بلوچ خان اور نیا پاکستان


اپنے گھر کے ٹیرس پہ اپنے بچوں کے ساتھ جھنڈیاں اور برقی قمقمے لگاتے ہوئے مجھے اچانک سے بلوچ خان کا خیال آگیا، جو آج سے کم و بیش سولہ سال پہلے مجھے عجیب ڈرامائی انداز میں ملا تھا۔ یہ سال 2002ءکی بات ہے، جب چاغی کے اطراف میں قحط سالی کا ایک بہت بُرا دور آیا تھا۔ لوگ دوردراز کے علاقو ں سے نوشکی میں لگے ریلیف کیمپس تک پہنچ رہے تھے۔ جہاں حکومتی اور غیر حکومتی (این جی اوز) سیاسی اور غیر سیاسی تنظیمیں اپنے اپنے طور پر امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھیں۔ میں بھی 14اگست اور اُس کے آگے پیچھے کی دو تین خود ساختہ چھٹیاں مارکر اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ، جو کہ ایک این جی او کی طرف سے وہاں کام کر رہے تھے، اس صورتحال کو ایک تماشائی کی نگاہ سے دیکھنے کے لئے پہنچ گیا۔

وہ 14 اگست کا ہی دن تھا، جب ہم ایک امدادی سرگرمی کا بہانہ بنا کر راسکو کا پہاڑ دیکھنے نکل پڑے۔ جہاں چار سال قبل 28مئی 1998 کو تجرباتی ایٹمی دھماکے کئے گئے تھے۔ بلوچ خان اُسی سفر کے دوران ہم سے ٹکرایا تھا۔ لگ بھگ 80 سال کا وہ بوڑھا شخص اپنے خاندان کو لے کر خوراک اور پانی کی تلاش میں ایک چھوٹے سے قافلے کے آگے آگے اپنی پرانی طرز کی بندوق ہاتھ میں لئے ایسی چال چلتا ہوا آرہا تھا، جیسے وہ میدان جنگ میں ہو اور اُسے اردگرد سے کسی بھی لمحے دشمن کے حملے کا خطرہ ہو، جبکہ خاندان کے دیگر افراد جو خود بھوک پیاس سے نڈھال اور بے خوراکی کے مارے ہوئے چند لاغر مویشیوں کے ہمراہ چل رہے تھے۔ اُن کے چہرو ں پر بھی جنگ جیسی چوکناہٹ اور خوف کا عنصر جھلک رہا تھا۔

ہم اپنی گاڑی کا پنکچر لگارہے تھے جب وہ اچانک سے نمودار ہوئے۔ ہماری گاڑی دیکھتے ہی اُس بوڑھے نے اپنی بندوق ہماری طرف تان لی اور اُس کے ساتھ کے آٹھ دس دیگر مختلف عمروں کے افراد نے بھی ڈنڈے سنبھال لئے۔ جبکہ خواتین اور بچے سہم کے اُن کے پیچھے چھپ گئے۔ اس اچانک حملے سے گھبرا کر ہم نے بھی گاڑی کی اوٹ لے لی۔ چند لمحوں کی اعصاب شکن خاموشی کے بعد بوڑھے کی گرجدار آواز اُبھری۔ ’دوست ہو یا دشمن‘۔ اور جب ہماری طرف سے ’دوست ‘ ہونے کا پیغام گیا، تو بوڑھے کی بندوق پر اور جوانوں کی ڈنڈوں پر گرفت ڈھیلی پڑگئی۔ ہمارا ایک بہادر ساتھی آگے بڑھا، اُس نے بوڑھے سے کچھ دیر باتیں کیں اور پھر بوڑھا اپنی بندوق کاندھے پر ڈال کر ہمیں حیران و پریشان آنکھوں سے دیکھتا ہوا اپنے قافلے کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ ہمارا ساتھی واپس لوٹا تو وہ اُس بوڑھے سے کہیں زیادہ حیران تھا۔

وہ بوڑھا، جس کا نام ’بلوچ خان ‘ تھا، دراصل 1973میں ہونے والے ریاستی آپریشن کا ایک مزاحمت کار تھا۔ لیکن اُسے تب تک یعنی ہماری مدبھیڑ سے پہلے تک یہ اطلاع ہی نہیں پہنچی کہ وہ لڑائی تو کب کی ختم ہوچکی ہے، جس کے لئے وہ آج تک اپنے خاندان کے ساتھ دوردراز کے کسی پہاڑ پر مورچہ سنبھالے بیٹھا رہا ہے۔ اور اُس سے زیادہ حیرت اُسے اس بات پہ ہورہی تھی، کہ جو قحط اور خشک سالی اُس کا بازو پکڑ کر اُسے ’مورچے ‘ سے نکال کر خوراک اور پانی کی تلاش میں گھسیٹتا ہوا لے جارہا تھا، اُس کا بندوبست (ریلیف) وہ لوگ کر رہے ہیں، جن کے خلاف وہ آج تک اپنی داڑھی کے بجائے اپنی بندوق کو تیل لگاتا رہا ہے۔ اُس کے ساتھ دوسرے افراد اُس کے بیٹے اور پوتے تھے۔ مطلب کہ بلوچ خان کی تیسری نسل تک بے خبری کی وجہ سے حالت جنگ میں تھی۔

تیسرے دن جب میں واپس لوٹ رہا تھا، تو میں نے دیکھا کہ بلوچ خان اپنے بیٹوں کے ساتھ ریلیف کیمپ کی قطار میں کھڑا ہے، جہاں سرکاری امداد بانٹی جارہی تھی۔ اس وقت اُس کی بندوق نہ تو اُس کے ہاتھ میں تھی، نہ کاندھے پہ۔ شاید وہ اُسے چھپا کے آیا تھا، کہ کہیں تین دہائیوں کا غصہ، جسے بلوچ خان کی بھوک پیاس نے نڈھال کر دیا تھا، بے جان بندوق سے ہی نہ ابل پڑے۔ میں نے اُس وقت سوچا تھا، کہ اگر یہ قحط سالی نہ آتی اور دور دراز کے کسی پہاڑ پر رہنے والے بلوچ خان کو پانی اور مویشیوں کو گھاس ملتی رہتی تو نہ جانے اُس کی اور کتنی نسلیں اسی طرح سے حالت جنگ میں رہتیں۔ وہ ہر اڑتے جہاز کو بمبار سمجھتے، ہر گزرتی ہوئی گاڑی کو توپ خانہ۔ اپنے ہر پیدا ہونے والے بچے کے کان میں اذان دینے کے بعد یہ اعلان کرتے کہ اُن کی ریاست سے جنگ چل رہی ہے۔ اس لئے اُس نے بڑے ہوکر ہتھیار اٹھانا ہے اور تب تک اس پہاڑ سے نہیں اُترنا جب تک اس جنگ کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ جس میں ہار اُن کی موت ہے اور جیت ایک باعزت، خوشحال اور خود مختار زندگی کی ضمانت۔

بلوچ خان چاغی میں راسکو کے اُس پہاڑی سلسلے کا باشندہ تھا جہاں ہم نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔ یقینا اُس دھماکے کی گرج نے کئی برسوں کی خاموش کے بعد بلوچ خان کو ایک مرتبہ پھر چوکنّا کردیا ہوگا۔ اُس نے بندوق اور اولاد نے ڈنڈے سنبھالے ہوں گے۔ عورتوں نے خوفزدہ ہوکر چٹانوں کی اوٹ لی ہوگی۔ اور چلاتے ہوئے بچوں کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا گیا ہوگا۔ اُسے کیا پتہ کہ اُس کے آس پاس جس بم کے پھٹنے کی آواز آئی ہے، وہ اُس کی حفاظت کے لئے ہے یا اُس کی ہلاکت کے لئے۔ کیونکہ اُس تک تو یہ خبر ہی نہیں پہنچی تھی، کہ اُس نے جس مزاحمت کے نام پر بندوق اٹھائی تھی وہ تو کب کی ختم ہوچکی ہے۔ اُس بیچارے تک اُس کے حقوق اور زندگی کی بنیادی سہولتیں کیا پہنچتیں، اُس تک تو اُن دونوں فریقین میں سے بھی کوئی نہیں پہنچا جو اُسے جنگ ختم ہونے کی اطلاع دیتا۔نہ کوئی مزاحمت کار، اور نہ ہی اُس مزاحمت کا سر کچلنے والا کوئی اہلکار۔

میں نے قمقمے اور جھنڈیاں لگانے کا کام ختم کر لیا۔ مجھ تک ٹیلی ویژن پر ملی نغموں اور قوم کے شایان شان طور پر جشن آزادی منانے کی خبریں لاﺅنج سے ٹیرس تک آرہی ہیں۔ نیچے سڑک پر بنا سائلنسر کی موٹروں اور موٹر سائیکلوں کا شور اور اُن پر بھونپو بجاتے جھنڈے لہراتے نوجوانوں کا جوش و خروش وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ لیکن بلوچ خان کا وہ پرمژدہ چہرہ اُس کی اداس آنکھیں اور اُس کے لرزتے ہوئے ہاتھ میری آنکھوں سے اوجھل ہی نہیں ہورہے ہیں، جن سے وہ امدادی سامان وصول کر رہا تھا۔ تین دہائیوں تک غیرت کی روکھی سوکھی کھا کر باعزت زندگی کے خواب لئے وہ شخص اُس دن بھکاری بن کر کھڑا تھا۔

وہ تو شاید اُسی دن مر گیا ہوگا۔ اُس کی اولاد کہاں ہے، وہ ریلیف کیمپ کے تمبوﺅں سے گداگری کی فٹ پاتھوں تک پہنچ گئے یا پھر اُنہوں نے دوبارہ سے اپنے باپ کی بندوق اٹھالی۔ کیونکہ اُس کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک بار پھر شورش ابل پڑی۔ بندوقیں پھر اٹھ گئیں۔ ملانے والے اس لہر کی قلابیں اکبر بگٹی کی شہادت کے محرکات اور بیرونی عناصر کی دخل اندازی سے ملاتے ہیں، مگر مجھے اس کے پیچھے بلوچ خان جیسے لوگ یا پھر اُن کی اولادوں کی ’کارستانی ‘ نظر آتی ہے۔ ایسے بہت سے بلوچ خان جن کے مورچوں تک قحط پہنچا، نہ ہی خوشحالی جنگ کے خاتمے کی خبر لے کر پہنچی، اُن کا انتظار اور اضطراب ہتھیار  لے کر نیچے اُتر آیا۔غالباً یہ وہی ناراضگی تھی جس کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اُن کے لئے ’ناراض نوجوانوں‘ کی اصطلاح استعمال کی۔

 1973ءکے آپریشن کے بعد بلوچ خان کے ’دوستوں ‘ نے نہ اُس کی کوئی خبر لی، نہ اُس کو کوئی خبر دی۔ وہ شکست خوردہ اپنے ہی زخموں کی مرہم پٹی میں لگے ہوئے تھے۔ یہ بات قابل فہم ہے، لیکن یہ بات ناقابل فہم ہے کہ آپریشن میں کامیابی کا جھنڈا لہرانے والوں نے بھی اپنے زعم میں بلوچ خان جیسے لوگوں کو ناکارہ ہتھیار سمجھ کر میدان جنگ سے اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ورنہ وہ دوبارہ اُن کے خلاف استعمال ہونے کی بجائے اُن کے حق میں پہرہ دے رہے ہوتے۔

میں دوچار دنوں کے بعد عید کے لئے کراچی سے کوئٹہ جاﺅں گا تو یقینا مجھے راستے میں 14اگست کے تازہ جھنڈے اور جشن آزادی کی مبارک بادیاں مین ہائی وے پہ جابجا دیواروں پر سجی ہوئی نظر آئیں گی، جو مجھے پرتشدد کارروائیوں سے پاک ایک محفوظ راستے کا یقین دلارہی ہوں گی اور ایک نئے پاکستان کے جنون میں مبتلا میرے بچے جابجا اپنے موبائلوں سے اُن کی تصویریں بنارہے ہوں گے۔ لیکن اس مین ہائی وے سے نکلنے والے کچھ کچے راستے مجھے اس وہم میں مبتلا کر رہے ہوں گے، کہ ان میں سے مبادا کوئی راستہ کسی بلوچ خان کی جھونپڑی تک نہ جاتا ہو۔

بھونپو بجانے والے بنا سائلنسر کی موٹر بائیک اور گاڑیاں چلانے نئے پاکستانیوںکا جوش و جذبہ شام ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اور بھی بڑھ رہا ہے اور میرے دل میں یہ خواہش جاگ رہی ہے کہ یہ لوگ شہر کی ان گلیوں کی بجائے ریلیوں کی صورت میں اُن کچے راستوں پہ بھی چل پڑیں۔ ہو سکتا ہے اُن کے دمکتے چہرے دیکھ کر غلامی جیسی بدحالی اور کسمپرسی کا شکار کسی بلوچ خان کا غصہ بھی مسکرا اٹھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).