اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب: ووٹ ٹوٹنے کے امکان پر تحریک انصاف سخت پریشان


پاکستان تحریک انصاف کو مکمل یقین ہو چلا ہے کہ ان کے چیئرمین عمران خان 18 اگست کو وزیراعظم کے منصب کا حلف اٹھانے والے ہیں اور عمران خان نے خود بھی اس حوالے سے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں کہ 18 اگست ان کے خوابوں کی تعبیر کا دن ہے لیکن 14 اگست کی رات پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنمائوں کے وفاقی دارالحکومت میں اضطرابی نقل و حرکت اور غیر اعلانیہ رابطے، قومی اسمبلی کے اراکین کی رہائش گاہ پارلیمنٹ لاجز میں رابطے اور بعض مانوس رہائش گاہوں پر ہونے والی ایسی سرگرمیاں جن کے لئے اگر مشکوک لفظ مناسب نہیں تو انہیں پُراسرار ضرور کہا جاسکتا ہے اور یہ تمام صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے منگل کو اسلام آباد میں ایک قابل اعتماد رفقا کا ایک اجلاس بلایا اور اس میں آج (بدھ) کو ہونے والے قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔

انتہائی مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کیلئے یہ خبر ایک دھچکے سے کم نہیں تھی جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ آزاد ارکان قومی اسمبلی کی ایک قابل ذکر تعداد پران کے مخالفین نے انتہائی خاموشی سے کام کر لیا ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ نہ دیں اور صرف آزاد ارکان ہی نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان بھی مرکزی قیادت کی جانب سے بعض ناپسندیدہ فیصلوں اور اہم عہدوں کیلئے انہیں نظرانداز کئے جانے کا خاموشی سے انتقام لے سکتے ہیں جس کے بعد عمران خان نے اپنے ان سیاسی مصاحبین کو قدرے غیر دوستانہ انداز میں ہدایت کی وہ کچھ نہیں جانتے۔ بدھ کو سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے موقع پر تمام ارکان کی حاضری کو یقینی بنایا جائے اور انہیں دونوں پارلیمانی مناصب پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کی کامیابی چاہئے۔

مذکورہ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین نے عمران خان کو یقین دلایا کہ ہم ہدف سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے دونوں امیدوار کامیاب کرائیں گے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے اس کیلئے ایوان میں ووٹنگ نہیں ہوتی اس لئے کسی بھی پارٹی کا کوئی بھی رکن اپنی پارٹی پالیسی یا قیادت کی خواہش کے برعکس اس کے مخالف امیدوار کو ووٹ دے سکتا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق عمران خان نے یہ ہدایت بھی کی ہے کہ بدھ کی صبح بالخصوص صرف آزاد ارکان اور ان ارکان پر جو تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں کہ ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے بعض فیصلوں پر تحفظات رکھنے والے ارکان پر بھی نظر رکھی جائے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کو اس بات کا خدشہ ہے کہ سینٹ کے الیکشن کی طرح سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا الیکشن بھی ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہوکر ان کے ہاتھوں سے نہ نکل جائے اور یہاں بھی سینٹ کے الیکشن کی طرح ارکان کی خریدوفروخت کا کام شروع نہ ہوجائے اور اس حوالے سے مشاورتی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک اہم شخصیت کا نام بھی ایک سے زیادہ مرتبہ آیا جن کا نام سینٹ کے الیکشن اور بلوچستان کی حکومت میں تبدیلی کے حوالے سے بھی آتا رہا ہے۔ مذکورہ ذرائع کے مطابق اگر صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں سپیکر یا ڈپٹی سپیکر دونوں میں سے ایک الیکشن ہار جائے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پارلیمانی روایات کے مطابق سپیکر اور ڈپٹی سپیکر دونوں عہدے حکومتی جماعت کے نمائندوں کے پاس ہوتے ہیں ہر چند کہ ان عہدوں کو غیر جانبدار کہا جاتا ہے لیکن اگر یہ دونوں عہدے بیک وقت حکومتی جماعت کے پاس نہ ہوں تو ایوان میں اپنی اکثریت کے باوجود حکومت ایک انتہائی دشوار اور پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہوسکتی ہے اور قانون سازی سے لیکر ایوان کی کارروائی چلانے تک اسے تمام امور پر بے بسی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اگرچہ ایسی مفروضہ صورتحال میں بھی 18 اگست کو عمران خان کے بحیثیت وزیراعظم حلف اٹھانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی لیکن حلف اٹھاتے ہی ان کا منصب غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوسکتا ہے جو ان کی نوزائیدہ حکومت اور فیصلوں پر براہ راست اثر بھی ہوگا۔ دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ الزامات پی ٹی آئی کے سپیکر کے امیدوار اسد قیصر اور پارٹی کے ترجمان فواد چوہدری کی طرف سے سامنے ائے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ ہمیں یہ رپورٹس ملی ہیں کہ ہمارے اہم ایم این ایز سے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے ووٹ کے لئے رابطہ کیا جارہا ہے۔ ہم ان رپورٹس کی انکوائری کرائیں گے۔ تحریک انصاف کی جانب سے نامزد سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ہمارے ارکان سے رابطوں کی اطلاعات ملی ہیں، یقین ہے ہمارے اراکین ضمیر کا سودا نہیں کریں گے، اراکین کو آفرز کا یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن اس عمل کی مذمت کرتے ہیں۔

تحریک انصاف کے اس وقت ایوان میں 150ارکان ہیں، اس کا دعویٰ ہے کہ اسے 174 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اگر سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لئے نتائج اس کے حق میں نہ آئے تو اس کے لئے بڑا دھچکا ہوگا۔ ڈپٹی سپیکر کے لئے تحریک انصاف کے قاسم سوری اور مولانا فضل الرحمن کے فرزند اسد محمود کے درمیان ہوگا جو اپوزیشن الائنس کے امیدوار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).