جماعت اسلامی کی شکست کے اسباب


جماعت کے لیے آئیڈیل سیچوئشن یہ تھی کہ قیادت الیکشن سے ٹھیک دو سال پہلے (اسلامک فرنٹ ٹائپ پلیٹ فارم زیادہ مناسب ہوتا) کارکنان کو اپنے پرچم و نشان کی واضع ہدایت کے ساتھ متحرک اور یکسو کرتی، پھسپھسی مفاہمتی اور دوغلی سیاست کے بجائے کرپٹ مرکزی حکومت کے خلاف عوامی تحریک برپا کرتی، با اثر دیانتدار لوگوں کو پارٹی میں شامل کرتی (کے پی کے میں کچھ کام ہوا بھی) تو الیکشن کے موقع پر جماعت کے تمام ووٹرز، ہمدرد و کارکنان یک سو و یک زبان صرف و صرف جماعت کی کمپئن کر رہے ہوتے اور جماعت نہ صرف اپنے پلیٹ فارم سے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی فیورٹ پوزیشن پر کھڑی ہوتی بلکہ معقول نشستوں کے ساتھ مرکز اور صوبوں میں شریک اقتدار بھی ہوتی۔

پانچ سال پی ٹی آٸی حکومت کا حصہ رہنے کے بعد نوازشریف کے حامی مولویوں سے مل کر ایم ایم اے کی تشکیل اور عمران کے خلاف یکطرفہ پروپیگنڈے کا لوگوں نے یہی مطلب لیا کہ جماعت اسلامی بھی دراصل نواز شریف کی ہی حامی ہے جس کی حثیت انڈین فلم کے اس چھرا مار کن ٹٹے جیسی ہے جو ولن کے اشارے پر ہیرو کی پشت میں چھرا گھونپنے کے درپے رہتا ہے۔
اس پالیسی کے باعث عام ووٹر نے نہ صرف سخت رد عمل دیا بلکہ جماعت کے کارکن، ہمدرد و پکے ووٹر بھی متنفر ہوئے۔

پی ٹی آئی کی اتحادی ہوتے ہوئے نواز/ فضل کیمپ میں بیٹھ کر عمران خان پر کی جانے والی گولہ باری اور یکطرفہ کردار کشی کا خمیازہ جماعت اسلامی الیکشن میں بھگتا
غالب امکان یہی تھا کہ اگر ایم ایم اے نہ بنتی تو مولانا ہر صورت کے پی کے میں ن لیگ، پی پی پی، اے این پی اور قومی وطن کے ساتھ کھلم کھلا انتخابی اتحاد کی طرف جاتے جس کے رد عمل میں پی ٹی آٸی از خود جماعت اسلامی کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ آفر کرتی۔

ایم ایم اے کی تشکیل کے وقت جماعت کے بیشتر ہمدردوں اور کارکنوں کا خیال تھا کہ مولانا صاحب جماعت کو استعمال کر لیں گے مگر جماعت مولانا سے ہاتھ ملا کر رسوا ہو گی اور ایسا ہی ہوا۔
یہ 2002 کا زمانہ نہیں تھا تب امریکہ افغانستان پر حملہ آور تھا، مسلم لیگ بحثیت پارٹی زیر عتاب تھی، پپلزپارٹی کی لیڈر جلا وطن تھی، پشتون مشرف سے نفرت کرتے تھے، ایم ایم اے قاضی اور نورانی جیسے معتبر لوگوں کے ہاتھ میں تھی اور عمران خان سیاسی نو مولود تھا جبکہ 2018 میں پنجاب، کراچی اور کے پی کے کی سیاست ہی عمران خان کے گرد گھوم رہی تھی۔

تب مولانا فضل الرحمن کی عوام میں قدرے اچھی ریپیوٹیشن تھى، مولانا سمیع الحق اور صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر بھی ایم ایم اے کا حصہ تھے نیز لبیک یا رسول اللہ اور ملی مسلم لیگ بھی میدان میں نہیں تھیں۔

اب کے بار ہر حکومت میں حصہ داری، کرپشن کی مسلسل وکالت اور ختم نبوت متنازعہ ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دے کر مولانا بدنامی اور تنزلی کے پست ترین مقام پر پہنچ چکے تھے۔
انتخابات میں عبرت ناک شکست کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جماعت اپنی پالسی ریویو کرتی، ایک آئینی اسلامی دستوری جمہوری ملک میں قوم کو دینی لا دینی، مذہبی غیر مذہبی کے خانوں میں تقسیم کرنے کے بجائے شدت پسندانہ مذہبی اتحای سیاست سے تاٸب ہوتی، غلطیوں سے سبق سیکھتی اور کارکنان کو منظم کرتی مگر امیر جماعت ”میں نہ مانوں“ کی تصویر بنے سابقہ بے ڈھنگی ڈگر پر بضد ہیں۔

پاکستان ایک اسلامی/جمہوری/آئینی/ دستوری ملک ہے جہاں 98٪ مسلمان بستے ہیں۔
قرار داد مقاصد آئین کا حصہ ہے۔

کوئی ادارہ (پارلیمنٹ/فوج/عدلیہ) اللہ اور رسول اللہ صلعم کی طرف سے حرام کردہ کو حلال اور حلال کردہ کو حرام قرار نہیں دے سکتا، جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز نہیں ٹھہرا سکتا اور نہ ہی کوئی فرد یا ادارہ پاکستان کی اسلامی شناخت ختم کر سکتا ہے۔
اسلام بالفعل دستور پاکستان میں موجود ہے اقتدار میں آ کر آئین کو بالقوۃ بتدریج نافظ کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں نہ ہی یہ قوم کا مسئلہ ہے، مسئلہ تھا بھی تو قرارداد مقاصد اور 1973 کے متفقہ آئین نے حل کر دیا ہے۔ لہذا جماعت اسلامی کے لیے مناسب ترین راستہ یہی ہے کہ مذہب کا چورن بیچنے کے بجائے عوامی سیاسی جماعت بنے، ایم ایم اے سے علیحدگی اختیار کرے اور حکومت میں شمولیت کے بدلے صدارتی انتخابات میں اپنے 06 ووٹ اپنے سابقہ کارکن عارف علوی کو دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).