سفر اور زندگی


کہتے ہیں زندگی ایک سفر ہے، اگر یہ سچ ہے تو کیا زندگی گزارنے کے لئے اصول اور رہنمائی ٹریفک کے بہاؤ سے حاصل کی جا سکتی ہے؟ آئیے کوشش کرتے ہیں

ٹریفک سگنل

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آدھی رات کو سنسان چوراہے پر کبھی ٹریفک سگنل سرخ دیکھ کر رکے ہیں؟

چلیں میں اقرار کرتا ہوں میں نے ایسا کبھی نہیں کیا تھا، ویسے میں انتہائی ایماندار، قانون پسند اور فرض شناس شہری ہوں، سارا دن ٹریفک کی پابندی کرتا ہوں اور دوسروں کو اس کی تلقین بھی کرتا ہوں۔

پھر مسئلہ کیا ہے؟ دل پر ایک دفعہ پھر ہاتھ رکھیں اور سوچیں، کیا دن میں ٹریفک سگنل کی پابندی میرے قانون پسند ہونے کی وجہ سے ہے؟ اگر ہے تو رات کے دو بجے کیا قانون بدل جاتا ہے، نہیں، قانون وہی رہتا ہے مگر ہم اپنی تمام تر عقل، شعور اور تدبر کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت سگنل توڑنے میں کوئی خطرہ نہیں، تو ایک دفعہ پھر دن کے وقت پر آجائیں۔ دن کے وقت ہم بظاہر جو قانون کی پابندی کرتے ہیں، اس کے پیچھے بھی ہماری تمام تر عقل، شعور اور تدبر ہوتا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس وقت سگنل توڑنے میں حادثےیا چالان وغیرہ کا خطرہ ہے۔

تو جناب اصل حقیقت یہی ہے کہ جب ہم قانون کی پاسداری بھی کرتے ہیں تو قانون پسندی کے سبب نہیں اپنی عقل، شعور اور تدبر کے مطابق کیئے گئے فیصلے کے تحت کرتے ہیں۔

اب آپ اسی طرزِ فکر کوٹریفک سے نکال کر زندگی کے بڑے کینوس پر پھیلا دیں، اپنے ذاتی، اجتمائی اور قومی رویوں پر منطبق کردیں، قانون چاہے ٹریفک کا ہو یا دفتری ضابطے، کاروباری معاملے، سماجی لین دین، ان مسلمہ اصولوں پر عمل درآمد اپنی سوچ، عقل اور ججمنٹ کی بنیاد پر نہیں، صرف اور صرف قانون کی بالا دستی کےلئے کیجیے۔

میں دوبارہ اقرار کرتا ہوں کہ آج بھی اگر رات گئے میں سرخ بتی پر پہنچوں تو صرف تبھی رکتا ہوں اگر اوپر بیان کیا ہوا فلسفہ ذہن میں تازہ ہو جائے، جس دن میرے لاشعوری فیصلے اس فلسفے کے تحت ہونے لگے، تب ایک بٹا بیس کروڑ تبدیلی آجائے گی۔

بِھیڑ

رش میں پھنسی گاڑیوں میں جب آپ کو پتہ ہو کہ آپ کے گاڑی آگے بڑھانے سے آپ کو راستہ نہیں ملے گا، راستہ دوسری طرف کی گاڑی کے لئے چھوڑ دیں، شاید ٹریفک جام نہ ہو، اور راستہ کھل جائے، آپ کو شاید کچھ دیر لگ جائے، مگر کچھ لوگوں کی مشکل میں کمی ہوجائے گی۔

کبھی راہ چلتے، پیدل گزرنے والوں کے لئے گاڑی آہستہ کرکے راستہ دیدیں، آپ کو اندر سے ایک خوشی ضرور محسوس ہوگی۔
بغیر اشارے کے چوک پر دوسری طرف سے آتی گاڑی کو دیکھ کر سپیڈ بڑھانے کی بجائے آہستہ کر لیں اسے گزر جانے دیں، اسے احساس ہو نہ ہو، مگر یقین کریں آپ کو خود اچھا لگے گا۔

جب یہ عادات راسخ ہو جائیں تو انہیں زندگی کے سفر میں بھی آزمائیں، زندگی کی دوڑ میں جہاں اپنے لئے راستہ میسر نہ ہو، وہاں دوسروں کو جگہ دےدیں۔ کسی منفعت، لالچ، کسی صلے کی توقع کے بغیر، اپنے سے کم وسائل والوں کو مواقع دیں، ہر کسی سے مقابلہ یا موازنہ کرنے کی بجائے کسی دوسرے کو خود کو اپنے آپ سے بہتر سمجھ کر خوش ہو لینے دیں۔ کسی کے ساتھ بھلائی اسے احساس دلائے بغیر کریں۔

کچھ اچھی عادتیں ثواب و اجر سے بالا تر ہو کر بھی اپنا لیں

رفتار

اپنی کالونی کے گیٹ سے میرے گھر تک فاصلہ تقریباَ دو کلو میٹر بنتا ہے۔ دفتر سے واپسی پر اکثر جلدی ہوتی ہے۔ کھلی سڑک پر ایکسلریٹر پر پاؤں خود ہی دب جاتا تھا، تاوقتیکہ ایک دن ایک ہمسفر نے تھوڑا سا حساب کرنے کا مشورہ دیا۔

ساٹھ کی سپیڈ بڑی مناسب محسوس ہوتی ہے، گاڑی مکمل کنٹرول میں، آرام دہ سفر، سکوں، مگر جانتے ہیں زمین پر کھڑے بچے، آدمی یا بوڑھے کے لئے یہ سپیڈ کیا ہے؟ ساٹھ کی سپیڈ سے گاڑی ایک کنال کے گھر کے سامنے سے ایک سیکنڈ میں گزر جاتی ہے!

دو کلو میٹر کا فاصلہ ساٹھ کی سپیڈ سے دو منٹ میں طے ہوتا ہے، تیس کی سپیڈ سے چار منٹ میں، کل کتنا وقت بچا؟ دو منٹ، کیا یہ دو منٹ اتنے قیمتی ہیں کہ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا جائے؟ ذرا تصور کریں سوسائٹی کی سڑکیں کتنی پر سکون ہوں اگر سب ٹریفک تیس کی سپیڈ پر چل رہی ہو۔

اور پھر اس اندازِ زندگی کے بارے سوچیئے جو ساٹھ کی رفتار سے نہیں تیس کی رفتار سے گزر رہی ہو، ہر کوئی ہر وقت جلدی میں رہتا ہے۔ ذرا دیر کو ٹھہر جائیں، سانس لے لیں، چوبیس گھنٹوں میں سے چند لمحے اپنے لئے اپنی ذات کے لئے، اپنے چاہنے والوں کے لئے ضرور نکال لیں۔
زندگی سفر ہے زندگی کو سفر کی طرح گزاریں، اور سفر زندگی کی طرح کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).