دیکھو میں اپ گریڈ ہو گئی، ماسی سے میڈ ہو گئی


ماسی! سرائیکی، پوٹھواری، پنجابی اور برصغیر میں بولی جانے والی مختلف زبانوں میں خالہ کی نسبت سے استعمال ہوتا ہے۔ سنسکرت میں موسی بھی کہا جاتا ہے کتنا حسن ہے اس رشتے میں ماں کی بہن، ماں جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے اُس کی ماں جائی۔ محبت اور احساس کا خزانہ ہے یہ رشتہ۔ مگر افسوس کہ یہ رشتہ ایک لفظ بن گیا ہے۔ رشتہ لفظ کیسے بنا؟ اس کی کوئی لمبی چوڑی کہانی نہیں۔

آج میں سکول سے گھر واپس آئی تو کچن میں کھڑی عورت کی پیٹھ تھی میری جانب میں نے اُسے آواز دی ماسی! میرے لئے پانی لانا۔ جب وہ میرے قریب آئی تو میرے نے دیکھا کہہ وہ تو ایک 24/25سالہ لڑکی ہے۔ اُس نے مسکرا کر سلام کیا اور میں ہنس کر بولی ارے تم تو میری بیٹیوں کی عمر کی ہو اور میں نے تمہیں ماسی کہہ دیا۔ نام کیا ہے تمہارا؟ وہ بولی نگینہ۔ میں نے کہا اچھا اب میں تمہیں نگینہ ہی کہوں گی وہ بے پرواہی سے بولی نہ باجی آپ مجھے ماسی کہہ لیا کریں میں ہوں جو ماسی۔ میں نے پوچھا یہاں تمہیں کون لایا ہے تو وہ بولی کہ میری چھوٹی بہن ساتھ والوں کے گھر ماسی ہے اُسے آپ کی بہو نے کہا تھا۔ میرے پاس کام نہیں تھا تو میں ادھر آگئی اور چھوٹی باجی نے مجھے رکھ لیا۔ وہ تو پانی دے کر چلی گئی اور میں سوچنے لگی کہ ماسی ایک رشتہ ہے یا کسی نوکری کا نام؟

ذات پات اونچ نیچ، امیر غریب کا یہ چکر تھا جس سے نکلنے کے لئے اسلام کے نام پر پاکستان حاصل کیا گیا۔ مگر یہ پھیر تو ختم نہیں ہوا۔ مگر ایک رشتہ آہستہ آہستہ ہمارے ہاتھوں سے پھسل گیا۔ وہ خاتون جو ہمارے ماؤں کی عمر کی ہوتی تھی اور گھر کے کام کاج کر دیا کرتی تھی اسے پہلے وقتوں میں ماسی یا بُوا کہتے تھے۔ یہ باعزت خواتین محنت کرکے روٹی کماتی تھیں اور ہم بھی اتنے عزت دار تھے کہ ان کو اپنے ساتھ عزت کے رشتے میں باندھ کر ماسی یا بُوا کہتے تھے اور اُن ماسیوں اور بواؤں کی عمریں کٹ جاتی تھیں ہمارے ساتھ رشتہ نبھانے میں۔ ماؤں کی صلاح کار وہی۔ میکہ اور سسرال بھی وہی بچوں کو دلارتی، چمکارتی ماؤں کی ڈانٹ ڈپٹ سی بچاتی۔ میاں لوگوں سے ادب لحاظ کا واسطہ رکھتی ہوئی یہ منہ بولی ماسیاں اور بوائیں جانے کب اور کیسے ہمارے ہاتھوں سے کہیں چھوٹ گئیں۔

طور طریقہ اشرافیہ نے اپنا بدلا اور رشتوں کا بھرم ٹوٹنے لگا اور با الآخر یہ خادمائیں کام والی ماسیاں بن گئیں اور اب نہ ان ماسیوں کے ہم پر کوئی حقوق ہیں نہ ہمیں ہی رواداری کا کوئی پاس ہے۔ یہ گھریلو کام کرنے والیوں کا قصور قطعی نہیں کہہ اب اُن میں وہ پہلے والی وفا نہیں۔ پہننے کو اترن، کھانے کو الگ برتن، رات کا بچا سالن اور وقت پر کبھی کام نہ آنا۔ اُن کی تکلیف اور راحت کو اپنی تکلیف اور راحت نہ سمجھنا۔ صوفے یا پلنگ پر نہیں نیچے بٹھانا۔ ہر معمولی سی غلطی پر لال پیلے ہونا۔ آدھے ماہ کے گزرنے کے بعد پچھلے ماہ کی تنخواہ دینا کیا یہ ہیں اُن کے حقوق یا یہ ہماری نا اہلی ہیں۔

ہم آج یہ مان ہی لیں تو اچھا ہے کہ ہم نے گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو نہ عزت فراہم کی ہے اور نہ محبت۔ ہم انہیں اچھوت سمجھ کر پانی پینے کا برتن بھی الگ کر دیتے ہیں اوراُس کے ہاتھوں کا بنا کھانا ہمارے لئے پاک اور صاف ہے مگر وہ ساتھ بیٹھ کر کھانا تو دور کی بات ہمارے والے برتنوں کو بھی جھوٹا نہیں کر سکتی۔ اس کی دھلی چادریں ہمارے پلنگ کی ستر پوشی کر تی ہیں مگر دھونے سے بچھانے کے بعد اُس بستر پر وہ نہیں بیٹھ سکتی۔ ہمارے فینسی گھروں میں اُس کے بچوں کا داخلہ منع ہے تو وہ کیونکر ہمارے بچوں کے ساتھ اپنے بچوں والا پیار رکھے۔ کیوں باجی جی کے وفادار رہے۔

ہماری بیماری تو بیماری مگر اس کی بیماری بہانہ تو وہ کیوں نہ ہمیں کمرے میں محدود پا کر کچن سے کچھ اٹھا لے۔ ہماری نوت کے آگے وہ کیوں سرنگوں ہو کر رہے۔ کون سا قلبی رشتہ ہم نے جوڑرکھا ہے کہ وہ اس کا مان رکھے اور ہماری دل سے عزت کرے اور ہمارے گھر رازوں کو اپنے تک رکھے۔ کیوں وہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر ہمارے خدمت کرے۔ الحمدللہ کہ اب کام والی ماسی اپنا کوئی جذبہ ہم کٹھور لوگوں پر خرچ نہیں کرتی بلکہ وہ اب خود ایک مزدور سمجھ کر اپنا محور کام کی جلدی سے نبٹانا اور تنخواہ پانا بنائے ہوئے ہے۔

ہمارا کام وہ ستھرا نہیں کرتی۔ کیوں کرے؟ کیا ہم اس کے انسان ہونے کے حقوق بھی پورے کر رہے ہیں۔ بات بے بات کوسنے اور چھٹی کروا دوں گی کی دھمکی الگ، صرف ایک دن گھر کی بڑی اپنے جیسا سلوک گھر میں اُس سے کرے اور باقیوں سے کروائے۔ تھوڑی سی مدد کام کرنے میں کردے یا پاس بلا کردو دو گھڑی محبت کا ہی اظہار کر دے وہ رشتے پھر بن جائیں گے جو ٹوٹ گئے ہیں یا چھوٹ گئے ہیں

گھریلو ملازمہ کو گھر کا فرد تسلیم کیا جانا چاہیے جیسا کہ اسلام اور ہماری روایات کا درس ہے یا کلی طور پر مغربی طرز پر انہیں مزدور مانا جائے۔ مگر دونوں کام ہمارے لئے نہایت دقت کا باعث بنیں گے مگر یہ دقتیں آنے والے خوبصورت وقتوں کی نوید ہیں۔ میری ناقص رائے میں انہیں مزدور مانتے ہوئے ہی اب آگے چلا یا جا سکتا ہے کیونکہ غربت اور جہالت کے اندھیرے کسی بھی انفرادی اور شخصی جدوجہد سے ختم نہیں ہونے والے، چند گھرانے انہیں گھر کا فرد مان بھی لیں گے تو کیا باقی تمام گھرانے اس بھاری ذمہ دار کو نبھانے کی بھلے ہی جذباتی اہلیت رکھتے ہوں مگر کیا اُن کی جیب بھی اجازت دیتی ہے؟ مہنگائی نے امراء کے علاوہ سب ہی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس لئے جیسے دیہاڑی دار مزدور کی یومیہ دیہاڑی مختلف علاقوں کے موسم اور جغرافیہ کو مدِنظر رکھ کر مقرر کی جاتی ہے ان گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی بھی مقرر تنخواہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اس سماج میں آرام اور عزت سے جی سکیں اور کچھ اپنے خدانخواستہ آڑے وقتوں اور بڑھاپے کے لئے پس انداز بھی کر سکیں۔

اس افراتفری کے دور میں جب ابھی سے مائیں بچوں پر بوجھ ہیں تو آنے والے وقتوں میں کیا حالات ہوں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس پر ٹھوس بنیادوں پر کام ہونا چاہیے۔ فی گھنٹہ کے حساب سے تنخواہیں مقرر کی جانی چاہئیں اور بزرگ خواتین کو حکومت کی طرف سے وظیفہ ملنا چاہیے آنے والی حکومت سے اپیل ہے کہ ان سنہرے ہاتھوں کا تحفظ کریں اور باقاعدہ ہوم سروس پرو وائڈنگ ایجنسیز بنائیں جائیں۔ جہاں پر باقاعدہ آجر اور اجیر دونوں کا چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔ کرخت مالکان بھی نامنظور ہیں وہیں گھریلو کام کرنے والیاں بھی ایمانداری سے کام کرنے والی درکار ہیں اس طرح انسانوں کا انسانوں سے رشتہ مضبوط ہو گا۔ اعتبار اور امن بحال ہو گا۔ خوشحالی آئے گی کہ 52%آبادی خواتین ہی ہے۔
ہم نام نہاد تعلیم یافتہ اور ترقی پسند لوگوں نے آج تک ان کام کرنے والیوں کے لئے جو بہت بڑا تیر مارا ہے وہ بس اتنا ہی ہے کہ اب ہمارے بچے ماسی کی جگہ میڈ کہنے لگے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).