بنے گا نیا پاکستان؟


بے قراری سی بے قراری ہے، کیساہو گا نیا پاکستان، کونسی رنگت کے ہوں گے اُس کے زمین و آسمان، اُس کی آب و ہوا کیسی ہو گی اور اُس میں سانس لینا کتنا انوکھا تجربہ ہو گا، تبدیلی صبر طلب اور تمنا بے تاب۔ شاید نئے پاکستان کے لئے ہی جون بھائی نے کہا تھا:
اُس سے کہیو کہ دِل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے

ایک زمین کا ٹکڑا تو ہم نے اِکہتّر سال پہلے حاصل کر لیا تھا مگر ہم اُس پہ گھر تعمیر نہیں کر سکے، بس ایک شامیانہ ہے جس کے تلے اُکڑوں بیٹھے ہوئے آس پاس تعمیر ہوتے نئے گھر دیکھتے ہیں اورایک دُوسرے کو طِفل تسلی دیتے ہیں کہ” ہمارے ہمسایوں نے ہمارے گھر کا نقشہ چُرا لیا ہے۔ ‘‘ ایسا نہیں کہ ہم نے کبھی گھر بنانے کی کوشش نہیں کی، کی ہے، بارہا کی ہے مگریہ کہنے میں کیا شرمانا کہ ہم ہر بار ناکام رہے ہیں، اور ناکامی کی وجہ نا قابل یقین حد تک سادہ ہے، یعنی ہم اس بات پہ متفق نہیں ہو پاتے کہ دیوار کہاں اُٹھانی ہے، در کہاں چھوڑنا ہے، دریچہ کہاں بنانا ہے۔ لہذا ہم دیوار بناتے ہیں، توڑ دیتے ہیں، پھر بناتے ہیں، پھر توڑ دیتے ہیں، در بناتے ہیں، پاٹ دیتے ہیں، روشن دان نکالتے ہیں، چُن دیتے ہیں۔ آسان زبان میں یہ کہیے کہ ہم گھر کے نقشہ پہ متفق نہیں ہیں اس لئے ہم شامیانے میں رہتے ہیں۔

کسی ملک کا نقشہ اُس کا آئین ہوتا ہے، ہم نے ایک نقشہ 1956میں بنایا، دو سال بعد وہ نقشہ پھاڑ دیا، پھر ایک صاحب نے 1962میں کسی اہلِ خانہ سے مشورہ کیے بغیر ہمارے مشترکہ گھر کا ایک نقشہ بنایا جس کو اپنے ہی دستِ مبارک سے 1969میں پرزہ پرزہ کر دیا۔ ہم نے پھرخوب صلاح مشورے سے 1973میں اپنے گھر کا نقشہ بنایا لیکن ابھی دیواریں اُٹھ ہی رہی تھیں کہ 1977میں ہم نے اُن پر بُل ڈوزر چڑھا دیے۔ یہ کہانی آگے نہیں بڑھتی، کسی سوپ اوپرا کی طرح دائروں میں گھومتی رہتی ہے، 1985، 1988، 1999، 2007دیواریں اُٹھانے اور گرانے کی یادگاریں ہیں۔ اوڈیسی کی پینی لوپ یاد آتی ہے، ہم بھی بُنتے ہیں، اُدھیڑتے ہیں، پھر بُنتے ہیں، پھر اُدھیڑتے ہیں، اور آج تک یہ عمل جاری ہے۔ اسی لئے ہم شامیانے میں رہتے ہیں۔

تازہ خبر آئی ہے کہ یہ سب بدلنے جا رہا ہے، نیا پاکستان بننے جا رہا ہے، وہ تاریخی لمحہ آن پہنچا ہے جس کی چاہت میں ہم نے تین نسلیں کھپا دیں۔ یہ درست ہے کہ ہم نقشہ نویسوں کے ڈسے ہوئے لوگ ہیں اور پہلے بھی کئی بازی گر ہمیں نئے پاکستان کے نام پہ جعلی مال بیچ گئے ہیں، لیکن قنوطیت گناہ ہے، امید سے ہی دل دھڑکتے ہیں، پذیرائی کیجئے، کسے خبر یہ وہی دن ہو جولوحِ ازل میں لکھا ہے۔ لہذا اپنی جماعتی وابستگیوں سے قطع نظر آگے بڑھیے اور نئے پاکستان کی تعمیر میں اپنے حصے کی اینٹ نصب کیجئے۔

آئیے ایسا پاکستان بنائیں جس کا ایک متفقہ نقشہ ہو، سب اُس کا احترام کریں، سب اُس پہ عمل کریں۔ یہ نئے پاکستان کی پہلی شرط ہے، اس سے ہٹ کر ہم کئی کوششیں کر چکے ہیں اور خجل ہو چکے ہیں۔ پُرانے پاکستان کی سب سے بڑی نشانی ایک سے زیادہ نقشے ہی تو تھے، اسی لئے تو ہم اکہتّر سال سے توڑ پھوڑ میں مصروف ہیں۔ کس کمرے میں کون سے رنگ کے پردے ہونے چاہیےں، پنکھے کس کمپنی کے ہوں، دُھلے ہوئے کپڑے سُکھانے کے لئے تار کہاں باندھی جائے، اور ایسے کئی فیصلے بعد میں بھیکیے جا سکتے ہیں، پہلے یہ فیصلہ تو کر لیجیے کہ مکان مشرق رُویہ ہو گایا مغرب رُویہ، یعنی نقشے پر تو متفق ہو جائیے۔ آئین کا احترام نئے پاکستان کی پہلی شرط ہے، اس گھر کی پہلی اینٹ ہے۔

آئین ہی ہم سب کو ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے، ہمارے فرائض اور حقوق کے گرد دائرے کھینچتا ہے، اور پھر انہی ضوابط کے تحت ہم سے جواب پُرسی کرتا ہے۔ جب آپ کو سب افراد و اِدارے اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرتے نظر آئیں تو سمجھ جائیے کہ نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ نئے پاکستان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہو گی کہ کوئی ماہر ترین ترکھان بھی کسی کے دل کا آپریشن کرتا نظر نہیں آئے گا، سب اپنا اپنا کام کریں گے۔

نئے پاکستان میں اگر آئین سربلند ہو گا تو ہمیں آزادیِ اظہار رائے و اجتماع تو خود بہ خودمیسر آ جائے گی۔ پُرانے پاکستان کی ایک واضح نشانی اِظہارِ رائے پہ ناروا پابندی تھی۔ ہم اپنے سے مختلف خیالات سے خوفزدہ تھے، ہم چاہتے تھے جو زبانیں ہاں میں ہاں نہیں ملا رہیں، گُنگ ہو جائیں، جو دماغ ہماری طرح نہیں سوچ رہے، مفلوج ہو جائیں۔ نئے پاکستان میں ایسا نہیں ہو گا، نئے پاکستان میں حبیب جالب کے سرکش جانشیں آب دار شعر ترنم سے پڑہیں گے اور عاصمہ جہانگیر کے پیر و چیخ چیخ کہ نعرہ حق بلند کریں گے۔ یہ ہو گا ہمارا نیا پاکستان، وہ پاکستان جس کے ہم سات دہائیوں سے منتظر ہیں۔

نئے پاکستان کی آیات میں سب سے نمایاں قانون کی حکمرانی ہو گی، طاقتور اور کمزور کے لئے ایک ہی قانون ہو گا، یعنی دو نہیں ایک پاکستان۔ گلے سڑے پُرانے پاکستان میں توہینِ عدالت نامی ایک قانون کے تحت کمزوروں کو سزا ہو جاتی تھی مگر ہائی ٹریژن کے مجرموں کو سرکاری اعزازات سے دفنایا جاتا تھا۔ فرسودہ پاکستان میں تین سابق وزرائے اعظم پر ایک ہی عدالت میں مقدمات ہوتے تھے، اُن میں سے دو کی سال میں ایک ایک پیشی ہوتی تھی اور ایک کا کیس 126دن مسلسل، صبح شام سنا جاتا تھا۔ نئے پاکستان میں قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے، انشا اللہ۔

آئین کہتا ہے کہ پاکستان کا نظام پارلیمانی جمھوریت ہے، یعنی پارلیمان سپریم ادارہ ہے، مگر پُرانے پاکستان میں ہم نے پارلیمان کی جی بھر کے اہانت کی، اسے چوروں کا اڈہ اور ڈاکوؤں کی آماجگاہ قرار دیا۔ ایسی ’بے تکلفی‘ ہم نے کسی اور ادارے یا اُس کے سربراہ سے کبھی نہیں برتی۔ ایک دانا کا قول ہے کہ کسی بھی معاشرہ کے طاقتور کی نشانی یہ ہے کہ اُس پہ تنقید نہ کی جا سکے، پس یہ ثابت ہوا کہ پُرانے پاکستان میں پارلیمان کمزور تھی مگر اب نہیں کہ نیا پاکستان در حقیقت پارلیمانی جمھوریت ہو گی جس میں پارلیمان سب سے طاقت ور ادارہ ہو گا اور توہینِ پارلیمنٹ کے مجرم مثالِ عبرت بنا دیے جائیں گے۔

یہ ہو گا حقیقی معنوں میں نیا پاکستان جس کے لئے ہم دیدہ ودِل فرشِ راہ کیے بیٹھے ہیں۔ ایک ایسا پاکستان جس کے وزیرِ اعظم کی قسمت اپنے ہر پیشرو سے مختلف ہو گی، ہر وزیرِ اعظم اپنی مدت پوری کرے گا، پھانسی، گولی، زنداں، جلا وطنی سے محفوظ رہے گا، اور جب تک وزیرِ اعظم رہے گا، سچی مُچی کا وزیرِ اعظم رہے گا۔ یہ ہیں نئے پاکستان کے خدوخال، یعنی ’ایہو میرے چن جئے ڈھول دی نشانیاں‘۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس نقشے پہ متفق ہیں یا ہماری آنے والی نسلیں بھی ہماری طرح اس شامیانے تلے اُکڑوں بیٹھی رہیں گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).