ہم بچے ہیں


ہم بچے ہیں
ہم اسکول جاتے ہیں
پارکوں میں اچھلتے کودتے ہیں
کھلونوں سے کھیلتے ہیں
غباروں میں ہوا بھر کر خوش ہوتے ہیں
ہم متحرک فلمیں اور کارٹون دیکھتے ہیں
اور چپس اور چاکلیٹس کھا کھا کر بیمار ہوتے رہتے ہیں
مگر باز نہیں آتے
ہم ضدی ہیں
لڑتے ہیں جھگڑتے ہیں
پھر ایک ہو جاتے ہیں
ہم دنیا کو
اپنی آنکھوں سے،
اپنے عالمِ رُویا جیسا دیکھنا چاہتے ہیں
اور بڑے ہو کر
اسے بدلنے کا عزم بالجزم رکھتے ہیں

ہم بچے ہیں
ہمارے ہاتھوں کا گداز
پلاسٹک کی بے جان چیزوں میں جان ڈال دیتا ہے
اور ہمارے بوسوں کا لمس
مُردہ چہروں کو زندہ کر دیتا ہے
ہم بچے ہیں
ہمیں جنت اور دوزخ کا نہیں معلوم
لیکن یہ دنیا ہمارے دم سے جنت ہے

ہم بچے ہیں
کالے یا گورے
پیلے یا براؤن
ہم ایک جیسے ہیں
ہم پوری دنیا کے بچے ہیں
پاکستان کے اسکولوں میں
ہم فی سبیلِ اللہ قتل ہو جاتے ہیں
علم حاصل کرنے کی پاداش میں
ہمارے پھولوں جیسے جسموں پر
گولیوں کا مینہ برستا ہے
کتابیں اور کاپیاں ہماری ڈھال نہیں بن سکتیں
روس اور امریکہ کی درس گاہوں میں
کسی بھی جنونی کے لیے ہم رقصِ مرگ کا سامان ہیں
فلسطین میں ہوائی حملوں سے ملبے کا ڈھیر بن جاتے ہیں
عراق، یمن اور شام کی سڑکوں پر
آئے دن ہونے والے بم دھماکوں سے
ہمارے اجساد جابجا بکھرتے ہیں
اور ہمارے اعضائے رئیسہ
بھرے ہوئے کچرے کے ڈرموں میں پڑے رہتے ہیں
افغانستان میں
بارودی سرنگوں سے کھیلتے ہوئے
ہم بھک سے اُڑ جاتے ہیں
ہم ہر جگہ مارے جاتے ہیں
ہمارا خون ایک جیسا ہے، چیتھڑے ایک جیسے ہیں
ہمارے آنسو ایک جیسے ہیں
توتلا پن ایک جیسا ہے
مر جانے والے بوسے ایک جیسے ہیں

ہم بچے ہیں
ہمارا باہر بھیتر ایک ہے
ہمارا خود سے کوئی ملک ہے نہ خدا نہ مذہب
ہمارا ملک وہی ہوتا ہے جہاں ہم پیدا ہوتے ہیں
ہمارا مذہب وہی ہے
جو ہمارے ماں باپ کا ہے
اور ہمارا خدا وہ ہے جو ہماری خُرد خیالی میں آتا ہے
ہمارا خدا ہماری طرح معصوم اور ننھا سا ہے
وہ ہمیں مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا

ہم بچے ہیں
دوزخ ہمارے تصور سے بالا ہے
ہماری اپنی دنیا، اپنی جنت ہے
ہمیں کسی اور جنت دوزخ کے چکر میں نہ ڈالو
ہم بچے ہیں
ہمیں بچے ہی رہنے دو
ہم کھلونا گنوں سے دنیا زیر کر سکتے ہیں
ہم پر اصلی گنیں مت چلاؤ
ہم جنت ہیں
ہمیں مار کر تم اور کون سی جنت کمانا چاہتےہو ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).