منتخب وزیر اعظم کی قومی رہنماوں سے ملاقات کی رپورٹ


پر تکلف ہال میں موجود آرامدہ کرسیاں تقریبا بھر چکی تھی، حاضرین تقریب گفت و شنید میں مصرو ف تھے جس سے ہال میں ہلکا سا شور برپا تھا۔ ہال کے مرکزی دروازے کے بالکل سا منے ایک آرامدہ کرسی پر ذوالفقار علی بھٹو اپنے مخصوص انداز میں براجمان تھے، ان کے چہرے کی چمک کچھ مدہم تھی لیکن وہ پر سکون او ر مطمئن تھے، ان کی کرسی کی پشت کے سہارے بے نظیر کھڑی اپنے والد سے محو گفتگو تھی، ان کا موضوع گفتگو غالبا بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر کی ضیا باقیات کے خلاف جدوجہد تھی۔

بھٹو کی نشست سے کچھ آگے ایک طرف صوفہ پر ایوب خان اور جنرل ضیا لاپرواہی سے مشروبات سے لطف اندوز ہورہے تھے، گاہے بگاہے وہ گویا بھی ہو تے، ایوب کے جملوں پر بعض اوقات ضیا کا قہقہہ بھی گونجتا۔ ان کے عقب میں بیٹھے اسکندر مرزا لاتعلقی کی اداکاری کرتے ہوئے اپنی سوچوں میں گم تھے، لیکن ان کے کان ضیا اور ایوب کی جانب متوجہ تھے، وہ شاید ابھی تک ایوب خان سے خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے تھے۔

ہال کے اخیر میں ایک مخصوص مسند بنی ہوِئی تھی، نفیس و پرکشش صوفہ تھا جس پر تین افراد با آسانی سما جائیں، تاہم ایک ہی شخص اس پر بارعب انداز میں براجمان تھے، ان کے ہاتھ میں انگریزی اخبار تھا جس کو و ہ انہماک سے پڑھ رہے تھے، چہر ہ تاثرات سے بالکل خالی، حاضرین تقریب سے ایسی لاتعلقی گویا و ہ ہال میں نہیں اپنے ذاتی دفتر میں انفرادی وقت گزار رہے ہوں، یہ کوئی اور نہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ تھے، جو اس تقریب میں بطور مہمان خصوصی مد عو تھے۔

تقریب کا ماحول پر سکون تھا، ا چانک نہ جانے ضیا صاحب کو کیا سوجھی کہ و ہ ڈرامائی انداز میں کھڑے ہوئے اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے سیدھا جناح صاحب کے سامنے جاکھڑے ہوئے، تما م شرکا کے نظریں ان کی طرف تھی، جناح بدستو ر ا خبار پڑھنے میں مگن تھے، ضیا نے جب دیکھا کہ ان کی ”انٹری“ کا نوٹس نہیں لیا گیا تو مزید آگے بڑھے اور جناح کے پہلو میں جابیٹھے۔ ”یہ ابھی تک ویسا ہی ہے“ بھٹو نے بے نظیر کے کان میں سرگوشی کی۔ جناح کی نگاہیں بدستور اخبا ر پر جمی ہوئی تھی۔ ضیا نے باآ واز بلند کہا، قائد! کیا یہ زیادتی نہیں؟ قائد نے بالکل بھی التفات نہ کیا۔

ضیا نے اپنی بات جاری رکھی، قائد! کیا یہ ملک آپ نے اسلام کے نام پر حاصل نہیں کیا تھا؟ کیا اس کے قیام کا واحد مقصد اسلام اور مسلمانوں کا تحفظ نہیں تھا؟ یقینا ایسا ہی تھا، میں نے صرف اس ملک کو اس کے مقصد وجود کے قریب کرنے کی کوشش کی، ا گر سیاستدان جمہوریت کے خاطر ہر ا صول کو توڑ سکتے ہیں اور ہر جائز وناجائز طریقہ کار اپنا سکتے ہیں تو مقصد وجود پورا کرنے کے لیے اگر میں نے کچھ سمجھوتے کرلیے تو اس میں کیا مضائقہ تھا؟ قائد! کیا میری یہی غلطی تھی کہ میں نے ”نفاذ شریعت“ (جو آزادی کے اہداف میں شامل تھا ) کو میں نے ایسے وقت میں عملی شکل دینے کی کوشش کی جب اس کا نعرہ بلند کرنا بھی جرم سمجھا جانے لگا؟ پھر ضیا صاحب قائد کو اپنے کارنامے گنوانے لگے۔

ابھی ان کی بات جاری تھی کہ ہال کے دروازہ کھلا اور شیر وانی میں ملبوس عمران خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہال میں داخل ہوئے، تمام حاضرین مجلس اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے، ضیا صاحب کو بھی مجبورا اپنی تقریر ختم کرنی پڑی، وہ اٹھنے لگے تو قائد نے ان سے آہستگی سے کہا، شریعت کے نفاذ کی ابتدا اپنی ذات سے ہوتی ہے، اسلام نے جو حکمرانی کے اصول بتائے ہیں، آپ کے دور میں ان پر کتنا عمل ہوا؟ یہ استفہام نہیں تھا، لہذا ضیا خاموشی سے اپنی نشست کی طرف بڑھ گئے۔

ادھر عمران خان حاضرین سے فردا فردا مصافحہ کر رہے تھے، انہوں نے بھٹو سے گرمجوشی سے مصافحہ کیا، بے نظیر نے یونیورسٹی دور کی بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسکرا تے ہوئے خان سے ملیں اور کچھ دیر تک غیر رسمی گفتگو کرتی رہی۔ بھٹو نے خان سے کہا، YOU PROVED US WRONG, NOW YOU HAVE TO PROVE YOURSELF خان مسکرا دیے اور آگے بڑھ گئے۔ عمران خان جنرل ایوب اور جنرل ضیا سے بہت احترام سے ملے، ایوب نے مصافحہ پر اکتفا کیا جبکہ ضیا نے عمران کے کان میں کچھ سرگوشی کی جس کو خان نے سنجیدگی سے سنا۔

قائد سے ملاقات سے قبل عمران نے مفتی محمودؒ سے بھی مصافحہ کیا، عمران سر جھکا کر احترام سے مفتی صاحب سے ملے، مفتی صاحب نے کہا، علماء کو اپنے سے دور نہ رکھنا، بڑا قدم اٹھانے سے قبل ان کی رائے نہ سہی اسلام کا موقف ان سے ضرو ر پوچھ لینا۔ عمران کو اچانک مذا ق سوجھا، اس نے کہا لیکن علما تو اپنی دونوں نشستوں سے شکست کھا کر پارلیمان سے باہر ہوچکے ہیں! مفتی محمود مسکرا دیے، پھر سنجیدہ ہوکر بولے، آپ غلط سمجھے، ان علما سے مشور ہ کریں جن کی زندگیاں دری پر بیٹھ کر قرآن وسنت کی روشنی پھیلانے میں صرف ہوگئی، اور وہ اپنی کسمپرسی کے باوجود کسی معاوضہ، نمود نمائش یا شہرت کے طالب نہیں، خان نے حامی بھری اور قائدؒ کی مسند کی طرف بڑھ گئے۔

قائدؒ نے عمران سے مصافحہ کیا، عمر ان نیچے ہی بیٹھ گئے، قائد نے کہا، اوپر بیٹھیں، آپ وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں۔ خان قائدؒ کی بغل میں بیٹھ گئے۔ قائدؒ پہلی مرتبہ کسی کی جانب پوری طرح متوجہ ہوئے، قائد ؒ نے کہا: مسٹر پرائم منسٹر! میں نے لوگوں کے چہروں پر وہی امید اور آس دیکھی ہے جو قیام پاکستان کے وقت تھی، تمہارے حامی اور مخالف سب ہی پر امید ہے، سب کی ایک ہی تمنا ہے، یہ ملک بہتر ہوجائے، یہ تمہارے لیے خوشی سے زیادہ فکر کی بات ہے، یہ امید تمہارے گلے کا طوق ہے، اگر تم نے ان غربا کی امیدیں پوری کی تو یہ طوق لازوال ہار بن جائے گا، اور اگر تم ناکام ہوئے تو یہی طوق پھندا بھی بن سکتا ہے۔

کامیابی کی ایک ہی را ہ ہے، لگن سے ان وعدوں کی تکمیل کی کوشش جو عوام سے کیے گئے تھے، روز اول سے، بلا تاخیر وتعطل کے ہر وعدہ پر عمل درآمد شروع ہوجائے تو ایک سال میں ہی ملک اپنی منزل کی جانب گامزن ہوجائے گا اور پانچ سال میں اس ملک کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ مسٹر خان! ہر کسی کی بات سننے کا حوصلہ رکھو، اس صفت نے ہی تمہارے حریف کو تین مرتبہ وزیر اعظم ہاؤس پہنچایا، اور غیر ضروری طور پر اپنے دشمن نہ بنانا تاکہ اپنے حریف کی طرح اقتدار سے محروم نہ ہو جاؤ۔ گڈ لک مسٹر خان!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).