کیا تحریک انصاف اپنا امیدوار صدر منتخب کروا سکتی ہے؟


صدارتی انتخاب کا الیکٹورل کالج قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے کل ارکان پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن ان میں سے ہر رکن کا ایک ووٹ شمار نہیں ہوتا۔ قومی اسمبلی کے 342، سینٹ کے 104، بلوچستان اسمبلی کے 65، خیبر پختون خوا اسمبلی کے 124، سندھ اسمبلی کے 168 اور پنجاب اسمبلی کے 371 ارکان صدارتی انتخاب میں ووٹر ہوتے ہیں۔

آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق صدارتی انتخاب کے لیے سب سے چھوٹی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی کی مناسبت سے ہر صوبائی اسمبلی کے پینسٹھ ووٹ شمار ہوتے ہیں، جب کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ گنا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے قومی اسمبلی کے 342، سینٹ کے 104، بلوچستان اسمبلی کے 65 ووٹ ہیں، جب کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے ووٹ بھی 65، 65 ہی شمار ہوں گے۔ مجموعی طور پر صدر کے انتخاب کے لیے 706 ووٹ ہوتے ہیں، جن میں اسے اکثریتی ووٹ لینے والا صدر بن جاتا ہے۔

موجودہ صورت احوال میں تحریک انصاف قومی اسمبلی کے 180 ارکان کی حمایت کا دعویٰ کر رہی ہے، جب کہ سینٹ میں اس کی 12 نشستیں ہیں، سینٹ میں اس کی اتحادی جماعتوں میں سے 5 نشستیں ایم کیو ایم اور ایک فنکشنل مسلم لیگ کے پاس ہے، اس لحاظ سے سینٹ میں اسے 18 ارکان کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے، یعنی سینٹ اور قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس صدارتی انتخاب کے لیے مجموعی طورپر 198 ووٹ ہیں۔

سینٹ کے 18 آزاد امیدوار ابھی معلق سمجھے جائیں لیکن بہرحال یہ ووٹ صدارتی انتخاب میں چیئرمین سینٹ کے انتخابات جیسا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

وہ جماعتیں جو حکومتی اتحاد میں شامل نہیں اگر مشترک امیدوار لانے میں کام یاب ہوتی ہیں، تو انھیں قومی اسمبلی میں 150 ارکان کی حمایت حاصل ہونے کی توقع ہے، جب کہ سینٹ میں مسلم لیگ نون 31، پیپلز پارٹی 20، جے یوآئی (ف) 4، نیشنل پارٹی 5، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی 3 اور اے این پی کی ایک نشست کے ساتھ اپوزیشن اتحاد 64 ووٹوں کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے اپوزیشن اتحاد کا ساتھ دیا تو دو نشستیں مل کر 66 ووٹ بنیں گے۔ اس لحاظ سے اپوزیشن اتحاد کے پاس قومی اسمبلی اور سینٹ میں مجموعی طور پر 216 ووٹ ہیں۔

حکومتی اتحاد بلوچستان میں دست یاب، اکثریت کے بل پر اپوزیشن اتحاد کو صدارتی انتخاب کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود برتری سے با آسانی نمٹ سکتا ہے۔

پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون یک ساں نشستوں کے ساتھ ایک جیسی پوزیشن میں ہیں۔ یہاں چھوٹی جماعتیں اور آزاد ارکان مل کر بھی چار چھہ ووٹ سے زیادہ کا فر ق نہیں ڈال سکیں گے۔

خیبر پختون خوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کی بھاری اکثریت کے بل پر حکومتی اتحاد کو صدارتی ووٹوں کی برتری حاصل ہو گی، لیکن دوسری جانب تقریباً یک ساں ووٹوں کی حامل اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی صورت میں اپوزیشن اتحاد یہ حساب چکتا کر دے گا۔

عددی نمبر شمار کیے جائیں تو صدارتی انتخاب کے الیکٹورل کالج میں حکومتی یا اپوزیشن اتحاد میں سے کسی کو بھی واضح برتری حاصل نہیں، بلکہ ووٹوں کے حساب سے دونوں کا گراف انتہائی معمولی فرق کے ساتھ یک ساں سطح پر ہے۔

ان حالات میں سب سے اہم ووٹ سینٹ کے وہ اٹھارہ آزاد امیدوار ہیں۔ وہ جس طرف جھکاو ڈالیں گے، وہ پلڑا جھکنے کے بجائے اٹھ جائے گا۔ چند ماہ قبل چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخابات میں بھی یہی 18 آزاد پانسہ پلٹ پر اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ اہم یہ ہوگا کہ کون پہلے ان سے رجوع کرتا ہے اور کیا پیش کش کرتا ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں، کہ شاید اگلا صدر فاٹا سے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).