سرحد کے پار، آزادی کی یاد


13 اگست 2007 کو ساٹھویں یوم آزادی سے ایک روز پہلے ہم ایک وفد کی صورت میں واہگہ بارڈر کی راستے پیدل سرحد پار بھارت میں داخل ہوئے، امرتسر میں ایک امن کانفرنس میں سیاستدانوں، صحافیوں اور سماجی تنظیموں سے وابستہ افراد کو مدعو کیا گیا تھا، وفد میں اس وقت کی دونوں بڑی جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ بھی شریک تھے۔

میں 1998 میں بھی نئی دلی جاچکا تھا امرتسر جانے کا پہلا موقع تھا، میرے لیے اس کی اہمیت کچھ الگ تھی، کیونکہ بچپن سے تقسیم کی کہانیاں سن رکھی تھیں، میرے بڑے اس شہر میں آگ اور خون کا دریا عبور کرکے اس جانب لاہور آئے تھے، شہر کی سڑکیں اور کئی علاقے ذھن نشین تھے،

سرحد پار کرتے ہی استقبال کرنے والوں میں برصغیر کا ایک معتبر نام کلدیپ نائر تھے جنہوں نے ہمیں ہار پہنا کر خوش آمدید کہا، نرم خو، کم گو شخصیت میں بزرگی، بڑے نپے تلے الفاظ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی مختصر انداز میں تشریح کی۔ ہم دو طرف رہنے والے ایک دوسرے کے ہر دکھ سکھ سے واقف پڑوسی ہیں، جن کا کچھ بھی آپس میں چھپا نہیں۔ دو دیشوں میں سرحد ضرور ہے لیکن ہمارے من کے کواڑ کبھی ایک دوسرے کیلئے بند نہیں ہوئے۔

ہوٹل کے مراحل سے فارغ ہوکر کمپنی باغ کے سامنے ٹاؤن ہال پہنچے جہاں کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ دونوں ملکوں کے دانشوروں اور سیاستدانوں نے اپنے خیالات ظاہر کئے، دوسرے سیشن میں ایک لالچ کے تحت میں اپنے ساتھی صحافی کے ہمراہ وہاں سے نکلا، میرے پاس وڈیو کیمرہ تھا جس سے سرحد عبور کرنے سے لیکر اب تک لمحات قید کرتا آیا تھا، ہم وہاں سے پہلے پیدل چلے، مگر میری منزل جلیانوالہ باغ سے پہلے ماضی میں ملکہ کا بت چوک تھا، جسے کسی یادگار سے منسوب کرکے وہاں اب چاروں مذاہب کے نشان لگادیئے گئے تھے، اسی کی بائیں جانب میرے خاندان کا گھر تھا، جو 47 میں ہی جلادیا گیا تھا، مگر اس کی بڑی نشانی اس کے قریب پانی کی چار ٹینکیاں تھیں، جو اب بھی موجود تھیں۔ انہیں دیکھ کر وہ علاقہ اور واقعات نظروں کے سامنے گھومنے لگے۔

تقسیم کے نتیجے میں میرے خاندان کی طرح ہزاروں لاکھوں گھرانے تھے جنہوں نے اپنوں کو یہاں بے گورکفن چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں ٹکڑیوں کی شکل میں ہجرت کی، مرنے والے بھی صرف ہماری باتوں میں شہید کہلائے اور ادھر جاکر کسی نے تحریک آزادی کا کوئی تمغہ بھی نہ وصول کیا۔ نظریہ پاکستان کے علمبرداروں کو چند سو کے سوا ایک بڑی اکثریت کا علم بھی نہیں ہوگا۔ بلکہ لاہور میں بیٹھے مخصوص کے حامل افراد اس آزادی کے سول پروپرائٹر بھی قرار پاگئے۔

خیر یہ بات کرنے کامقصد ستر سال کسی میڈل کی تلاش یا اعزاز کا حصول ہرگز نہیں ہے، آزادی کی یاد امرتسر جاکر ضرور آتی ہے۔ وہاں جگہ جگہ یادگاریں ہیں،

میں نے ماضی کو کریدنے کی کوشش کی تو مجھے چند ایک پرانے لوگ مل گئے، انہوں نے آپس کے پیار محبت کا تذکرہ کیا لیکن حکومتی سطح پر خصوصاً سرحدوں پر پائی جانے والی کشیدگی کو بالکل مختلف نظر سے دیکھا، وہ اسے آزادی کی روح کی نفی قرار دیتے پائے گئے۔ ان کا موقف تھا کہ ایک گھرانے میں بٹوارہ ہوجائے دو بھائی دیوار کرلیں پھر ایک دوسرے کے ساتھ کس بات کا جھگڑا رہا، اپنی انفرادی حیثیت میں تعلق رکھنے میں کیا قباحت ہے۔ ان کا کہنا تھا جب آپ کا جنرل اگر یہاں آئے امن کی بات کرے اس پر کچھ نہیں ہوتا مگر سیاسی قیادت بھارت کی بھی ادھر جائے تو شور مچ جاتا ہے۔ اس دہرے معیار نے دونوں کے درمیان تلخی بڑھائی ہے۔ ایک دوسرے سے نفرت پیدا کرنے میں کئی اور عوامل بھی پائے جاتے ہیں۔ دشمنی کی فضا برقرار رکھ کر اپنا کام نکالنے کی پالیسی انگریز کی تھی، وہ اب کسی اور شکل میں موجود ہے۔

ہم نے رات ایک ثقافتی تقریب میں شرکت کی، ہنس راج ہنس نے گیت گائے اور نوجوت سدھو رکن پارلیمنٹ نے پیار بھری باتوں اور چٹکلوں سے اپنی محبت کا بھرپور اظہار کیا۔ حالانکہ ان دنوں وہ بی جے پی کے رکن تھے۔ ہم سب نے ملکر بھارت کی اس جانب سے بارڈر پر آکر امن کے دئیے روشن کئے اور روایتی ساتھ چلنے کا عزم ظاہر کیا۔ بظاہر یہ ایک پرجوش سرگرمی تھی، مگر ہم کم ازکم جانتے تھے کہ چودہ اگست بھارت میں منانے والے پاکستانیوں کو اپنے ملک میں کسی اچھے خیالات سے تعبیر نہیں کیا جارہا ہوگا۔

آزادی کی ساٹھویں سالگرہ سرحد کے اس پار منانے کا تجربہ اگرچہ مختلف تھا۔ لیکن وہ شاید کبھی بھولے گا نہیں۔ کیونکہ اس روز ہم نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ دشمنی بھلاکر ایک اچھے دوست اور پڑوسی کی طرح رہنے سے نہ صرف خطے کے پائیدار امن کو یقینی بنایا جاسکتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کو پرامن بقائے باہمی کے مثال بھی قائم کی جاسکتی ہے۔ مگر افسوس آنے والے برسوں میں کوئی خاص پیش قدمی نہ ہوئی، اور ان دس گیارہ برسوں میں ہم وہیں یا شاید کچھ پیچھے چلے گئے ہیں۔

یہی کہہ سکتے ہیں، ہمیں اور انہیں اپنی اپنی آزادی مبارک ہو۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar