک ہے۔ ان کو اپنا وزٹنگ کارڈ دیا، ہمیں رات کو اس پولنگ کا رزلٹ بتا دیجیے گا۔ انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے نفی میں جواب دیا۔ ہم نے کوئی لمحہ ضایع کیے بنا وزٹنگ کارڈ ان کے ہاتھ سے اُچک لیا۔

پولنگ کا عمل پرسکون طریقے سے جاری تھا۔ اور ووٹر پر کسی بھی پارٹی کا کوئی پریشر نہیں تھا۔ ہر ووٹر آزادی کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہا تھا۔ اور یہ سب پاک فوج کی وجہ سے تھا۔ ہمارے دوست محترم ریاضت بخاری میرے آبائی پولنگ اسٹیشن پر پہنچ گئے تھے۔ اور چک 758 گ ب کے پولنگ اسٹیشن پر ہم دونوں مل کے پہنچے۔ یہاں پر سارا عمل قانون کے عین مطابق چلتا ہوا نظر آیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سیکورٹی اداروں کی طرف سے میڈیا کو پولنگ اسٹیشن کے اندر کوریج کی اجازت نہیں تھی۔

اگر میڈیا کو آزادی کے ساتھ کوریج کی اجازت دی جاتی تو الیکشن میں بری طرح شکت کھانے والی قوتوں کو میڈیا آئینہ دکھا سکتا تھا۔ فوج نے فری اینڈ فیئر الیکشن کروایا ہے۔

بستی محمد آباد سندھیلیانوالی کے پولنگ اسٹیشن پر پہنچے تو پتا چلا یہاں پر ووٹنگ روکی ہوئی ہے۔ اور ووٹرز کے بے ہنگم سے رش کو کنٹرول کرنے کے لئے مزید فوج طلب کی گئی۔ یہاں پر ن لیگ اور تحریک انصاف کے ورکروں کے درمیان تصادم کا خطرہ تھا۔ فوج نے بروقت پہنچ کر کنٹرول کیا اور ووٹنگ کا عمل شروع کروایا۔

تحریک انصاف کی امیدوار سونیا علی رضا کے گاؤں ناصر نگر میں پر سکون ماحول میں ووٹنگ کا عمل جاری تھا۔ مگر میرے خیال میں جب شام کو یہاں کا رزلٹ آیا تو ٹرن آؤٹ کم تھا۔ جتنا ہونا چاہئے تھا وہ نہیں تھا۔ چک 750 میں بوائز اور گرلز پرائمری اسکول آمنے سامنے ہیں۔ شدید گرمی ،حبس، اور کڑاکے کی دھوپ میں ووٹر لائنوں میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ چند ایک نوجوان مجھے دیکھ کر وکٹری کا نشان بنانے لگے۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے۔ یہاں پر فوٹو اور وڈیو بنانے کی ممانعت ہے۔ اس دفعہ میڈیا پر اتنی زیادہ قدغن سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر میڈیا پر لگنے والی اس قدغن کے خلاف کوئی سراپا احتجاج نہیں ہوا۔ یہاں پر بھی ووٹر پر کسی قسم کا پریشر نہیں تھا۔ برادرم عبدالرزاق سہوآنہ نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ واپسی پر تقریبا 150 میٹر دور سے پولنگ اسٹیشن کی ایک تصویر بنانے کی اجازت بمشکل ملی۔

بھائی عبد الرزاق کے ساتھ 16 چک کا راحت سفر باندھا۔ یہاں پر بھی سب عمل ٹھیک جاری تھا۔ پولنگ اسٹیشن کے باہر ن لیگ کے کیمپ میں ویرانی تھی۔ جب کہ آزاد امیدوار عرفان الحسن اور سونیا رضا کے کیمپوں میں ووٹر موجود تھے۔ جس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا، یہاں پر مقابلہ آزاد امیدوار اور تحریک انصاف کے مابین ہے۔ اسکول کے مین گیٹ پر پاک آرمی اور پٹرولنگ پولیس کے اہل کاروں نے موبائل فون لے کر اپنے پاس رکھ لئے۔ 675/16 چک کے پولنگ اسٹیشن میں اسکول کے وسیع برامدے میں ووٹرز کی لائنیں بنی ہوئی تھیں۔ یہاں کے ووٹر چھاؤں میں اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ مختلف پارٹیوں کی طرف سے پولنگ ایجنٹوں کی مد میں خاصی تعداد میں لوگ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر گھوم رہے تھے۔ بہرحال پاک فوج کی وجہ سے سب کچھ پر امن چل رہا تھا۔

755 کے اسکول میں خاصی تعداد میں ووٹر موجود تھے۔ یہاں پر پیرمحل بار کونسل کے وکیل ریاض مریانہ سے ملاقات ہوئی۔ مجھے بڑی گرم جوشی سے ملے اور بتانے لگے کہ ہم پارٹی کی طرف سے پولنگ ایجنٹ ہیں، یہاں پر موجود عملے نے اطمینان کا اظہار کیا۔ طائرانہ نگاہ سارے پولنگ اسٹیشن پر ڈالی۔ مگر یہاں پر دھونس دھاندلی ہراساں کرنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

کارپٹ روڈ پر گاڑی فراٹے بھرتی چک نمبر 752 بتریاں والا میں داخل ہو گئی، یہاں پر گرلز پرائمری اسکول میں پولنگ اسٹیشن قائم کیا گیا تھا۔ تھانا اروتی کے پولیس اہل کار بڑی گرم جوشی سے ملے۔ یہاں پتا چلا 44۔4 فی صد کاسٹنگ مکمل ہو چکی ہے، اور ووٹر اب بھی موجود ہیں۔ یہاں کے پریزائڈنگ آفیسر بڑی خشک طبعیت کے مالک لگ رہے تھے۔ پاک فوج نے یہاں پربھی مکمل فری اینڈ فیر ووٹنگ کروائی۔ حبس خاصا تھا۔ ایسے لگنے لگا جیسے سانس بند ہونے کو ہے۔

تقریباً پونے دو بجے ہم خورشید آباد کے پولنگ اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ شدید گرمی میں پولنگ اسٹیشن کے باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ اور وہ اندر داخل ہونے کے لئے بے تاب تھے۔ پاک فوج کا نوجوان ہمیں اندر لے گیا، اور ہم نے بتایا اپنا ووٹ کاسٹ کرنا ہے۔ پولنگ آفیسر کو اپنا سلسلہ نمبر بتانے کے لئے ہم نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل فون نکال کے سلسلہ نمبر دیکھنا چاہا۔ (میرے اُس موبائل فون میں کیمرا نہیں ہے)۔ تو ایک صاحب تشریف لائے اور ہمیں بھاشن دینے لگے۔ یہاں پر موبائل فون آلاؤ نہیں ہے۔ تو ہم نے بتایا جناب اس میں کیمرا نہیں ہے۔ ہم تو بس 8300 پہ جو مسیج کیا تھا، سلسلہ نمبر دیکھنا ہے۔ خیر پولنگ آفیسر کو اپنا سلسلہ نمبر بتایا۔ نشان انگوٹھا لگا کر بیلٹ پیپر حاصل کرلئے۔ اور بنا کسی پریشانی کے اپنی مرضی کے کنیڈیٹ کو ووٹ دیا۔ تمام عملہ مجھی کو دیکھ رہا تھا۔ بکس میں ووٹ ڈالے۔ اور سب سے کہا ووٹنگ کا عمل ہمارا قومی فریضہ ہے۔ ہر شخص اپنے حصے کا کام احسن طریقے سے کرے۔

سندھیلیانوالی پولنگ اسٹیشن مسلم لیگ ن کے سید قطب علی شاہ المعروف علی بابا کا آبائی پولنگ اسٹیشن تھا۔ شام کو یہاں پر بھی زیادہ تر ووٹ کاسٹ ہو چکے تھے۔ اب اکا دُکا ووٹرز کو پارٹی ورکر پکڑ کر لا رہے تھے۔ اور پنجاب پولیس کے اہل کار بیمار، بزرگ ووٹر کو پولنگ اسٹیشن تک جانے میں مدد کر رہے تھے۔ جس میں تھانا اروتی کے اہل کار پیش پیش تھے۔ یہاں پر دو پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے۔ خواتین کے لئے اور مردوں کے لئے۔ سندھیلیانوالی پولنگ اسٹیشن سے نکلتے جب ٹائم دیکھا تو 5:34 ہو چکے تھے۔

جب ہم چک 763 میں پہنچے تو پولنگ اسٹیشن کے باہر لوگوں کا رش لگا تھا، زیادہ تر لوگ اپنی پارٹیوں کے کیمپوں میں موجود تھے۔ اور اپنا ووٹ کاسٹ کر چکے تھے۔ یہاں پر ہمیں شام کے چھہ بج گئے۔ اب پولنگ کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ ہم نے 763 کے اسکول کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ تو اندر ایک جوان آرمی کا اور دوسرا پٹرولنگ پولیس کا موجود تھا۔ جنہوں نے پولنگ کا وقت ختم ہونے کا بتایا۔ اور ساتھ معذرت بھی کی کہ اب اندر انٹری بند ہے۔ میرے خیال میں پاک فوج کی زیر نگرانی ووٹنگ کا عمل غیر جانب دار رہا۔ پہلے یہ ہوتا تھا ہر پولنگ اسٹیشن پر پولنگ ایجنٹ کی صورت میں لوگ ووٹرز کو ہراساں کرتے دھمکیاں دیتے تھے۔ اگر ہمیں ووٹ نہ دیا تو آپ کی خیر نہیں۔ ووٹر بے چارہ بے بس ہو جاتا تھا۔ یہاں تک اپنا ووٹ ان کو دکھانے پر مجبور ہوتا تھا۔ میرا سلام ہے پاک آرمی کو جنہوں نے پولنگ والے دن ووٹر پر کوئی پریشر نہیں ڈالنے دیا۔ اور ہر ووٹر نے اپنی مرضی کے مطابق اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

اب ہارنے والے اراکین اپنی ہار تسیلم کر لیں اور سب کے ساتھ مل کر اس ملک کو ترقی کی شاہ راہ پر ڈالیں۔
ملک و قوم کی خدمت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ آپ ایم پی اے یا ایم این اے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).