سولھواں خواب نامہ۔ مردوں کا میڈونا / طوائف کمپلیکس


23 مئی 2018
آداب

درویش نے کئی لوگوں سے سن رکھا تھا کہ انسان کو چالیس برس کی عمر کے بعد نئے تجربات نہیں ہوتے۔ پرانے تجربات کی ہی تکرار ہوتی رہتی ہے، زندگی روٹین بن جاتی ہے۔ انسان بورنگ ہو جاتے ہیں۔ شاعر، ادیب، فنکار کری ایٹو مینوپاز کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے دوست اقبالؔ کا یہ شعر گنگنانے لگتے ہیں
؎ خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

درویش کا خیال ہے کہ کسی بھی شاعر، ادیب اور فنکار کی بقا اور ارتقا کے لیے نیا تجربہ بہت ضروری ہے۔ درویش کے لیے زندگی کی شام میں رابعہ سے ملاقات اور خط و کتابت کا سلسلہ ایک نیا تخلیقی تجربہ ہے۔ آج درویش رابعہ سے ایک ادبی اعتراف کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ اس کی دوست بن گئی ہے اس لیے وہ اس سے اپنی دو محبوباؤں کا ذکر کرنا چاہتا ہے۔

جب درویش مشرق میں رہتا تھا تو اس کی پہلی محبوبہ اردو تھی۔ وہ اردو میں شاعری کرتا تھا، افسانے اور ناولٹ لکھتا تھا اور اردو بہت خوش رہتی تھی لیکن جب درویش مغرب میں آ بسا تو اس کی انگریزی سے دوستی ہو گئی۔ اس دوستی سے پہلی محبوبہ بہت ناراض ہوئی اور اس نے درویش کو ایک شکایت بھرا خط لکھا۔ درویش اس خط کے چند جملے شیر کرنا چاہتا ہے

”اے مرے دیرینہ محبوب، میرے شاعر، میرے افسانہ نگار! تم شاید مجھے بھول گئے ہو لیکن مجھے تمہارے ساتھ گزارا ہوا ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ میرے ذہن میں ہماری رفاقت، ہماری چاہت اور ہماری دوستی کی سب یادیں محفوظ ہیں۔ میرا نام اردو ہے۔ پھر تم مغرب میں جا بسے اور تم نے آہستہ آہستہ انگریزی سے راہ و رسم بڑھائے اور مقالے لکھنے شروع کیے۔ ابتدا میں میں یہ سمجھی کہ انگریزی تمہاری پیشہ ورانہ ضرورت ہے۔ تم ایک ماہرِ نفسیات بننا چاہتے تھے۔ ایک مسیحا بننا چاہتے تھے۔ دکھی دلوں کا علاج کرنا چاہتے تھے۔ خدمتِ خلق کرنا چاہتے تھے اور مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ میرا محبوب انسانیت کی خدمت کر رہا ہے۔

لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ میں مشرقی محبوباؤں کی طرح سادہ لوح ہوں۔ انگریزی صرف تمہاری رفیقِ کار ہی نہیں تمہاری دوست اور محبوبہ بھی بن گئی۔ پہلے تم نے انگریزی میں نفسیاتی مقالے لکھے، پھر نظمیں لکھیں اور پھر افسانے تخلیق کیے۔ میرا دل اس دن ٹوٹا جب تمہارے انگریزی افسانے کا کسی نے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس دن سے میں حسد کی آگ میں جل رہی ہوں۔ اس دن میرا جی چاہا کہ میں اپنی سوکن انگریزی کے بال نوچ لوں اور اسے کچا کھا جاؤں لیکن جب میرے غصے میں ذرا کمی آئی اور میں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کے قابل ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے انگریزی سے غصہ کرنے کا کوئی حق نہیں بنتا۔ وہ تو غیر ہے، پرائی ہے۔ اگر مجھے شکوہ کرنا ہے تو تم سے۔ تم میرے محبوب ہو۔ تم نے مجھے داغَ مفارقت دیا ہے۔ تم نے مجھے ٹھکرایا ہے اور انگریزی کو اپنایا ہے۔ تم نے مجھے اپنے دل سے نکالا ہے اور اردو میں لکھنا ترک کر دیا ہے“۔

درویش رابعہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے کہ اس نے درویش کا اپنی روٹھی پہلی محبوبہ سے دوبارہ تعارف اور جذباتی رشتہ قائم کروایا ہے۔ یہ خواب ناموں کا سلسلہ اس کے لیے نیا تخلیقی تجربہ ہے۔

رابعہ نے درویش سے ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے جو سوال پوچھا ہے اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس کی کئی ایسے مردوں سے ملاقات ہوئی ہے جو MADONNA/WHORE COMPLEX کا شکار ہیں۔ ایسے مرد جس عورت کا دل سے احترام کرتے ہیں اسے اتنا مقدس اور پاکباز سمجھتے ہیں کہ ان سے رومانوی اور جنسی تعلقات قائم نہیں کر سکتے اور جن عورتوں سے رومانوی اور جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں انہیں وہ ایک بدکار اور بدکردار طوائف سمجھتے ہیں۔ یہ کمپلیکس ان کے مزاج کی شدت پسندی اور شخصیت کی انتہا پسندی کا آئینہ دار ہے۔ ایسے مردوں کے لیے عورت سب کچھ ہے انسان نہیں ہے۔ اسی لیے ایسے مردوں کے لیے مرد عورت کا تعلق دو انسانوں کا تعلق نہیں بن پاتا۔ اسی لیے وہ عورت کے دوست یا محبوب یا شریکِ حیات نہیں بن پاتے۔ ایسے مردوں کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

درویش رابعہ کے اس موقف سے اتفاق کرتا ہے کہ ہم سب انسانی ارتقا کے ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں اسی لیے مردوں اور عورتوں کے اکثر رشتے نفسیاتی حوالے سے ٹین ایجرز کے رشتے ہیں ان میں جذباتیت کی زیادتی اور دانائی کی کمی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ان گنت مرد اور عورتیں جسمانی طور پر تو بالغ ہو گئے ہیں لیکن ذہنی طور پر ابھی بھی نابالغ ہیں۔

درویش کو رابعہ کی ذہنی بلوغت پر حیرانی ہوتی ہے۔ وہ سوچتا رہتا ہے کہ اس میں یہ بلوغت کہاں سے آئی؟ کیا یہ موروثی ہے یا اس کے خاندان کا اثر ہے یا یہ اس کی اپنی مشقت اور ریاضت کا ثمر ہے؟ اگرچہ رابعہ کے مزاج میں عاجزی اور انکساری ہے لیکن درویش کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے رابعہ کی ذہنی بلوغت دیکھ کر بہت سے لوگ خصوصاٌ مرد اس سے مرعوب اور INTIMIDATE ہو جاتے ہوں گے۔
اے رابعہ کیا ایسا ہی ہے؟

درویش کو رابعہ کے خطوط پڑھ کر اس کے افسانوں کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔ اسے اس بات کی خوشی ہے کہ اگر کبھی یہ خطوط رابعہ کے قارئین اور ناقدین تک پہنچے تو وہ بھی اس کی تخلیقات کو بہتر سمجھ پائیں گے۔ رابعہ کے افسانے جن کا ایک قدم شعور اور دوسرا قدم لاشعور میں ہوتا ہے۔
اگر رابعہ کے افسانے ایک پینٹنگ ہیں تو یہ خطوط اس پینٹنگ کا فریم ہیں۔

درویش شعور کی رو میں لکھے جا رہا تھا لیکن جب اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو اسے اندازہ ہوا کہ رات کے بارہ بج رہے ہیں۔ ابھی درویش رابعہ کی معرفت کے اس مقام تک نہیں پہنچا کہ ساری رات جاگتا رہے، کائنات کے اسرار پر غور اور تخلیقی عبادت کرتا رہے۔ وہ تو ایک پاپی ہے پرانا پاپی جسے اس کی نیند اور خواب بہت عزیز ہیں اس لیے وہ رابعہ سے اجازت چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).