بندر کا سیاسی تماشا



’بچہ جمورا صاب کو سلام کر۔ شاباش‘مداری نے ڈگڈگی بجائی۔
’صاب کو افسر بن کر دکھاؤ۔ شاباش‘اور بندر سینہ تان کر منہ میں پینسل دبائے چل کر دکھانے لگا۔ اور تماشبین شور مچا کر خوش ہوکر تالیاں بجانے لگے۔ میں وہی کھڑا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ یہ بندر تماشہ پولنگ اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر لگا ہوا تھا اور زیادہ تر لوگ ووٹ ڈالنے کے بجائے اس تماشے سے محظوظ ہورہے تھے۔

یہ کراچی شہر کا بڑا اہم حلقہ ہے۔ جہاں ووٹر کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ یہاں کی آبادی کا رجحان کچھ ملا جلا سا ہے۔ یہاں ہر نظریے کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں الیکشن کمپین کے دوران کافی رونق رہی۔ تمام پارٹی کے کارکنان بڑے جوش و خروش سے اپنی پارٹی سے وفاداری نبھاتے رہے۔ لوگوں کا جوش و خروش اور سیاسی شعور دیکھ کر ایک اطمینان تو ہوا کہ چلو لوگوں میں تحریک تو شروع ہوئی یہ سیاسی عقل و شعور ضرور کوئی تبدیلی لائے گا اور اس دفعہ ووٹ سے زیادہ سوچ کی جیت ہوگی اور ذہنی غلامی سے آزادی ملے گی۔ اسی دوران سوشل میڈیا نے اپنا رول بر قرار رکھا۔ اور یہ یقین سا ہوگیا کہ پاکستانی عوام اب نیند سے جاگ چکے ہیں اور کچھ ہو نہ ہو یہ سوچ، جو ہے جیسا ہے چلنےدو، کے بادل ان کے دماغ سے چھٹ چکے۔

ان سوچنے والوں کی فہرست میں میرا شمار سب سے پہلے نمبر پر آتا تھا۔ ان سیاسی ہلچل نے میرے اندر کی حب الوطنی کو اب تک دستک نہ دی تھی۔ میں اب بھی بجلی، پانی اور ٹریفک میں پھنسے رہنے کے باعث پریشان تھا۔

اس دوران ہونے والے سیاسی سرگرمیوں نے ذہن پر بڑا دباؤ رکھا۔ ایک ایک لیڈر کو سنا۔ ان کے منشور پر غور کیا اور ان کے پچھلے ریکارڈ کو باقاعدہ چیک کیا۔
’ووٹ کس کو دوں؟ ‘ میں نے سوچا اور شاید گزرتے ہر لمحہ سوچتا رہا اور فیصلہ کرنا میرے لیے اور بھی مشکل سے مشکل ہوگیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ کوئی ایسا نہیں جو میرے ووٹ کا حقدار ہے اور مجھے میرے ہی خیال نے بڑا رنجیدہ کردیا۔

ایک طویل انتظار اور سوچ بچار کے بعد الیکشن کا دن آن پہنچا تقریریں، جلسہ جلوس، پارٹی ترانوں سے نہ صرف گلی محلہ گونجتا رہا بلکہ سوشل میڈیا، فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، ریڈیو اسٹیشن، ٹی وی کیبل سب نے ہی خون گرمانے کا کام کیا اور سیاسی لیڈروں کے وعدوں اور دعووں سے معصوم عوام کو آگاھ کرتے رہے۔

گھر سے نکلنے سے قبل میرے ذہن میں تھا کہ پولنگ اسٹیشن میں خاصہ رش ہوگا اور واپسی پہ دیر ہوجائے گی پر جب میں پولنگ اسٹیشن پہنچا تو وہاں مجھے گنے چنے افراد ہی نظر ائے۔ اتنی بڑی آبادی میں صرف چند لوگوں کا دکھائی دینا اک اچنبھے سے کم نہیں تھا۔ میں نے گھڑی کی طرف نظر اٹھائی تو پورے 11 بج چکے تھے۔ ’اب اتنا سویرا بھی نہیں کہ لوگ پہنچ نہیں پائیں؟ ‘میں نے سوچا اور اپنے متعلقہ پولنگ بوتھ میں ووٹ کاسٹ کرکے بوجھل قدموں سے واپس پولنگ اسٹیشن سے باہر نکل کر آیا۔

یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ عام تعطیل ہونے کے باوجود مزدوروں کی بڑی تعداد روڈ کے کنارے بیٹھی اپنے گاہک کا انتظار کر رہی تھی۔ ریڑھی والے پھل اور سبزی کی فروخت میں مصروف تھے۔ کوئی لیموں کا شربت بیچ رہا تھا اور کوئی اپنے کالے ہوئے ہاتھوں سے کوئلے پر مکئی بھون بھون کر جلدی جلدی گاہک کو دے کے پیسے گن رہا تھا۔ میں نے بھی اک مکئی ہاتھ میں لے کر ٹھیلے والے کو دیا اور پوچھا۔

’کیوں بھائی! ووٹ دے کر اپنا عوامی حق استعمال کیا؟ ‘
ٹھیلے والے نے ویران آنکھوں سے مجھے ایسے دیکھا کہ جیسے میں نے اس کا مذاق اڑایا ہو۔ اس کی نظر کا خالی پن میرے ہر سوال کا جواب دے چکا تھا۔ غریب کی وہی کہانی ہوتی ہے جو صدیوں سے چلی آئی ہے۔ اسی لیے شاید کوئی غریب کسی دوسرے غریب کی موت پر نہیں روتا بلکہ کہتا ہے کہ اچھا ہی ہوا کہ دنیا کی تکلیف سے جان چھوٹی بیچارے کی!

میں نے پیسے دیے تو بندر والا اب بھی تماشا دکھا رہا تھا۔ میں بھی اس دائرے میں جاکے کھڑا ہوگیا۔
’بچہ جمورا تو کون؟ ‘۔ مداری نے ڈگڈگی بجا کے پوچھا تو بندر نے سر پہ ٹوپی رکھ کے منہ میں سگریٹ ڈالا۔ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کمر پہ باندھے اور اکڑ کے چلنے لگا تو بندر کے مالک نے ہم سے کہا۔
’یہ تو آج ووٹ ڈال کے لگتا ہے وزیر اعظم بن گیا۔ شاباش جمورے شاباش۔ ‘
یہ سن کے سارا مجمع تالیاں بجانے لگا اور میں نے خود کو بچہ جمورا کی جگہ پایا جہاں مجھے ڈگڈگی پہ نچایا جارہا تھا اور لوگ سمجھ رہے تھے کہ یہ تماشہ محض بندر کا تماشا ہے !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).