جب تعیناتی سے قبل چیف جسٹس سے بطور ضمانت استعفیٰ مانگا گیا


جسٹس فخر النسا مجھے چہرے بشرے سے پہلے ہی ملتان سے زیادہ گوجرانوالہ کی رہنے والی لگتی تھیں۔ ان کی تازہ کتاب ”وکالت عدالت اور ایوان تک“ میں لکھے ہوئے ایک واقعہ نے میرے اس شبے کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ ان دنوں جسٹس فخر النسا  یونیورسٹی لاءکالج لاہور میں پڑھتی تھیں اور فرح بی بی کہلواتی تھیں۔ ایک شام گراﺅنڈ سے کھیل کر ہاسٹل پہنچیں تو بھوک سے نڈھال ہو رہی تھیں۔ کھانے کی انچارج اماں جی کو گوشت بھونتے دیکھا تو نہ رہ سکیں۔ اس کی طرف بڑھیں۔ دو روٹیاں اٹھا کر اس سے تھوڑا سا مصالحہ مانگا۔ اماں جی تو جیسے پہلے ہی کسی ایسے موقع کی تاڑ میں تھیں۔” لگی ڈانٹنے۔ فرح بی بی تم ہی سب سے زیادہ شوربے کے پتلا ہونے کی شاکی رہتی ہو۔ میں تمہیں کوئی مصالحہ ہر گز نہیں دوں گی“۔ یہ صاف جواب سن کر فرح بی بی نے چنگیر سے دو روٹیاں اور اٹھالیں۔ ان چاروں کا ایک گولا سا بنایا اور اسے گوشت والی دیگ میں پھینک دیا۔ اماں جی نے جیسے ہی کفگیر ہلایا۔ یہ چاروں روٹیاں مصالحہ سے لت پت ہو گئیں۔ اماں جی نے غصے میں یہ چاروں روٹیاں دیگ سے نکال کر باہر رکھ دیں۔ فرح بی بی نے انہیں جھٹ سے اٹھایا اور خوب مزے لے کر کھانے لگیں۔

میں اپنے گھر میں کھانے کی ٹیبل پر یہ واقعہ سنا رہا تھا کہ میرا کم خور بیٹا بیرسٹر وقاص فاروق بول اٹھا۔” آپ کا ہمیشہ کھانے پینے کی طرف ہی دھیان رہتا ہے۔ جسٹس صاحبہ کی پوری کتاب میں سے آپ کو یہی ایک واقعہ میسر آیا ہے“ ؟ میں نے نہیں کہہ کر اپنی بات جاری رکھی۔ جسٹس فخر النسا ملتان بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون ممبر ہیں۔ اب کیا انہیں نڈر اور بہادر لکھنا بھی ضروری ہے؟ کسی بار ایسوسی ایشن کے فل مردانہ سے ماحول میں کسی پہلی خاتون کا جرات ، بہادری اور کردار کے بغیر داخلہ ہی ممکن نہیں۔ آج کا پسماندہ صوبہ بلوچستان روشن خیالی میں ہمارے خاصے ترقی یافتہ صوبے پنجاب سے آگے نکل گیا ہے۔ وہاں پچھلے ہی دنوں جسٹس طاہرہ صفدر بلوچستان ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس ہو گئی ہیں۔ ورنہ جسٹس فخر النسا پنجاب میں پہلی خاتون چیف جسٹس ہو سکتی تھیں۔ لیکن انہیں نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ واقعہ بھی جسٹس فخر النسا نے پوری تفصیل سے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔

جسٹس فخر النسا کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ فلک شیر کی ریٹائرمنٹ قریب تھی کہ کچھ سینئر جج سپریم کورٹ بھجوا دیئے گئے۔ اس طرح سنیارٹی لسٹ میں جسٹس فخر النسا کا نام دوسرے نمبر پر آگیا۔ اب جسٹس فخر النسا کا لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس ہونے کا امکان پیدا ہو گیا تھا۔ قانونی حلقوں میں یہ بات عام ڈسکس ہونے لگی۔ اخبارات میں تجزیے شائع ہونے لگے کہ اب جسٹس فخر النسا آئینی شقوں اور سنیارٹی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے چیف جسٹس مقرر ہو سکتی ہیں۔ کسی خاتون کا کسی صوبے کی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر ہونا کچھ کم اہم بات نہ تھی۔ جسٹس فخر النسا کے دوست احباب اور مداح انہیں اس عزت پر مبارک دینے لگے۔ پھر یہ زمانہ بھی صدر پرویز مشرف کا تھا ، جو خواتین کے حقوق کے بڑے علمبردار بنے پھرتے تھے۔

لیکن ایک بات اور بھی تو تھی جو جسٹس فخر النسا نے اپنی کتاب میں لکھی ہے۔ جسٹس فخر النسا کے قانون انصاف اور بنیادی حقوق پر فیصلوں کو دیکھتے ہوئے ان کی عدالت میں کوئی آئینی کیس نہیں بھجوایا جاتا تھا۔ ان کی عدالت میں صرف سول ، فوجداری اور فیملی مقدمے ہی بھجوائے جاتے تھے۔اب صدر پرویز مشرف کیلئے انہیں نظر انداز کرنا بہت مشکل ہورہا تھا۔ ایک شام ایک صاحب جسٹس فخر النسا کے گھر آئے اور کہنے لگے کہ آپ کے لئے ایک پیغام لایا ہوں۔ آپ اپنی مرضی سے فیصلے کرتی ہیں۔ آپ محترمہ بینظیر بھٹو کے بھی خاصی قریب رہی ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ آپ تحریری طور پر واضح کر دیں کہ جو فیصلہ ہم آپ کو لکھوا کر بھجوائیں گے، آپ من و عن اس پر عمل کریں گے اور اپنا استعفیٰ گارنٹی کے طور پر ہمیں دیں گی۔

جسٹس فخر النسا لکھتی ہیں۔ مجھے یہ سن کر غصہ بھی بہت آیا اور حیرت بھی بہت ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا کیا پہلے بھی کسی حکومت نے کبھی چیف جسٹس کو تعینات کرنے سے پہلے اس سے گارنٹی کے طور پر استعفیٰ طلب کیا ہے یا پھر اسے پہلے سے لکھے ہوئے فیصلوں پر دستخط کرنے کی گارنٹی مانگی ہے؟ جو بات آپ کر رہے ہیں یہ بات توہین عدالت کے زمرہ میں آتی ہے اور اس جرم میں آپ کو گرفتار بھی کروایا جا سکتا ہے۔ بہر حال انہیں تنبیہ کر کے رخصت کر دیا گیا۔ یہ صاحب کون تھے ؟ ان کا اتا پتہ اور حدود اربعہ محترمہ نے بھی نہیں لکھا۔ بہر حال جسٹس فخر النسا یہ بات بخوبی سمجھ گئیں کہ حکومت ان کی بجائے اپنا کوئی کٹھ پتلی چیف جسٹس مقرر کرنا چاہتی ہے۔

پھر اس سارے معاملے کا ڈراپ سین یوں ہوتا ہے۔ ایک دن جسٹس افتخار حسین چوہدری ، جسٹس فخر النسا کی کورٹ کے ریٹائرنگ روم میں آتے ہیں اورجسٹس فخر النسا کو بتاتے ہیں کہ میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بن رہا ہوں۔ اس مرحلہ پر اس بہادر خاتون جج نے انہیں صاف صاف بتا دیا کہ آپ سنیارٹی کے لحاظ سے مجھ سے جونیئر ہیں۔ میں اس غیر آئینی تقرری کو چیلنج ضرور کرونگی۔ مجھے اپنی یاد داشت سے ایک اور واقعہ بھی یاد آرہا ہے۔ یہ واقعہ جسٹس جاوید اقبال نے اپنی کتاب ”اپنا گریباں چاک “ میں لکھا ہے۔ دونوں واقعات میں مماثلت یہ ہے کہ دونوں کے ذائقے بہت ملتے جلتے ہیں۔

اپنی الماری سے جسٹس جاوید اقبال کی کتاب نکال کر میں یہ واقعہ ہو بہو ان کے لفظوں میں لکھ رہا ہوں۔ ”اسی طرح کوئی فوجی کرنل کسی کریمنل کیس میں ملوث تھا۔ معاملہ جسٹس شمیم حسین قادری صاحب کے سامنے پیش تھا۔ انہوں نے شاید فوجی کرنل کو برا بھلا کہا کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ جس پر بھٹو نے چیف جسٹس سردار اقبال کو اسلام آباد طلب کر لیا اور ہدایت کی کہ اپنے جج صاحبان کو سنبھالئے۔ ”ہم ابھی جنگل سے باہر نہیں نکلے“۔ سردار اقبال نے جسٹس شمیم حسین قادری کو بھٹو کا پیغام پہنچا دیا۔ جسٹس شمیم حسین قادری اتنے خوفزدہ ہوئے کہ معافی تلافی کی غرض سے کمانڈر انچیف جنرل ٹکا خاں تک جا پہنچے اور شاید ان کی درازی عمر کیلئے بکرے کی قربانی بھی دی “۔ یہ ہماری عدالتی تصویر کے خدو خال ہیں۔ یورپ آج کی مہذب دنیا میں ایک لمبے سفر کے بعد پہنچا ہے۔ چلتے چلتے ہم بھی آخر کار پہنچ جائیں گے۔ مایوسی کفر ہے۔ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔ بہت اچھے دن آگے آنے والے ہیں۔ ہمیں پر امید رہنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).