سوشل میڈیا کا جادو- توجہ طلب معاملات


محمد انور فاروق

\"anwar\"گئے زمانے کی بات ہے کہ لوگ آپس میں مل جل کر رہتے تھے اور ہر دکھ سکھ میں بے لوث ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے۔ ہر گاوں میں ایک چوپال ہوتی تھی جہاں روزانہ شام کو لوگ بیٹھتے تھے۔ ایک دوسرے سے دکھ سکھ کی باتیں کرتے اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے۔ چوپال میں کبھی تو حالات حاضرہ پر تبصرے ہوتے اور کبھی قصے کہانیوں سے دل بہلایا جاتا۔ وہاں حال کی باتیں تو ہوتی ہی تھیں مگر ساتھ ماضی کے قصے اور مستقبل کی امیدیں بھی موضوع گفتگو ہوتیں۔ کبھی کبھار بحث مباحثہ بھی ہو جاتا مگر بحث شائد ہی کبھی ضد یا اناء کا مسئلہ بنی ہو۔ بڑے چھوٹے کا ادب، مروت ، لحاظ اور رواداری وہ سنہری اصول تھے جو ہر چوپال کا خاصہ تھے۔ اگر جدید لغت سے لفظ نکالوں تو یوں سمجھ لیں کہ چوپال گاوں کا سوشل میڈیا ہوتی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ انسان پر تیز رفتار ترقی کا بھوت سوار ہو گیا۔ مسابقت کی دوڑ اس حد تک بڑھ گئی کہ دن اور رات کا فرق ہی ختم ہو گیا۔ الفاظ دم توڑ گئے اور گفتگو اختتام پزیر ہو گئی۔ انسان کے انسان سے تعلق کی بنیاد اخلاقی قدروں کی بجائے معاشی قدروں پر رکھی جانے لگی۔ اخلاقیات کی جگہ پروفیشنلزم نے لے لی۔ اور بالکل اس اصول پر چوپال کی جگہ سوشل میڈیا آگیا۔ سوشل میڈیا کے آتے ہی انسان کی زندگی تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ سامنے بیٹھا شخص غیر اہم اور سائیبر ورلڈ میں رہنے والا اہم ہو گیا۔ جو خوبصورتی سامنے موجود تھی آنکھیں اسے دیکھنے کی صلاحیت سے قاصر ہو گئیں۔ اور جب مخاطب ایک طرح سے غیب میں ہو جیسا کے سوشل میڈیا پہ ہوتا ہے تو مروت لحاظ اور رواداری جیسے اعلیٰ اوصاف بھی رخصت ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ انسان، انسان سے شرم رکھتا ہے جب سامنے پرچھائی ہو تو شرم کیسی؟

سوشل میڈیا میں انسان کو مصروف رکھنے کی زبردست قوت ہے اور اسی قوت سے اس نے انسان کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے انسان کی سوچنے سمجھنے کی قوت کو سلب کرنا شروع کر دیا۔ بے چارہ انسان سوشل میڈیا پر چلنے والے پروپیگنڈہ کو علم سمجھ لیتا ہے اور اسی انفارمیشن سے زندگی کے ہر معاملے کا حل تراشنے کی کوشش کرتا ہے جہاں سے خرابیوں کے ایک سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ جدید دنیا میں اس عمل کو پرسیپشن مینجمنٹ کہتے ہیں۔

پچھلے کچھ سال میں پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً پچیس ملین سوشل میڈیا صارفین ہیں جن میں تقریباً سات سے دس ملین تک خواتین شامل ہیں۔ سوشل میڈیا کے صارفین میں ہر عمرکے لوگ شامل ہیں مگر خاص بات یہ ہے کہ تقریباً ساٹھ فیصد صارفین کی عمر چودہ سے پچیس سال کے درمیان ہے۔ پاکستان میں زیادہ مقبول سوشل میڈیا فیس بک اور ٹویٹر ہیں۔ سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سمارٹ فون کا استعمال ہے۔ فیس بک پر بہت سارے پیجز اور گروپس ایسے ہیں کہ جن پر علمی مباحث چل رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی افادیت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ بہت سارے شعبہ جات اس کی برق رفتار پیغام رسانی کی صلاحیت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی حیران کن خاصیت یہ ہے کہ آپ لاکھوں کروڑوں لوگوں تک اپنا پیغام بہت کم وقت میں پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے تقریباً ساری ہی سیاسی جماعتیں اپنا اپنا ایجنڈا سوشل میڈیا پر آگے بڑھاتی ہیں تاکہ اپنا ووٹ بینک بڑھا سکیں۔ ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود ایسے نوجوان پاکستانیوں کو سیاسی عمل میں شامل ہونے کی ترغیب دلائی جائے جو ابھی تک اس دھارے میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ دوسری طرف بہت سارے مذہبی رجحانات رکھنے والے اپنے اپنے دلائل بھی سوشل میڈیا پر پیش کر رہے ہیں تاکہ عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ اس سارے عمل میں اختلاف رائے ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے مگر جس طرح سے اس اختلاف رائے کو نپٹایا جاتا ہے وہ طریقہ کار انتہائی افسوسناک ہے۔ سیاسی اور علمی سفر میں اگر اختلاف رائے نہ ہو تو آگے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے۔ اس کے بغیر نہ تو سیاسی عمل مہمیز پکڑتا ہے اور نہ ہی علم آگے بڑھتا ہے۔ اگر جدلیات کی گنجائش ختم ہو جائے تو ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔

سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے مگر ساتھ ہی کچھ معاملات توجہ طلب بھی ہیں ۔اگر پاکستان میں مقبول سوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو واضع طور پر نظر آئے گا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز ہوں یا مختلف مذہبی رجحانات رکھنے والے لوگ ہوں وہ سب اپنے اپنے مخالفین کوخوب آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور کچھ کمنٹس تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بیان بھی نہیں کئے جا سکتے۔ جہاں کسی نے اختلاف رائے کیا وہیں گالی گلوچ شروع ہو گیا۔ اس صورتحال میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ماضی میں چوپال میں بیٹھنے والے زیادہ تہذیب یافتہ تھے یا آج سوشل میڈیا استعمال کرنے والے جدیدلوگ زیادہ تہذیب یافتہ ہیں؟ میری تما م سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے کہ اختلاف رائے کی صورت میں تہذیب کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑیں کیونکہ یہ آپ کے اور پاکستان کے وقار کا معاملہ ہے۔ اور سوشل میڈیا کے باقی صارفین کو بھی چاہئے کہ جو صارف بد تہذ یبی کرے اس کو لازمی طور پر بلاک کر دیں کیونکہ یہ ہرسوشل میڈیا صارف کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ہم سب کو سوشل میڈیا پر اعلی اخلاقی روایات اور آداب گفتگو کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہِیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).