برہنہ لاش پر سرخ گلاب کا تولیہ


وہ خوشی خوشی میاں کے ساتھ ایک ایسے سفر کے لئے تیار ہوگئی کہ جس میں اسے کوئی اندیشہ تھا اور نہ کسی جھوٹ کا ڈر، مطیع اللہ اس کا شوہر تھا کہ جس کے لئے اس نے دل و جان سے ڈھائی برس دیوانہ وار کام کیا۔ اسے شوہر کے کسی منصوبے کا شائبہ تک نہ تھا جو زرینہ کو اس کی خالہ کے گھر میں چھوڑ کر امریکہ فرار ہوگیا اور جاتے وقت اس کا پاسپورٹ بھی لے اُڑا۔ زرینہ بہت روئی اور پھر اس نے ہمت کرکے جانے کس طرح ٹکٹ کے پیسے جمع کیے اور واپسی کا ٹکٹ خرید کر امریکہ کا جہاز پکڑا۔ گو اپنے آنے کیاطلاع اپنے طور پر بھجوا دی تھی لیکن اس کو کوئی لینے نہیں پہنچا تھا۔

جیسے تیسے وہ اپنے فلیٹ میں پہنچی تو شام کا وقت تھا۔ مطیع اللہ نے بیوی کو دیکھا تو ہکا بکا رہ گیا، مگر حیرانی سے زیادہ اس کا طیش ساتویں آسمان پر تھا۔ ابھی زرینہ نے ٹھیک سے سانسیں بھی نہیں لی ہوں گیں کہ مطیع اللہ نے گاڑی نکالی اور زرینہ کو دوبارہ سیدھا ائرپورٹ لے گیا، روتی پیٹتی زرینہ اگلی فلائٹ سے واپس ڈھاکہ پہنچا دی گئی۔ میرے علم میں زرینہ کا یہ قصہ نہیں تھا، اس کا علم تو مجھے تب ہوا کہ جب اس نے رو رو کر فون پر اپنی کتھا سنائی۔ اس نے بتایا کہ میاں نے اس کا طلاق نامہ بھی بھجوا دیا ہے لیکن اس نے بتایا کہ وہ دوبارہ امریکہ آنے کے لئے تیار ہے۔ اپنے میاں کے پاس نہیں کہ اب وہ طلاق یافتہ تھی بلکہ اپنی قسمت بنانے کے لئے، لگتا تھا کہ بار بار کی ہزیمت نے اس کی ہمت کو للکارا تھا۔ اب وہ اپنے اندر کی زرینہ کو پہچان گئی تھی جو بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ وہ نوکری کرسکتی تھی، گھر چلا سکتی تھی اور وہ پڑھ لکھ بھی سکتی تھی، اب اس کے خواب بدل گئے تھے۔

مطیع اللہ کی دستگیر بیوی اور اس کے بچوں کی خدمت گزار ماں بننے کے بجائے ایک تعلیم یافتہ، اقتصادی طور پر خودمختار عورت بننے کا خواب، ایک بار پھر وہ محنت کا جوا کھیلنے اور زندگی کی بازی لگانے کے لئے تیار تھی۔ اس نے روتے روتے اپنے اس منصوبے کا ذکر مجھ سے فون پر کیا۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ وہ جب تک چاہے میرے پاس رہے مگر اس کی خودداری اس کے حوصلے کی طرح کمال کی تھی۔ جب اس نے اپنے بھائی اور بھابھی کی کی طرف جانا اور ان کو اپنے حالات سے آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھا تو میری پیشکش کیا حیثیت رکھتی تھی؟

زرینہ نے امریکہ آکر اپنی پرانی نوکری کو دوبارہ شروع کیا اور جلد ہی ریڈیالوجی کا کورس شروع کردیا، لڑنا اور شکایت کرنا اس کی سرشت میں نہ تھا، اس وقت میں اور وہ دونوں اپنے حالات کی چکی میں اس طرح پسے ہوئے تھے کہ یہ بھی نہ پتہ تھا کہ بطور شہری ہمارے کیا کیا حقوق ہیں۔ اس وقت اگر یہ سب علم میں ہوتا تو وہ اپنے میاں کو جیل بھی بھجوا سکتی تھی۔ زبان اور نظام کی مکمل آگہی سے مار کھائے ہوئے افراد ایسی بے بس مچھلیوں کی مانند تڑپتے رہ جاتے ہیں کہ جن کو کوئی ظالم مٹھی ہاتھ میں پکڑ کے پانی سے جدا کرکے سورج کی تمازت میں تڑپنے کے لئے پھینک دے۔ اپنے حالات کو جھیلنے کی وجہ سے زرینہ میں ہمت تو آئی مگر صرف اسی حد تک کہ اپنے کو موت کی گھاٹی میں اترنے سے بچالے، تاہم کڑی محنت اور جذباتی طوفانوں کی اٹھا پٹخ نے اس کو نڈھال کردیا تھا، اس کو سانس کی تکلیف پہلے ہی تھی، اب دل میں کبھی کبھی درد کی شکایت بھی پیدا ہوگئی تھی۔

وطن سے واپس آنے کے بعد سے وہ اپنی میڈیکل انشورنس کے لئے تگ و دو میں لگی ہوئی تھی۔ امریکہ کا نظام انتہائی گھٹیا ہے، خصوصاً میڈیکل جو اپنی محنت سے پاؤں پر کھڑے ہونے والوں کو غالباً ان کی خودداری کی سزا دیتا ہے۔ صرف جینے کی اجازت دیتا ہے، وہ بھی سسک سسک کر، ان سے بہت سی مراعات کی وصولیابی کا حق لے لیا جاتا ہے اور اکثر وہ لوگ مستفید ہوتے ہی رہتے ہیں کہ جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہتے ہیں۔ اب ان کا بھی کیا قصور کہ نظام انہیں بے عزتی اور بے بسی محسوس کرانے میں ہی بہتری سمجھتا ہے، لیکن زرینہ نے شروع سے ہی شدید محنت کی اور انشورنس کی کوششیں جاری رکھیں جس میں ابھی وہ کامیاب نہیں ہوپائی تھی۔

پڑھائی، نوکری، گھر بار اور پھر اب بیماری کو ساتھ لے کر چلتی زرینہ کو ہانپ کر گر ہی جانا تھا، ورنہ 27 سال کی عمر بھلا کیا ہوتی ہے، مگر اس کا تجربہ تو اب بوڑھا ہوچکا تھا، جیسے اس نے سب دیکھ لیا ہو، سب سہہ لیا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر وہی ہوا جس کا میں نے شروع میں آپ کو بتایا کہ کسی دن کام سے لوٹنے کے بعد زرینہ نہانے گئی ہوگی اور وہاں اس کو دل کی تکلیف ہوئی، پھر اس کو مہلت بھی نہ ملی کہ جسم کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتی، وہ جو پوری زندگی اپنی تکالیف، شکایت حتیٰ کہ اپنی خواہش کو ڈھانپتی رہی، چھپاتی رہی اور ہمت سے ہنس ہنس کے جیتی رہی، آج کس طرح چاروں شانے چت اپنے بستر پر بے بسی سے بغیر کسی کپڑے کی دھجی کے سر تا پا برہنہ پڑی تھی۔ میں نے اسے دیکھا تو میرا جی چاہا کہ اس کے دکھوں کو اس پوری دنیا کے سامنے برہنہ کردوں، سارے پردے اٹھا دوں اور میں کر بھی کیا سکتی ہوں۔ شاید ایسا کرنے سے فضا کے تعفن میں کمی ہوجائے، تھوڑی سی ہی سہی !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2