عمران خان ، قائد اعظم کی پہلی تقریر اور نیا پاکستان؟


ملک میں تین اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کر لی اور اب چوتھی کی مدت شروع ہو گئی، عام انتخابات سے وزیر اعظم کے انتخاب تک کا عمل آج مکمل ہو گیا اور عمران خان بائیس سال جدوجہد کے بعد آج آخر کار وزیراعظم منتخب ہو گئے اور ایک ایسی اسمبلی سے جہاں ایک بھاری اپوزیشن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں موجود ہے۔ دھاندلی دھاندلی کی آوازوں میں عمران خان ایک سو چھیتر ووٹ لیکر وزیر اعظم منتخب ہوگئے

عمران خان ایک نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لیکر میدان میں اترے ہیں انھوں نے نوجوانوں کو روز گار کی فراہمی کے لئے ایک کروڑ نوکریاں دینے، بے گھروں کے لئے پچاس لاکھ گھر، جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے جیسے مشکل وعدے کے ہیں جو انہوں نے اپنے پانچ سالہ دور میں پورے کرنے ہیں۔

میری نظر میں پارلیمنٹ کے منتخب ارکان عوام کے منتخب ملازم ہوتے ہیں جسکا انہیں معقول معاوضہ ملتا ہے۔ وہ قوم کی خدمت کر کے ان پر احسان نہیں بلکہ انکے دے ہوئے ووٹوں کا حق ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ عمران خان کو ایک موقع ملا ہے کہ وہ لوگوں کے دیے ووٹ کو عزت دیں اور ایک نیا پاکستان بنا ہی ڈالیں۔

اس کے لئے اگر وہ صرف بابائے قوم قائد اعظم محمّد علی جناح کی اس تاریخی تقریر پر ہی عمل کر دیں جو انہوں نے نامزد گورنر جنرل کی حیثیت میں گیارہ اگست 1947ء  کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی تھی تو نیا پاکستان بن سکتا ہے۔

قائد اعظم نے اپنی پہلی تقریر میں منتخب ارکان کو کہا تھا کہ ” حکومت کی پہلی اور اولین ذمہ داری ہے کہ وہ امن امان قائم کر کے لوگوں کی جان ومال اور مذہبی عقیدوں کو تحفظ دے” خان صاحب اس کی آج بھی اشد ضرورت ہے کیوں کہ اقلیتوں کے مذہبی مقامات اور ان کی جان و مال کو ہمیشہ کی طرح آج بھی تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔

پھر قائد اعظم نے کہا کہ ”دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح یہاں بھی کرپشن عام ہے جس کو آہنی ہاتھوں سے ختم کرنا ہوگا ” عمران خان صاحب آج آپ نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں درست کہا کہ لٹیروں ڈاکووں کے ساتھ کوئی این آر او نہیں ہوگا پر آپکے ساتھ ارد گرد ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن پر کرپشن کی الزامات اور نیب کیس موجود ہیں۔ بھاری قرضے معاف کرنے والوں کو آپ نے صوبائی اسمبلی کا اسپیکر بنوا دیا، آپ صرف اتنا کر لیجیے کرپشن کے الزامات والوں کو اہم عہدوں سے علیحدہ ہی رکھیں۔

پھر جناح نے بلیک مارکیٹنگ اور ملاوٹ کرنے والوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ انسانیت کے لئے خطرہ ہیں۔ عمران خان صاحب آج بھی بلیک مارکیٹنگ اور ملاوٹ اپنے عروج پر ہے اور لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، بلیک مارکیٹنگ کرنے والے اور سرکاری زمینوں پر قبضہ گروپ کھلے عام پھرتے ہیں، یہاں تک کہ اقتدار کے ایوانوں تک ان کی رسائی ہے۔ ہمت کیجیے اور ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیجیے۔

محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں کہا کہ سفارش، اقرباپروری اور غلامی معاشرے میں موجود ہے جسے میں برداشت نہیں کروں گا۔ قائد کو تو موت نے موقع نہیں دیا پر خان صاحب آپ کے پاس موقع ہے کہ سفارش، اقرباپروری اور غلامی کا خاتمہ کر کے انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کر دیں۔

جناح نے اپنی تقریر نے کہا کہ تقسیم کے بعد اب ہمیں عام آدمی کی فلاح پر توجہ دینی ہوگی بلا تفریق، ذات پات، مذھب فرقوں اور ہر قسم کی دوسری وابستگیوں سے بالا تر ہو کر لوگوں کی خدمات کرنا ہوگی، چاہے اسکا ماضی کچھ ہی کیوں نہ ہو، تمام حقوق برابری کی نیاد پر یقینی بنانا ہونگے۔ آج بھی پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کی فراہمی پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا عمران خان آپ کو اس کا ادراک ہے؟

محمد علی جناح نے تقریر میں، ذات برادری، زبان اور مذہبی اکائیوں فرقوں کی وجہ سے آزادی کے حصول میں مشکلات آئی ہیں، پر آج آپ سب آزاد ہیں اور آپ آزاد ہیں مسجد، مندر یا اپنے عقیدے کی عبادت گاہ جانے کے لئے، یہ قائد کا حکم تھا پر آج بھی فرقوں کی بنیاد پر قتل غارت جاری ہے، مذہبی مقامات کے تقدس کی پامالی اور ان کو گرانے کے واقعات جاری ہیں، قادیانیوں، احمدیوں اور کوئٹہ کے شیعہ ہزارہ قبائل پر حملے اور ان کا قتل عام نہ رکنے کو ہے، خان صاحب اگر یہ نئے پاکستان میں بھی جاری رہا تو آپ کا خواب دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ اسکے لئے ایک پاکستانی قوم کا تصور دینا ہوگا یہ مشکل ضرور ہے پر ناممکن نہیں۔

قائد اعظم کی تقریر سے آگے بھی بہت سے اقدام کرنا ہوں گے کیوںکہ آج کی ضرورتیں اور مسئلے مختلف ہیں آج، قابل کاشت زمین کے پچاس فیصد رقبے پر صرف دو فیصد آبادی قابض ہے جس کے لئے لینڈ ریفارمز کرنا ہونگے تاکہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہو اور درمیانہ طبقہ ترقی کرے، میری نظر میں لینڈ ریفارمز کے بغیر نیا پاکستان ناممکن ہے کیوں کہ جاگیردار وڈیرے، سردار، خان، ملک اور چوہدری وہ طبقات ہیں جو آج بھی استحصالی طبقہ ہے۔ اور اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہیں۔ پھر محنت کش کو انصاف کی فراہمی کے لئے، ٹریڈ یونین، طلبہ یونین سرگرمیوں کو فروغ اور سیٹھ کے استحصال کو ختم کرنا ہوگا۔

عمران خان کے ارد گرد اگر نظر ڈالیں تو ایسے لوگ منڈلاتے نظر آئیں گے جنہوں نے ہر دور میں اور ہر حکومت سے فایدے حاصل کئے ہیں کہ ان کا کاروبار ہی وفاداریاں بدل کر اپنا گھر لوٹی ہوئی دولت سے بھرنا ہے، خان صاحب کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہ کر نیا پاکستان بنانا ہوگا۔ یہ نہ ہو کہ نوجوان جنھیں نی حکومت سے بہت گہری توقعات ہیں وہ تکتے رہ جائیں اور مفاد پرست ایک بار پھر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).