سوال کا حق اور ووٹ کی عزت: سقراط کی پھیلائی ہوئی نحوست


دور دیس کی کہانی ہے وہاں مروج بیانیہ یہ تھا، کہ سوال کرنے کا حق ہر ایک کو نہیں دیا جا سکتا۔ سوال مقدس ہوتے ہیں اور دیوتا سوالوں سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ دیوتا پتھر کی مورتیوں کو کہا جاتا تھا، جن کے کانوں میں نہ کوئی آواز پڑتی تھی، نہ یہ ہاتھ پاوں زبان ہلاتے تھے۔ سو دیوتا کسی کو نقصان پہنچا سکتے نہ فائدہ۔ رعایا کے لیے یہ ایک طرح کا روحانی بندوبست تھا کہ ہم جیسے حکمرانوں سے بڑھ کر کوئی قوت ہے، جو ہماری رکھشا کرتی ہے۔

مندر کے پجاری ریاست کے معاملات میں مداخلت کا اختیار پا چکے تھے۔ بادشاہ اور پروہت کا شرکت اقتدار آج کی دنیا کے لیے کوئی راز نہیں رہ گیا۔ نہ جانے پہلی بار کب انسان کو سدھانے کے لیے قوانین بنائے گئے، اور نجانے کب اُن قوانین کو مقدس بنانے کے لیے انھیں دیوتا کے قوانین کہا گیا۔ شہری کو قابو کرنے کے لیے یہ خیال کہ بادشاہ دیوتا کا اوتار ہے، نیز دیوتا تو ہر جا ہے، اور جہاں بادشاہ کی نظر نہیں، وہاں دیوتا کی نظر ہے، یہ نسخہ بہت کارگر رہا۔ یوں بادشاہ اور پروہت یعنی دیوتا کو نہلانے دھلانے والا پجاری اقتدار میں شریک ہو گیا۔ اس کا اختیار یہاں تک تھا، کہ وہ جب چاہتا دیوتا کا فرمان سنا کر بادشاہ کو معزول کر سکتا تھا۔

اس زمانے میں ایک ریاست تھی، یونان۔ یونان میں جمہوریت کا راگ الاپا جاتا تھا، ایسی جمہوریت جہاں اسٹیبلش منٹ کا راج تھا۔ منتخب حکمران کے اختیارات ایسے نہ تھے، جیسے بتائے جاتے تھے۔ یہ جمہوریت زرا الگ رنگ کی تھی، آج کل کی مغربی جمہوریت جیسی نہیں۔ ہر برادری کا ایک بڑا تھا، وہ اپنا ووٹ جسے مرضی آئے بیچ دے۔ لوٹ مار بدعنوانی کے قصے عام تھے۔ وہ جو اپنا ووٹ بیچ آتا تھا، وہ بھی چاہتا تھا حکمران کا تختہ الٹ دیا جائے، تا کہ نئے حکمران کو اپنا ووٹ بیچ کر ایک بار پھر تجارت کی جائے۔ یونان میں خداؤں کا آئین تھا، سو جب جب پجاری کو محسوس ہو کہ اقتدار میں اس کا حصہ کم ہو رہا ہے تو وہ کسی بھی قانون کو خدا کے احکامات سے متصادم قرار دے کر اقتدار میں اپنا حصہ وصول پاتا۔

ایک وقت وہ آیا جب یونانی سپہ سالاروں نے اپنی پڑوسی ریاستوں کے معاملات میں جا بجا مداخلت شروع کر دی؛ کبھی مشرقی سرحد پار کارروائیاں، تو کبھی مغربی سرحد پار وارداتیں۔ عوام میں یہ خوف ابھارا جاتا کہ یونان کا سب سے بڑا دشمن فارس، یونان کی تباہی کا متمنی ہے، اور یہ پڑوسی ریاستیں فارس کی خیر خواہ ہیں؛ وغیرہ۔ یہ سب کچھ یونان کے عظیم تر مفاد کے نام پر کیا جاتا۔ یونان کے زوال کی نشانیاں ظاہر ہو رہی تھیں۔

یہ سب اُس کے بعد کی کہانی ہے، جب ایک نابغے کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا گیا، جو کہتا تھا سوال مخصوص افراد کا استحقاق نہیں، ہر شخص سوال کر سکتا ہے۔

”ہر شخص سوال کر سکتا ہے۔“

درباری اور مذہبی اشرافیہ کے لیے یہ بیانیہ خطرے کی انتہائی گھنٹی تھی۔ ایسا کہنے والے کا نام سقراط تھا۔ اسے لبرل کہا گیا. کہا گیا یہ مذہب کی توہین کرتے ”خیالات“ پھیلاتا ہے۔ اسے فارس کا جاسوس بتایا گیا؛ عجیب بات ہے کہ رعایا یوں تو اشرافیہ سے بیزار آ چکی تھی، لیکن یہ پروپگنڈا سنتے ہی سقراط کو گالیاں بکنے لگی کہ وہ خدا کا منکر ہے۔ کہتے ہیں کہ دیوتا نے بدزبانی سے منع کیا تھا، لیکن بظاہر دیوتا کی محبت کا دم بھرتی پرجا، دیوتا ہی کی محبت کے نام پر دیوتا کی نافرمانی کرتی رہی۔ بے ایمان تاجر، ناانصاف قاضی، رشوت لینے والے اہل کار، جائداد بنانے والے سپہ سالار، بدعنوان سیاست دان، الغرض سبھی اہل اقتدار لرز گئے کہ دنیا میں جو غلط کام کیے ہیں، ان کی بخشش کی بہترین صورت یہی ہو سکتی ہے، کہ دیوتا کی توہین نہ ہونے دی جائے۔ قصہ مختصر سقراط پر دیوتا کے منکر ہونے کا الزام عائد کیا گیا، جس کی سزا جلاوطنی تھی یا موت۔ وہ انکار کرتا رہا کہ وہ کافر نہیں، خدا پرست ہے، لیکن اسے جھٹلا دیا گیا۔ اس پر طرح طرح کے الزام لگائے گئے، کہ وہ لبرل ہے اور لبرل خدا کو نہیں مانتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی ثبوت نہ تھا، لیکن اہل اقتدار اسے ہر حال میں سزا دینا چاہتے تھے۔

عادل نے عدل کرتے سقراط کو دو راستوں میں سے ایک کے انتخاب کا حق دیا؛ پہلا یہ کہ وہ جلاوطنی قبول کرے، نہیں تو دوسرا یہ کہ زہر کا پیالہ پی لے۔ سقراط کو وطن سے محبت تھی، اس نے جام شہادت نوش کیا۔

وہ حکمران، وہ رعایا, سپہ سالار، وہ اشرافیہ، وہ اسٹیبلش منٹ، حتا کہ وہ دیوتا بھی نہ رہے؛ مگر سقراط زندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یونان کے زوال کے آخری وقتوں میں، وہاں کے حکمران نے پہاڑوں پر موجود مندر میں جا کر، پجاریوں سے التجا کی کہ وہ ریاست کا بیانیہ تبدیل کرنے میں اس کا ہاتھ بٹائیں۔ حکمران پر ایک دباو یہ تھا کہ وہ رعایا کے ووٹ لے کر آتا ہے، لیکن ان کی زندگی میں ویسی آسانیاں نہیں پیدا کر سکتا، جیسی سہولیات عوام کا حق ہے۔ دوسری طرف یہی حکمران اپنی اسٹیبلش  منٹ کے ہاتھوں بے بس تھا، جنھوں  نے ریاست کے سابق بیانیے کو فروغ دینے میں کئی برس لگا دیے تھے۔ سابق بیانیے میں ”دیوتا کا بیانیہ“ کا تڑکا اتنا تیز تھا، کہ رعایا لہولہان ہونے کے باوجود اس بیانیے کو درست مانے ہوئے تھی۔ رعایا کو ہر ایک کی ناراضی سے زیادہ دیوتا کی ناراضی کا ڈر تھا، کیوں کہ ان کی زندگی کسی آوارہ جانور کے مانند تھی، جو کہیں سے دھتکارا جاتا، تو کہیں پتھر کھاتا ہے، اور کہیں اسے روٹی کا جوٹھا ٹکڑا نصیب ہوتا تھا، رعایا کے تئیں ایسے میں دیوتا بھی ناراض ہو جاتا تو دنیا تو برباد تھی ہی ان آخرت بھی تباہ ہو جاتی، سو پروہت ان کی واحد امید تھے۔

المیہ یہ تھا کہ اسٹیبلش منٹ مروج بیانیے کی کمائی کھاتی آئی تھی، اور جیسا کہ بتایا گیا عوام کا حکمران، اسٹیبلش منٹ کے ہاتھوں ناچار تھا، تو مندر کے پجاری سے استدعا کرنے جا پہنچا، کہ وہ مدد کرے۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے، ایسے راجا جو سپہ سالاروں، مذہبی اوتاروں کی مدد سے سنگھاسن پر بیٹھتا ہے، وہ ہمیشہ سپہ سالاروں مذہبی اوتاروں ہی کا محتاج رہتا ہے۔ وہ پرجا کو نہ کچھ دے سکتا ہے نہ دے سکا ہے۔ جمہوری حکومتوں کا پہلا فرض یہ ہوتا ہے کہ عوام کو معلومات تک رسائی دیں، اور ہر قدم اس سمت اٹھے جس میں شہری کی بھلائی ہے۔ سوال کرنے والوں کی عزت کرے، ان کے سوالوں‌ کا جواب دے، عوام کو بتائے کہ ریاست کا سابق بیانیہ بودا تھا؛ ریاست نے کل جو پالیسی اپنائی وہ مہمل تھی۔ جن اذہان نے وہ بیانیہ دیا، وہ ہمارے قومی ہیرو نہیں ہیں، ان کو سلامی دینا جائز نہیں۔ یہ قتل و خون، یہ انارکی، یہ زوال، سوال کی عادت ترک کرنے سے پیدا ہوا۔

ہر فرد خدا کا بندہ ہے اور خدا کے لیے اس کا ہر بندہ ایک سا ہے؛ کسی دوسری قوت کو یہ حق حاصل نہیں کہ فرد کی آزادی پر روک لگائے، سوال کرنے والے کو زہر کا پیالہ تھما دے۔ حکمران سپہ سالاروں، مذہبی اوتاروں کی منت سماجت کرتا رہا، تو وہ انھی کا محتاج رہے گا۔ عوامی حکمران کو زیبا نہیں وہ رعایا کے سوا کسی اور سے مدد کا خواست گار ہو۔ ایسا کرنے کے لیے کردار کے ارفع ہونے کی شرط بھی عائد ہوتی ہے، کہ عوام کا بھروسا اپنے حکمران پر ہو۔ ادھر یہ احوال تھا کہ یونان کے شہری کا مجموعی کردار انتہائی پست ہو چکا تھا۔

جن معاشروں میں سوال کرنے کی عادت ڈالنے والے سقراطوں کو زہر پینا پڑے وہ معاشرے تباہ نہ ہوں تو کیوں نہ ہوں!

 

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran