برہنہ لاش پر سرخ گلاب کا تولیہ


وہ دن میں کبھی بھی نہیں بھول سکتی کہ جب دسمبر کی یخ بستہ برفیلی صبح ٹیلی فون کی گھنٹی سے میں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھی۔ فون کسی پولیس آفیسر کا تھا جو مجھے سپاٹ آواز میں زرینہ کی موت کی خبر دے رہا تھا۔ میرے سارے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی، ریسیور ہاتھ میں کانپنے لگا، مجھے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ خوف اور صدمے کے مارے میرے منہ سے کوئی بات نہیں نکل رہی تھی۔ زرینہ کی زندگی کا باب اتنی جلدی اپنے اختتام کو پہنچے گا؟ محض 27 سال کی عمر میں؟ میں سوچتی ہی رہ گئی۔ پولیس آفیسر کہہ رہا تھا کہ اسے زرینہ کی چار دن اکڑی تقریباً نیم برہنہ لاش کے پاس سے ایک ڈائری ملی ہے جس میں میرا نمبر سرفہرست تھا۔ اس کی ہدایت کے مطابق مجھے جائے وقوعہ یعنی زرینہ کے مختصر سے ایک کمرے کے اپارٹمنٹ پر فوری پہنچنا ہوگا تاکہ میں اسے زرینہ کی بابت کچھ اہم معلومات بہم پہنچا سکوں۔ اس نے مزید یہ بھی کہا کہ باوجود لاش کی برہنگی کے یہ جنسی تشدد کی واردات محسوس نہیں ہوتی۔ گمان یہ ہے کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے مگر یہ سب امکانات ہیں، فی الوقت کوئی بات حتمی نہیں۔

جب میں زرینہ کے گھر پہنچی تو اس کی چار دن سے پڑی لاش سے امڈتی باسی گوشت کے بھبھکے سے میرا دماغ ہل گیا۔ میں نے ہمت مجتمع کرتے ہوئے کن اکھیوں سے اس کی لاش کو دیکھنے کی کوشش کی۔ میں نے دیکھا اس نے اپنے جسم کو مرتے وقت ایک تولیہ جس پر سرخ گلاب کے پھول بنے تھے، سے ڈھانپنے کی سعی کی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کا سانولا جسم عریاں چار پولیس آفیسروں کے سامنے بے بس پڑا تھا۔ گھنے بادلوں جیسے بال اس کے دبلے پتلے جسم کو چھپانے کی کوشش میں بے بس تھے۔ 911 فون کرنے کی بھی مہلت نصیب نہ ہوئی۔ امکان تھا کہ غالباً نہاتے ہوئے دل کی تکلیف ہوئی، وہ جلدی میں تولیہ ہاتھ میں لے کر بستر پر گری اور ڈھیر ہوگئی، کوئی مدد بھی نہ پہنچ سکی، اس کی خودداری نے مرتے وقت بھی کمال دکھایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے لاش کو دور سے دیکھا، بے ترتیبی سے بکھرے الجھے بال اور ٹھنڈی لاش، یہ وہی سرخ گلاب کے پھولوں والا تولیہ اس کے جسم پر پڑا تھا جس کو اصلی پھولوں کی سرشاری کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔ میں بے چین ہوگئی، صدمے سے آواز گولہ بن کر میرے حلق میں پھنس گئی، دل چاہا کہ قے کردوں، ان لوگوں پر کہ جنہوں نے اس کی زندگی کو موت میں بدل دیا۔ ان کی جھوٹ اور مکر سے آلودہ زندگی پر حقارت کی قے، کاش یہ سب نہ ہوتا، کاش زندگی نئے سرے سے ایک دفعہ پھر شروع ہوجائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوشی سے بھرپور زندگی گزارنے کا صرف ایک اور موقع۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں دھاڑیں مار مار کر رونے کی خواہش کے باوجود رو نہ سکی کہ یہ شاید مجھے زیب نہ دیتا کہ میں نہ اس کی ماں تھی نہ بہن اور نہ ہی دور پرے کی کوئی رشتہ دار، میں تو صرف اس کی دوست تھی جس سے وہ اپنے دل کی ہر بات کہہ لیتی تھی۔

میں اُردو بولنے والی پاکستانی نژاد امریکی اور وہ بنگالی بولنے والی بنگلہ دیشی نژاد امریکی، مگر ہمارے درمیان دل کی زبان مشترک تھی، ہم ایک دوسرے کا دکھ سمجھتے تھے اور یہ سب کچھ سوچتے ہوئے میرا جی چاہا کہ چیخ چیخ کر روؤں، احتجاج کروں اور اس کے گھر والوں سے پوچھوں کہ اس دور پرے اسٹیٹ میں رہنے والی اس بہن کا کبھی خیال آتا تھا جو بھائی اور بھابھی کے ہوتے لاوارثوں کی طرح کئی سالوں سے زندگی گزار رہی تھی؟ باوجود تمام تر بے توجہی اور بے اعتنائیوں کے اپنے گھر والوں کے گیت گاتی اور بھتیجوں کی تصویریں دیکھ دیکھ کر جیتی، اس کے پاس جینے کا کوئی بہانہ توچاہیے تھا نہ!

زرینہ کا تعلق بنگلہ دیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا جہاں سیلاب منہ زوری کرتے اور غربت سینہ اکڑا کر چلتی ہے۔ وہاں کی سادگی میں پلی بڑھی معصوم زرینہ سے میری ملاقات ایک فیکٹری میں ہوئی جو امریکہ کیایک چھوٹی سی ریاست نبراسکا میں واقع تھی۔ اس فیکٹری کا کام انتہائی مشقت والا تھا، میں اچھے حالات کی پلی بڑھی فرد ہونے کی وجہ سے اس سخت محنت کو ڈیڑھ ماہ سے زیادہ نہ سہار سکی تاہم نوکری چھوڑنے سے پہلے زرینہ سے دوستی کا مضبوط ہاتھ ضرور پکڑ لیا۔ اس وقت زرینہ مشکل سے 21 سال کی ہوگی، اس کی شادی مطیع اللہ سے ہوئے چھ ماہ کا ہی عرصہ گزرا تھا۔

نئی شادی شدہ زرینہ صبح پانچ بجے اپنی فیکٹری والی ملازمت شروع کرتی اور پھر وہاں سے دوسری نوکری پر پہنچتی۔ واپسی میں چیزیں خریدتی ہوئی گھر جا کر میاں کے سامنے کھانا لگاتی اور پھر تھک ہار کر سو جاتی، ایک نئی صبح دوبارہ سے کولہو کا بیل بننے کے لئے۔ میں اس پر حیران ہوتی تو وہ کہتی ”جب میرا میاں پڑھائی کرکے کام شروع کرے گا تو پھر میں یہ سب کام چھوڑ کر آرام سے گھر میں بیٹھوں گی اور بچے پالوں گی‘‘ اس کو بچوں سے عشق تھا۔ میری بچی کے پیچھے اس کی جان جاتی تھی، ہمیشہ چاہے معمولی سی چیز سہی اس کے لئے ضرور لاتی۔ حالانکہ اس کے اوپر گھر کے پورے خرچے کی ذمہ داری تھی، میاں صرف پڑھائی کررہا تھا اور زرینہ صرف کام، وفا شعار بیویوں کی طرح اپنے کو بھلا کر اپنے کو مٹا کر، ہمارا معاشرہ یہی توقع کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب کو یاد رکھو، اپنے کو بھول جاؤ تبھی عورتوں کو انعام ملتا ہے۔

پھر زرینہ کون سی خوبصورت تھی، معمولی شکل و صورت کی سیدھی سادی لڑکی، جس کی چہرے کی مظلومیت اس کی غربت کا اعلان کرتی تھی۔ وہ نہ صرف یتیم تھی بلکہ مسکین بھی تھی، ماں باپ کے مرنے کے بعد اس کا بھائی جو امریکہ میں اچھی جگہ کام کرتا تھا اور شادی شدہ بھی تھا، زرینہ کو اپنی ذمہ داری پر امریکہ لے آیا لیکن بھابھی سے زرینہ برداشت نہ ہوسک اور یوں ایک بنگالی لڑکا ڈھونڈ کر جو نبراسکا اسٹیٹ یونیورسٹی میں آئی ٹی میں ایم ایس کررہا تھا، زرینہ شادی کی صورت نپٹا دی گئی اور وہ بھی نیویارک اسٹیٹ سے چھوٹی سی خاموش اسٹیٹ نبراسکا آگئی جہاں میں بھی اپنی امریکی زندگی کی شروعات کے مراحل میں تھی۔

زرینہ لاکھ معمولی شکل و صورت کی لڑکی سہی، تاہم اس کے چہرے پر دو چیزیں نمایاں تھیں، بڑی بڑی گہری آنکھیں جس میں ڈوبے تو ڈوبتے ہی چلے جائیں اور سیاہ گھنے بال، پھر جب وہ بنگالی لہجے اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اپنے دل کی بات کہتی تو مجھے بہت پیار آتا، اس کی خودداری اور محبت میں گندھی طبیعت اس کی نمایاں خوبی تھی۔ اپنے میاں مطیع اللہ کا خیال رکھنے میں اس نے ماؤں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ دو، دو نوکریاں اور گھر کا تمام خرچہ، حتیٰ کہ گاڑی اور اس کیانشورنس کا خرچہ بھی، مطیع اللہ کے لئے زرینہ کیامریکی شہریت اور بے مثال محبت ایک ایسی سواری تھی کہ جس پر وہ اپنا پورا وزن ڈال سکے۔

میں نے اس چھوٹے سے قد اور سانولی رنگت والے مطیع اللہ کو شروع میں ہی بس کچھ ہی بار دیکھا تھا، وہ گاڑی پر اس کو نوکری پر چھوڑنے جاتا، پھر دوسری نوکری پر چھوڑتا اور واپسی میں وہاں سے اٹھاتا کہ بطور شوہر اپنے ناز اٹھوا سکے۔ زرینہ ثابت قدمی، محبت اور معصومیت سے اس کا مستقل جذباتی اور مالی سہارا بنی ہوئی تھی۔ اس امید پر کہ ایک دن گھر بیٹھ کر آرام سے بچے پالے گی، حالانکہ اس کے میاں کو بچوں کے جھنجھٹ سے ہرگز کوئی دلچسپی نہیں تھی، زرینہ کے خواب کا ایک معمولی سا حصہ بھی پورا نہ ہوسکا کیونکہ جونہی مطیع اللہ کی تعلیم اور گرین کارڈ کا مرحلہ مکمل ہوا اس نے زرینہ کے ساتھ بنگلہ دیش گھومنے کا فیصلہ کیا۔ زرینہ کا بھی ارمان تھا وہاں جانے کا کہ جہاں جانے کو وہ پانچ سال سے تڑپ رہی تھی۔ جھکے جھکے سیاہ گہرے بادلوں، بارش کی رم جھم، کوئل کی کوکو کی مٹھاس اور وطن کی مٹی کی پکار میں عجیب تڑپ تھی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2