لنڈی کوتل کی کشش چیخ اُٹھی


\"yousafگارے مٹی سے بنے کچے مکان، وسیع رقبے پر پھیلی قلعہ نُما حویلیاں اور اُن کے دیو ہیکل دروازے، سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس خاصہ دار، جابجا سرِعام اسلحہ کی نمائش، گھروں کی چھتوں پر مورچے اور سنگلاخ چٹانوں کے بیچوں بیچ بل کھاتی سڑکیں اور پگڈنڈیاں۔ کہیں سر سبز قدرتی مناظر، کہیں جھرنے، چشمے اور پتھریلے پہاڑی سلسلے۔ اپنے اندر صدیوں پرانی ثقافت کی روایات سموئے یہ لنڈی کوتل کی تاریخی سرزمین ہے، جہاں آج دوسری بار قدم رکھنے کا موقع ملا۔

لنڈی کوتل پشاور سے قریباً 50 کلومیٹر مغرب کی جانب افغانستان کی سرحد پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے قریب 1100 میٹر بلند یہ ’’علاقہ غیر‘‘ فاٹا کا حصہ اور خیبر ایجنسی کی تحصیل ہے۔ کوئی دس سال پیچھے سیاحوں کے لئے پشاور سے لنڈی کوتل تک سفاری ٹرین دو انجنوں کی مدد سے چلا کرتی تھی جو کشیدہ حالات کے پیشِ نظر اب ماضی کا حصہ بن چکی، البتہ اس راستے پر کئی دہائیاں پہلے تعمیر کئے گئے 92 پُل اور 34 سرنگیں اب بھی ماضی کا پتہ دیتی ہیں۔ جمرود روڈ پر واقع تاریخی بابِ خیبر کو چھو کر گزرنا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں۔

لنڈی کوتل کی’’ کشش ‘‘بھی کمال ہے۔ معصوم، بھولی بھالی، ذہین اور آنکھوں میں روشن مستقبل کی قوسِ قزح سجائے زندگی کے ایک درجن سال مکمل کر چکی ہے۔ شخصیت میں ابھی سے روائتی پختون رکھ رکھاؤ رچا بسا ہے۔ ایک جانب قبائلی روایات کی پاسداری تو دوسری جانب مسیحی عقیدے سے اٹوٹ تعلق۔ ایک جانب کسمپرسی کی زندگی تو دوسری جانب با وقار زندگی کا عزم۔ ایک جانب مسیحی ہونے کی سزا تو دوسری جانب برابری کے حق کی جدوجہد۔ کشش اپنے نام کی مانند واقعی پُرکشش بھی ہے اور مستقبل میں لنڈی کوتل کی کشش کہلانے کی بدرجہ اُتم صلاحیتوں سے مالا مال بھی۔

کشش اپنے والد شکیل کو ہی گاؤ تکیہ بنائے مزے سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی۔ چہرہ حد درجہ پُر اعتماد اور آنکھوں میں ایسی گہرائی گویا جھیل سیف الملوک کا کوئی طلسماتی ناول ہو۔ سرکاری اسکول میں زیرِ تعلیم پانچویں جماعت کی بارہ سالہ کشش سے ہم وہ ساری دکھ بھری رُودار سُننے آئے تھے جس نے اِس بچی کو تعلیمی زیور سے ہی بدظن کر دیا تھا۔ وہ اپنے مستقبل کے سارے خواب اِن تاریخی دَروں اور پہاڑوں میں دفن کر چُکی تھی۔ لنڈی کوتل کے سماجی و سیاسی رہنما فنیاس اس علاقے کے تاریخی اوراق پلٹ رہے تھے اور طالبان دور کاایسا تذکرہ جاری تھا کہ دہشت اور خوف سے بدن بے جان لگنے لگے۔ فنیاس کے مطابق صدیوں پہلے اس درہ سے شاہِ تیمور کا گزر بھی ہوا تھا اور یہ کہ ’لنڈی‘ کا مطلب اُونچی جگہ ہے جبکہ ’’ کوتل‘‘ کسی بزرگ کا نام تھا۔ بحرحال یہ نکتہ تحقیق طلب ہے۔

ارے یہ کیا ؟ کشش کی آنکھوں میں آنسوؤں کی دھارا؟ یکایک گفتگو میں بے ربط ہچکیاں، ہونٹ خشک اور لفظ ادھورے رہنے لگے۔ زباں ایسی جامد ہوئی کہ سسکی ہی اظہار بن گئی۔ اُس کی نظر اپنے ہاتھ کی ٹوٹی ہوئی کلائی پر ایسی ٹھہری جیسے سوچ خوابوں کی پہرہ داری کر رہی ہو۔ کشش ایک لحظہ سنبھلی اور پھراُس کے الفاظ گہرا درد لئے ہچکی میں بدلنے لگے اور یوں پُر نم آنکھوں سے کشش بمشکل فقط یہی کہہ پائی کہ’’ سر کرامت نے 13 بار میرے ہاتھ پر کرکٹ بَلا (Cricket Bat)  مارا تو میرے ہاتھ کی کلائی ٹوٹ گئی‘‘۔

یہ سُنتے ہی میری آنکھ کی پُتلی جھپکنا بھول گئی، کانوں میں سنسناہٹ ہونے لگی اور ذہن سے الفاظ مٹنے سے لگے۔ دھیمے لہجے مگر کرب میں کہے گئے کشش کے یہ الفاظ چیخ بن کر گونجنے لگے۔ ایسے لگا گویا کشش کی روح میں اُترا درد محسوس کر کے سارا لنڈی کوتل چیخ رہا ہو۔ اسکول پڑھنے اور خواب بُننے والی بچی پر سرکاری اسکول کے اُستاد کا ایسا تشدد کہ لنڈی کوتل کے پہاڑ یقیناً بِلبِلا اُٹھے ہوں گے۔ ’’میں نے کوئی شرارت نہیں کی تھی ‘‘ کشش حلفاً اور قسماً کہنے لگی ، ’’اور نہ ہی سر کی اِجازت کے بغیر کلاس سے باہر گئی تھی، مگر سر نے میری ایک نہ سُنی اور کہا کہ ’’تم لوگ‘‘ ہوتے ہی جھوٹے ہو‘‘۔

کشش کی چھ بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ باپ ہسپتال میں معمولی نوکری کر کے بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھا رہا ہے مگر اس واقعہ نے اُس کے دل کو اُس لمحے کتنا چھلنی کیا ہوگا جب کشش نے آئندہ تعلیم حاصل نہ کرنے کا ’اعلان‘ کر دیا۔ ذرا اُس لمحے کو بھی ذہن میں لائیے جب کشش سوچ کے مختلف زاویوں سے گزرتے ہوئے ایک ’’اُستاد کی اُستادی‘‘ کے نتیجے میں اس کٹھن فیصلے تک پہنچی ہو گی۔

باپ کے ہاتھ کو محبت اور مضبوطی سے تھامے کشش اس واقعہ سے متعلق کمرے میں موجود افراد کے تبصرے سُن رہی تھی اور راقم کو ملک بھر میں جاری تمام تر تعلیمی پالیسیوں، تجزئیوں، جائزوں، اندازوں اور قوانین سے اُس وقت سخت گھن آنے لگی جب ہونہار اور ذہین کشش نے کسی ’’تعلیم یافتہ‘‘ اُستاد کے ’’حُسن سلوک‘‘ سے تنگ آکر تعلیم کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا۔ تبصروں میں معمولی وقفہ آیا تو معصومانہ آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ’’ میں لنڈی کوتل کی تاریخ میں پہلی مسیحی لیڈی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی‘‘۔ کشش کے یہ پُر درد الفاظ سُننے اور سہنے کی مجھ میں سکت نہ تھی لہٰذا اُس کا مزید سامنا بھی نہ کر سکا۔ ’’ڈاکٹر بننا چاہتی تھی‘‘ اِن الفاظ نے سبھی کو گھائل اور رنجیدہ بھی کر دیا مگر شکیل تو آنسوؤں میں نہا ہی گیا۔

قبائیلی روایات و قوانین کے مطابق اُستاد کرامت کے خلاف کارروائی کی درخواست دے دی گئی ہے۔ کشش کو چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے دلائل کے ساتھ تعلیم جاری رکھنے کے لئے قائل بھی کر لیا گیا ہے۔ کشش پھر سے ڈاکٹر بننے کے سپنوں کو تعبیر کرنے کی لگن میں مگن ہے اور باقاعدگی سے اسکول جانے لگی ہے مگر اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اُس کے ساتھ اسکول میں آئندہ مذہبی تعصب اور نفرت کا اِظہار نہیں ہو گا۔ اُس کی دیگر تین بہنیں جو اُسی اسکول میں زیرِ تعلیم ہیں کو کسی قسم کے بدلے کی آگ میں نہیں جھونکا جائے گا۔ انتظار ہے کہ جسمانی تشدد کی پاداش میں سرکاری اسکول کے اُستاد کے خلاف قانونی کارروائی کب ہوتی ہے اور اُس کا حاصل کیا ہوگا ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).