مار پیٹ کے کلچر کو ختم کرنا پڑے گا


ڈاکٹر عمران شاہ، پی ٹی آئی کے ایم این اے کی داود چوہان نامی ایک شخص کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو ریلیز ہونے کے بعد انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ اس الیکشن سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کی ایک ویڈیو ریلیز ہوئی تھی جس میں وہ اپنے پارٹی ورکر شاہدخٹک کو گھونسا مار رہے ہیں۔ اس سے پہلے ایک اور ویڈیو میں بھی وہ اپنے ورکرز پر ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔ شاہد خٹک سے یہ بیان منسوب ہے کہ عمران خان کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ ان کے ساتھ شاہد خٹک سیڑھیوں پر چڑھ رہے تھے۔ وہ انہیں ایک عام آدمی سمجھ بیٹھے اور سیکیورٹی رسک کی وجہ سے اسے گھونسہ مار دیا۔

ڈاکٹر عمران شاہ کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ بھی عمران خان کی طرح یوروپین ملکوں میں رہ چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان دونوں نے کبھی بھی ان ملکوں میں اپنے تنازعے حل کرنے کے لئے دوسروں پر اس طرح ہاتھ نہیں اٹھایا ہوگا کہ ان ملکوں میں ایسی باتوں کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ایسی حرکت کرنے پر اچھا خاصا کورٹ کیس بن جاتا ہے۔ کورٹ کیس ہارنے پر یہ بات آپ کے ریکارڈ کا مستقل حصہ بن جاتی ہے اور آپ کو ملازمت ملنے میں بھی بہت دقت پیش آتی ہے کہ کوئی بھی ایسے شخص کو اپنی کمپنی میں رکھنے کو تیار نہیں ہوتا جو اپنے جھگڑے کے حل کے لئے دلائل کی بجائے ہاتھوں کا استعمال کرے۔

تھپڑ، گھونسوں اور مار پیٹ کے لئے صرف ایک پارٹی کے دو افراد کو الزام دینا نا انصافی ہے۔ ایسی مار پیٹ ہماری سو سائٹی میں عام ہے۔ یہ دو ویڈیوز اس تشدد کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں جو کہ ہمارے معاشرے کے بے بس اور مجبور انسانوں پر روز ہوتی ہے۔ شاہد خٹک اور داود صاحب کو ہم سب قابل احترام شہری سمجھتے ہیں۔ تصور کریں کہ گھریلو ملازمین اور مزارع جنہیں ہمارا معاشرہ کوئی احترام اور مقام نہیں دیتا۔ ان کے اوپر کیا کچھ ظلم ہوتا ہوگا۔ ان کی چونکہ ویڈیوز نہیں بنتیں اس لئے ہمیں یہ باتیں اسی وقت معلوم ہوتی ہیں جب اس تشدد سے کوئی شدید زخمی ہو کر ہسپتال پہنچتا ہے یا مر جاتا ہے۔

کچھ سال پہلے ایک جج راجہ خرم علی خان اور اس کی بیوی نے اپنی دس سال گھریلو ملازمہ کے ہاتھوں کو جلایا اور اسے بے تحاشا مارا جس کی وجہ سے و ہ شدید زخمی ہو گئی۔ ایک اور دس سالہ گھریلو ملازمہ، ارم رمضان، اتنی خوش قست نہیں تھی کہ وہ مرنے سے پہلے ہوسپٹل پہنچائی جاتی۔ اسے اس کی مالکہ ناصرہ محمود نے رسیوں سے باندھ کر متعدد بار پائپ سے پیٹا۔ ایک بار اسے اپنے سولہ سالہ بیٹے کے سامنے اتنا مارا کہ وہ مر گئی۔ اس پر پیسے چوری کرنے کا الزام تھا۔

پچھلے سال ایک مولوی نے قرآن پڑھنے والے ایک بچے کو اتنا مارا کہ وہ مر گیا۔ مولوی کو بچے کے ماں باپ نے معاف کر دیا اور ریاست نے بھی اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔ مسجدوں میں کئی بچوں پر جسمانی تشدد روزمرہ کا معمول ہے۔ مدرسوں میں جہاں بچے دن رات رہتے ہیں۔ وہاں ان پر جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد عام ہے۔ مگر اس پر نا تو ملک کے علما آواز اٹھاتے ہیں اور نا ریاست کوئی نوٹس لیتی ہے۔ ہوٹلوں ریسٹورینٹ اور دکانوں میں ملازم بچوں پر ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد عام کیا جاتا ہے۔

مار پیٹ کے کلچر کو عام کرنے میں ہماری روزمرہ کی لعنت سے لے کر مولوی حضرات کا بھی ہاتھ ہے۔ اپنے بچوں پر سختی کرنے کو احسن سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بچوں کو سونےکا نوالہ دو اور شیر کی نظر رکھو جیسے جملے بہت پاپولر ہیں۔ مار پیٹ کو ماں باپ نظم و ضبط لاگو کرنے کے متبادل سمجھ لیتے ہیں۔ ویسے بھی مارنا پیٹنا اچھی طرح بیٹھ کر سمجھانے سے آسان ہے۔ مولوی حضرات میاں بیوی کے اختلاف کے حل کے لئے بیوی کو مارنے کے طریقے بیان کرتے ہیں۔ مسلکی اختلاف کو بلاسفیمی کا نام دے کر قانون اپنے ہاتھ میں لے کر جان سے مار دینے والے کو بھی ہیرو بنا دیا جاتا ہے۔ کچھ مولوی اپنے خطبوں میں مذہب کے بارے میں اشتعال دلا کر لوگوں کو تشدد پر اکساتے ہیں۔

پولیس والے نہتے شہریوں کو مارتے ہیں۔ حالانکہ پولیس والوں کا کام صرف ملزم کو پکڑنا ہے۔ اسے مجرم قرار دے کر سزا دینا عدالت کا کام ہے۔ فوجیوں کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے۔ اگر کبھی شہر کی حفاظت کا کنٹرول دیا گیا ہے تو بھی شہریوں پر تشدد کرنا اس میں شامل نہیں ہے۔

مار پیٹ اور تشدد کے کلچر کو اپنی سوسائٹی سے ختم کرنے کے لئے ہمیں اپنے قوانین سے لے کر روزمرہ کی لغت سے لے کر مسجدوں کے منبروں سے ہونے والی گفتگو کو بدلنا ہو گا۔ بچوں پر تشدد روکنے کے لئے چائیلڈ لیبر کے انٹرنیشنل قوانین پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ اس کے لئے نا صرف ان مالکان کو جو بچوں کو نوکر رکھتے ہیں بلکہ ان کے ماں باپ کو بھی قرار واقعی سزا دینا ہو گی کہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کے رزق کی ذمہ داری چھوٹے بچوں پر عائد نہیں ہوتی۔ گھریلو تشدد کی صورت میں عورتوں کی حفاظت کے لئے میاں محمد نواز شریف کے دور میں بنائے گئے قوانین کو سختی سے لاگو کرنا ہو گا۔ ریاست کو ان لوگوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دینا ہو گی جو اپنی تقریروں اور خطبوں میں نفرت اور تشدد پر اکساتے ہیں۔

سکول کی کتابوں میں اخلاقیات کا سبق پڑھانا ہو گا۔ ان میں مخالف کی بات سننے اور مدلل گفتگو کو شامل کرنا ہو گا۔ مذہب کی رواداری اور محبت کے اصولوں کو اجاگر کرنا ہو گا۔ تنازعوں اور جھگڑوں کو دلائل، مباحثے اور ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنا ہو گا۔ دنگا فساد، مار پیٹ اور مرنے مارنے کو بہادری کی بجائے بزدلی کی علامت بنانا ہو گا۔ اور جو ڈائیلاگ کی بجائے ہاتھ اٹھائے گا اسے اس ہر سطح پر سخت نتیجہ بھگتنا ہو گا۔

ڈاکٹر عمران شاہ پر ہونے والی ہر سطح پر تنقید خوش آئند ہے مگر اس کو ایک شخص کے لئے محدود نہیں کرنا چاہیے کہ تشدد صرف ایک پارٹی کے ایک شخص کا خاصہ نہیں ہے۔ یہ پارٹی لائن کراس کرکے ہمارے معاشرے میں سرائیت کر چکی ہے۔ اور اس کے لئے ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے آپ کو درست کرنا ہو گا، اس کے بعد ہی ہم اپنے آپ کو مہذب شخص اور قوم کہلانے کے دعوے دار ہو سکیں گے۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi