امید سحر کی بات سنو


25 جولائی کی شام پاکستان میں ایک نئے سورج کی نوید لے کر آئی ہے۔ الیکشن کے نتیجے نے ثابت کیا ہے کہ ملک کے طول و عرض میں عوام کی سوچ  نے زبردست انگڑائی لی ہے۔ کئی بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ عوام نے ثابت کیا کہ وہ بھی ذات برادری سے نکل کے نظریے کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سے لے کر لالہ سراج الحق تک، محمود اچکزئی سے لے کر اسفندیار ولی تک اور چودھری نثار سے لے کر خواجہ سعد رفیق تک کی شکست ایسی ان ہونی ہے کہ جس کی پاکستانی انتخابات کی تاریخ میں مثال ڈھونڈنی مشکل ہے۔ نوجوانوں کے سیاسی شعور و دل چسپی میں عمران خان کے کردار کو یقیناً نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج کا نوجوان اپنے سیاسی رویے میں جتنا سنجیدہ اور جذباتی ہے وہ تحریک انصاف کے میدان میں آنے سے پہلے نہیں تھا۔

لیکن مجھے ڈر ہے کہ جو امیدیں نوجوانوں کو تحریک انصاف سے ہیں، اگر وہ پوری نہ ہو سکیں تو اس کا نتیجہ اجتماعی قومی انتشار کی صورت میں نکلے گا اور پھر شاید انتشار اور بے چینی ملک کو اندرونی سیاسی و سماجی خلفشار کی جانب لے جائے۔ آج کے سیاست دانوں کو دانش مندی کا ثبوت دینا ہو گا، تاکہ نوجوانوں میں بھی تحمل وبرداشت پیدا کیا جا سکے، لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے بیش تر سیاست دانوں نے تاریخ سے سبق حاصل کیا نہ ہی کبھی اخلاقی جرات و سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ جس کی مثال سامنے ہے کہ ہر ہارنے والا امیدوار دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دونوں حلقوں سے ہارنے والے مولانا فضل الرحمن الیکشن کے دن ہی واویلا مچاتے رہے کہ وہ حلف نہیں اٹھائیں گے اور نہ کسی کو اٹھانے دیں گے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بیانات بھی ایسے ہی غیر سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔

ہمارے سیاست دان 40،50 سالہ سیاسی تجربے کے باوجود بھی اگر اس قسم کے بچگانہ بیانات دیں تو یقیناً قصور ہمارا ہے کیوں کہ ہمی ان کو ووٹ دے کر ایوانوں تک پہنچاتے آئے ہیں۔

عمران خان کے الیکشن میں کام یابی کے بعد پہلے بیان نے بہت سے لوگوں کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ خان صاحب نے نہایت سنجیدہ انداز میں تمام اہم موضوعات پر بات کی اور سیاسی مخالفت کو نظر انداز کرنے کا عندیہ دیا، اس کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک سمیت امریکا سعودیہ اور دوسرے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا اظہار کیا۔
یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ انڈین اور امریکن میڈیا انتخابات سے پہلے اور بعد میں مسلسل پاک فوج پر انتخابات میں دھاندلی کرانے کا الزام عائد کرتا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کی خوب کردار کشی کی گئی کہ یہ اسٹبلیش منٹ کی کٹھ پتلی ہے اور اس کی مدد سے انتخابات جیتنے والے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ نجانے امریکن اور انڈین میڈیا میں پاکستان کا اتنا درد اچانک کیسے جاگ اٹھا، یا شائد ان کو یہ ڈر ہے کہ اب ان کا پہلے سے مختلف حکمرانوں سے واسطہ پڑ ے گا، جن سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا مشکل ہو گا۔ جن کو وہ مرعوب نہیں کر سکیں گے، ڈرا دھمکا نہیں سکیں گے۔ دعا ہے کہ الله پاکستان کو ایسے حکمران عطا کرے۔

عمران خان کے پاس اس وقت بہترین انقلابی حکومت بنانے کا نادر موقع ہے۔ ان کو چاہیے کہ اپنے تمام وعدے پورے کرتے ہوئے پاکستان سے کرپشن، سیاسی مداخلت، اقربا پروری اور اسٹیٹس کو جیسی تمام برائیوں کا خاتمہ کریں، اداروں کو مضبوط کریں، سیاسی بھرتیوں کا خاتمہ کر کے اہل اور افراد کو اداروں کی سربراہی سونپیں۔

فی الوقت تو تحریکِ انصاف مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے نمبر گیم پوری کرنے میں مصروف ہے۔ نظر ایسا آتا ہے کہ تحریکِ انصاف زیادہ مضبوط حکومت نہیں بنا پائے گی، دوسری جانب اسے مضبوط اپوزیشن کا سامنا بھی کرنا ہو گا، نیب میں کیس پہ کیس نے دیرینہ سیاسی حریفوں کو بھی اکٹھا کر دیا ہے، اب پھر سیاسی شہادتوں کا موسم شروع ہو گا جیسے جیسے کرپشن کے خلاف کاروائی میں تیزی آئے گی، اس کے ساتھ ساتھ احتجاج بھی زور پکڑتا جائے گا اور پھر ہر بار کی طرح معاملات کو متنازع بنا دیا جائے گا۔ اس سب سے بچنے کی اگر کام یاب حکمتِ عملی بنائی جاتی یے تو ہی آنے والی حکومت اپنے معاملات آسانی سے انجام دے پائے گی۔

تحریکِ انصاف اگر پہلے ١٠٠ دن میں پاکستان کو ٹھیک سمت میں لے گئی تو ٹھیک ورنہ ہر آنے والا سال ملک میں سیاسی بے چینی لے کے آئے گا۔ اب عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک اپنے منشور پر عمل کرا پاتے ہیں؛ کیوں کہ کے پی کے ماڈل پنجاب میں نافذ کرنا زرا مشکل ہو گا۔ اگر وعدوں پر عمل نہ کیا گیا تو اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کی حالت مسلم لیگ ن سے بھی بری ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).