کیا واقعی پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار جنرل ضیا ہے؟


30 سال پہلے سترہ اگست کے دن بہاول پور کے نزدیک بستی لال کمال کے اوپر ایک سی ون تھرٹی طیارہ تباہ ہوا تھا، اس میں جنرل ضیا الحق اور ان کے ساتھی سوار تھے۔ یہ تمام افراد اس حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن آج اس واقعے کو گزرے 30 سال ہو گئے، اب بھی ایک ہی تذکرہ ہورہا ہوتا ہے، پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار جنرل ضیا ہے۔ اب بھی ہم سب کہتے ہیں کہ پاکستان میں آمرانہ ذہنیت اور سوچ کی وجہ جنرل ضیا کا دور ہے۔ آج بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ لوگ اس لئے پاکستان میں آواز نہیں اٹھاتے کہ پاکستان میں جگہ جگہ جنرل ضیا کی سوچ کی وحشت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جبر اور خوف کا جو خوف ہے، اس کے پیچھے ضیائی ذہنیت کار فرما ہے۔ اگر پاکستان کی دنیا میں کوئی عزت نہیں، تو اس کی وجہ بھی ضیا ہے اور رہے گا۔ آج پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کی آمجگاہ بناہوا ہے، اس کی وجہ بھی وہ گیارہ سالہ بدترین اور منافقانہ دور حکومت ہے۔

جو یہ کہتے ہیں کہ حکمران اور سیاستدان سب کچھ ضیا پر ڈال کر بری الزمہ ہوجاتے ہیں، وہ بھی درست فرماتے ہیں۔ ضیا نے معاشرے میں جو زہر گھولا تھا، اسے زہر کو نکلتے نکلتے عرصہ تو لگے گا، لیکن کتنا عرصہ، بھیا 30 سال ہو گئے، ہم 2018 میں پہنچ گئے۔ ایسا کب تک چلے گا کہ سب کچھ اس پر ڈال کر ہم صرف باتیں ہی کرتے رہیں گے؟ ضیا کی آمریت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی تین مرتبہ برسر اقتدار آئی۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ نے تین باریاں لی۔ اس کے علاوہ ایک اور آمر آیا جو اپنے آپ کو روشن خیال شخصیت کہتا تھا، اس نے دس سال گزار دیے۔ لیکن تان آج بھی بدترین آمر ضیا پر آکر ہی ٹوٹتی ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں ضیا ایک شخص کا نام نہیں، ایک بدترین ابنارمل ذہنیت کا نام ہے، وہ جس نے سوچ پر پہرا بٹھادیا، آج بھی سوچ پر پہرے داری کا سماں ہے، وہ جس نے دانشوروں، مفکروں اور شاعروں تک کو پکڑا، انہیں کوڑے لگائے اور ان کی سوچ پر تالے لگوا دیے، آج بھی ویسا ہی سماں ہے۔ جس قتل و غارت گری کا آغاز جنرل ضیا نے آج سے 30 سال قبل کیا، وہ چلا گیا، لیکن قتل و غارت گری جاری و ساری ہے۔ یہ جو مسلم لیگ ہے جس کا دفاع لبرل حلقے بھی کررہے ہیں، یہ بھی جنرل ضیا کی لونڈی رہی ہے، اس آمر نے گیارہ سال صرف حکومت نہیں کی، بلکہ سوشل انجینیئرنگ کی کی، سماج کی نفسیات میں زہر گھولا، تاریخ کا قتل کیا۔ سماج کی برین واشنگ کی، یہ ایک حقیقت ہے، یہ ایک سچ ہے، مگر یہ سچ ایک مکمل سچ نہیں ہے؟

سچ یہ بھی تو ہے کہ کسی نے ایک کمیونٹی کو کافر قرار دیا تھا، سچ یہ بھی ہے کہ انتہا پسند عناصر کو نشوونما نظیر بھٹو اور نصیر اللہ بابر نے بھی کی تھی۔ سچ یہ بھی ہے کہ ضیائی سوچ کو کاونٹر کرنے کے لئے لیفٹ اور لبرل حلقے نے بھی کوئی کام نہیں کیا۔ سچ یہ بھی ہے کہ پی پی پی پر بھی جنرل ضیا کی باقیات کا غلبہ تھا، ہے اور رہے گا؟ بھٹو کی حقیقت شخصیت کا ضیا کے معاملے پر پی پی پی نے موثر استعمال نہیں کیا۔

سچ یہ بھی ہے کہ ضیا پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کرسکا، پی پی پی کو اس کی اپنی قیادت نے نقصان پہنچایا۔ ضیا نے غیر جماعتی انتخابات کرائے، پارلیمانی نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی، لیکن پارلیمانی نظام آج بھی ہے، کیا یہ پارلیمانی نظام اس ذہنیت کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو سکا ہے جس کی سوشل انجینیئرنگ ضیا نے کی تھی؟ پارلیمنٹ چاہتی تو ضیائی ذہنیت کے مقابلے میں ایک مختلف لبرل بیانیہ سامنے لاسکتی تھی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا َ۔ پارلیمانی نظام آخر کیوں موثر ثابت نہیں ہو سکا؟ اس کو یہاں سے گئے 30 سال ہو گئے، سیاست اور جمہوریت کیوں طاقت ور نہیں ہو سکی، اس کا کون ذمہ دار ہے؟

کہیں پارلیمانی نظام 30 سال پہلے والی ذہنیت کے ساتھ تو نہیں کھڑا ہے؟ ٹھیک ہے بھٹو سے نواز شریف تک تمام سیاستدانوں کی پیدائش مارشل لا میں ہوئی، لیکن بعد میں یہ سیاستدان کچھ بیانیہ تو دے سکتے تھے، کیا انہوں نے جمہوریت اور آزادی کے تحفظ کے لئے کچھ کیا؟ ضیا کی گیارہ سالہ آمریت کو مستقل بہانہ بنایا جارہا ہے اور یہی سب سے بڑی ٹریجیڈی ہے؟ ٹھیک ہے اس زہر کا اثر ختم ہونے میں وقت لگے گا، مگر کتنا وقت؟ آج بھی فارن پالیسی اور سیکیورٹی پالیسی وہی چل رہی ہے جس کی بنیاد 30 سال پہلے رکھی گئی تھی؟ لیکن اسٹریٹیجک ڈیپتھ کا پودا تو ضیا سے بھی پہلے لگایا گیا تھا؟ 30 سال گزر گئے کوئی اور فیض اور کوئی اور جالب اس ملک میں نظر کیوں نہیں آرہا؟ بھائی جب جنرل ضیا طیارہ حادثے میں ہلاک ہوا تھا تو لاکھوں انسانوں کو اس کے جنازے میں لایا گیا، لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ آج کوئی سترہ اگست کو اس کی قبر پر کیوں نہیں جاتا؟

کہا جاتا ہے بہت بڑا جنازہ تھا، لیکن آج ضیا کا مزار ویران پڑا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو زہر پھیلا یا گیا تھا وہ پاکستان کے سماج کی ذہنیت سے کبھی بھی نہیں نکلے گا؟ لبرل اور لیفٹ کے دانشور صرف آمر ضیا کی پالیسیوں پر انتیس سال سے تنقید کے علاوہ اور کچھ کررہے ہیں، تو بتادیں کیا کررہے ہیں؟ اگر ضیا کی پالیسیوں کا متبادل بیانیہ نہ لایا گیا تو جب تک پاکستان رہے گا، ہر گلی کوچے اور شہر میں جنرل ضیا رہے گا۔ جب تک انتہا پسندانہ سوچ ہے، فرقہ واریت ہے، تعصب، نفرت اور کلاشنکوف کلچر ہے، اس کا مطلب ہے جنرل ضیا کہیں نہیں گیا، وہ اب بھی یہاں ہے اور حکومت کررہا ہے۔ لیکن ضیا کے کور میں لبرل، لیفٹسٹ، سیاستدان اور جمہوری لوگ اپنی غلطیاں نہ چھپائیں۔ جنرل ضیا سے بھی زیادہ نقصان اس ملک کا ایک اور آمر نے کیا تھا جس کا نام مشرف تھا۔

وہ اتا ترک کی وردی پہن کر آیا تھا، کتوں سے کھیلتا تھا، لبرل رویے رکھتا تھا، لیکن کیا مشرف نے آمر ضیا کے مقابلے میں کوئی روشن خیال اور اعتدال پسند بیانیہ دیا؟ وہ چاہتا تو معاشرے کو ٹرانسفارم کر سکتا تھا۔ جس طرح ضیا نے سوشل انجئیرنگ کی، برین واشنگ کی اور سماج کے ذہن کو بدلا، مشرف بھی ایس کرسکتا تھا، لیکن مشرف نے ان دس سالوں میں منافقت کا کمال مظاہرہ کیا۔ اس کا مطلب ہے کمال اتاترک کی ٹوپی پہن کر اور کتے پالنا بھی لبرل ازم نہیں ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں سب ہی ڈکٹیٹرز ہیں، ہم سب، سب اپنی ذات اور سوچ میں آمر ہیں۔ روش خیالی کی آڑ میں جو مشرف نے کیا، کیا وہ اچھی پالیسیاں تھی؟ ہم آج بھی ایک اور لبرل ڈکٹیٹر کا انتظار کررہے ہیں، کسی سیاستدان، کسی سیاسی نظام اور کسی جمہوری نظام سے ہم آج بھی یہ توقع نہیں کرتے کہ ان کی وجہ سے ہماری سوچ پر پہرہ داری کا خاتمہ ہوسکتا ہے؟ ہم آج بھی کسی کمال اتاترک کے انتظار میں ہیں، یہ ہے وہ ذہنیت جس کی وجہ سے سارے مسائل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).