حزب اختلاف کی مشکلات


سائل دہلوی نے کہا تھا ’ملے غیروں سے مجھ کو رنج و غم یوں بھی ہے اور یوں بھی‘‘ لیکن اسی بحر میں اسی ردیف کے ساتھ کھلا قافیہ استعمال کرتے ہوئے جگر مراد آبادی نے کہا تھا۔

نہ پا لینا ترا آساں نہ کھو دینا ترا ممکن

مصیبت میں یہ جان مبتلا یوں بھی ہے اور یوں بھی

پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل این دونوں جیسے کسی مصیبت میں مبتلا ہو گئی ہیں۔ یہ دو جماعتیں 2002 میں منتخب ہونے والی اسمبلی میں پہلی بار ایک ساتھ اپوزیشن میں بیٹھی تھیں اور اب 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں دوسری بار ایسا ہونے جا رہا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اس وقت حکومت ق لیگ کی تھی اور آج اس ق لیگ کا سربراہ چوہدری خاندان پی ٹی آئی کا اتحادی ہے، بلکہ اس وقت ان کے پاس پنجاب کی وزارت اعلی تھی اور اب سپیکر شپ لے کر مطمئن ہیں۔ پاکستان کا پارلیمان حقیقی طور پر دوسری مرتبہ سہ جماعتی نظام کا تجربہ کر رہا ہے۔ گذشتہ دور حکومت میں دو اپوزیشن پارٹیوں میں پی ٹی آئی پر پیپلز پارٹی کو برتری حاصل تھی سو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ بنے، تحریک انصاف تیسرے نمبر پر تھی اور اس نے پارلیمنٹ کی بجائے سڑکوں پر اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ دھرنے، احتجاجی جلسے، عدالتوں میں مقدمات، غرض یہ کہ پی ٹی آئی نے ہر طرح سے حکومت کے رستے میں مشکلات کھڑی کیں۔ پیپلز پارٹی اسمبلی کے اندر رہ کر حکومتی اقدامات کی مخالفت کرتی رہی لیکن جب دھرنے میں حکومت کے سر پر خاکی خطرات کے بادل لہرائے تو اس نے پارلیمنٹ میں حکومت کا ساتھ دیا اور میاں صاحب نے بھی ان دنوں پارلیمنٹ کو پناہ گاہ سمجھا اور حاضری کا شرف بخشا۔ دھرنوں اور مظاہروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شدید بحران سے حکومت کے زندہ بچ نکلنے میں ایک اہم کردار پارلیمنٹ میں ہونے والے اس اتفاق واتحاد کے مظاہرے کا بھی تھا۔ لیکن اس کا فائدہ بھی پی ٹی آئی کو پہنچا کیونکہ پی ٹی آئی نے ایک طرح سے پرانی طرز سیاست کو دوبارہ زندہ کیا جس میں مخالف کی پالیسیوں پر تنقید کرنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اسے دشمن کی طرح للکارنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

گنڈاسے اوربڑھکوں کے کلچر میں دلیل اور مکالمے کی بجائے تمسخر اڑانے اور گالی گلوچ سے سطحی جذبات بھڑکا کر اپنی بات پہنچانے کا چلن عام ہے، سیاست کو تو ایک طرف رکھیں، دین کے معاملے میں ہی دیکھ لیں۔ اسلام سلامتی کا دین ہے لیکن اس دین کو بنیاد بنا کر جب جی چاہے کسی کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہاں وہی مولوی مقبول و معزز ہے جس کی توجہ علم کی بجائے فتنہ و فساد پھیلانے کی طرف زیادہ ہو۔ ایسی صورت حال میں سماج کے دیگر طبقوں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ اب توبظاہر پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے اپنے مخالف سیاسی لیڈروں کے بارے میں ایسے ایسے گھٹیا اور بے تکے میسجز پھیلاتے ہیں کہ اگر ان سے پوچھ لیا جائے کہ بھائی کیا تم یہ پسند کرو گے کہ تمہارے بچے بھی یہی زبان استعمال کریں تو یقیناًان کا کہنا ہو گا نہیں ہمارے بچے بڑے مہذب ہیں۔ آپ لوگوں کو اکثر یہ شکوہ کرتے سنیں گے کہ پی ٹی وی کے ڈراموں کا زمانہ کتنا اچھا تھا ہم سب اکٹھے بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے تھے اب تو بے حیائی اتنی بڑھ گئی ہے وغیرہ ۔۔۔ لیکن وہی لوگ سوشل میڈیا پرایسی ایسی حرکتیں کرتے اور ایسے ایسے میسجز پھیلاتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا تو ان کے سامنے گھونگٹ نکال کر شرماتی ہوئی دلہن نظر آتا ہے۔

خیر بات کسی اور طرف نکل گئی، پی ٹی آئی کو یہ بات سمجھ  آ گئی تھی کہ پارلیمنٹ کے اندر قائد حزب اختلاف چونکہ ان کا نہیں ہے اور پیپلز پارٹی پی ایم ایل کے ساتھ اس طرح کی مخاصمت کا جذبہ نہیں دکھا رہی جو پی ٹی آئی کی ضرورت اور خواہش ہے، تو یہ طے ہوا کہ پی ٹی آئی کا میدان اب اسمبلی سے باہر سجے گا کہ اس مقصد کے لیے ایوان کی بجائے کھلا میدان موزوں مقام ہوتا ہے، سو ایوان پر لعنت بھیجی گئی اور دھرنوں اور جلسوں کے سٹیج پر زیادہ توجہ دی گئی جس حکمت عملی نے عوام کے دلوں میں گھر کرتے ہوئے بالآخر پی ٹی آئی کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔

حالیہ انتخابات کے بعد اب ایک نئی صورت حال سامنے ہے، اب حکومت پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی ہے اور قومی اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی پی ایم ایل این ہے سو پارلیمنٹ کے اندر قائد حزب اختلاف انہی کا ہو گا۔ پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر ہو گی، گزشتہ فارمولے کے تحت دیکھا جائے تو اب پیپلز پارٹی کو کھلے میدان میں احتجاجی سیاست کرنی چاہیے اور پی ایم ایل این کو پارلیمنٹ کے اندر مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اب پیپلز پارٹی کے پاس پی ٹی آئی کی طرح مخالفت کے لیے کوئی مضبوط ایجنڈا نہیں ہے اور کئی مجبوریوں کی وجہ سے وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں ہے کہ کوئی بڑا ہنگامہ پیدا کر سکے جب تک کہ پی ٹی آئی حکومت اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہوئے کوئی بہت بڑا بلنڈر نہ کردے۔ دوسرا یہ کہ پیپلز پارٹی نے پچھلی بار بھی سندھ میں حکومت کی ہے اور اس بار پہلے سے بہتر نمبرز کے ساتھ دوبارہ حکومت بنا لی ہے۔ وہ یہی چاہیں گے کہ اس بار سندھ میں کارکردگی دکھا کر کم از کم سندھ کو تو بچایا جائے۔ ایک وفاقی پارٹی کا ایسے ایک صوبے تک محدود ہو جانا واقعی لمحہ فکریہ ہے اور اس وقت انہیں ایسا کوئی رستہ سجھائی نہیں دے رہا جس سے وہ ملکی سطح پر کم بیک کر سکیں، ایک امید کی کرن سندھ میں اچھی کارکردگی اور بلاول کی نوجوان قیادت ہے جو پیپلز پارٹی کے لیے لوگوں کی محبتوں کو پھر سے زندگی بخش سکتی ہے۔ پی ایم ایل این کے پاس احتجاج کی کافی وجوہات ہیں اور اگر پی ایم ایل این اور ایم ایم اے خاص طور پر مولانا فضل الرحمان کسی احتجاجی سیاست کی طرف جاتے ہیں تو اس سے پی ایم ایل اپنی بقا کی موثر جدوجہد کر سکتی ہے لیکن وہ بھی ایک صوبے یعنی پنجاب کے علاوہ کسی اور صوبے میں فی الحال اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

نوے کی دہائی میں دونوں جماعتوں کے بیچ پڑنے والے بار بار کے پیچوں کے پیچھے خفیہ ہاتھوں کی کہانی اب تو طشت از بام ہوچکی ہے ۔ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کے پیچھے قوتوں کو بھی سب پہچانتے ہیں۔ سب جانتے ہیں وہ کون ہے جو ہمارے ہاں نفرت کی علامتوں کو دائمی طور پر معدوم نہیں ہونے دیتا۔ کون ہے جو اس آگ کو ایندھن فراہم کرتا ہے اور وقت آنے پر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں اور وہ بھی سب جانتے ہیں، فرق اتنا ہے کہ کچھ اسے برا سمجھتے ہیں،  کچھ نہیں سمجھتے اور کچھ تو باقاعدہ اس کی وکالت کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن جانتے سب ہیں،  بقول علی مطہر اشعر

ہم میں اک شخص بھی ناواقف حالات نہیں

سب کے سب صاحب ادراک ہیں، سب جانتے ہیں

اس وقت اپوزیشن کی دونوں جماعتوں کو بقا کا مسئلہ درپیش ہے، ان دونوں کو کسی حد تک اور پیپلز پارٹی کو خاص طور پر یہ ڈر ہے کہ اس اپوزیشن اتحاد سے حکومت کو کم اور خود انہیں زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے اوراس نقصان سے مراد صرف مقبولیت کی کمی نہیں بلکہ غیبی نقصان بھی ہے۔ دوسری صورت میں الگ الگ رہ کر ان کی زیادہ تر توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف صرف ہو جائیں گی، ابھی پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیراعظم کے انتخاب میں اپوزیشن اتحاد سے علیحدگی کے بعد میڈیا میں ان دونوں کی توپوں کی رخ جو پہلے پی ٹی آئی کی طرف تھے، اب ایک دوسرے کی طرف مڑ گئے ہیں۔ اور پی ٹی آئی کے لیے اس سے اچھی خبر کیا ہو سکتا ہے۔ پہلی بار حقیقی طور پر اپوزیشن میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز واقعی ایک بڑی مشکل میں پھنس گئی ہیں۔

مصیبت میں یہ جان مبتلا یوں بھی ہے اور یوں بھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).