تسطیر کے نام ایک خط


غالب اگر زندہ ہے تو مکتوب نویسی کیسے مر سکتی ہے؟ ذرا دھیان دیجیے گا کیا واقعی ایسے کسی امکان کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ غالب تو موجود ہو اور اس کی ذات سے جڑی ایک توانا روایت خاموشی سے دم توڑ جائے۔ دل مانتا ہے نہ عقل تسلیم کرتی ہے تو پھر یاالہی یہ ماجرا کیا ہے ؟آخر خط نویسی کو قصہ پارینہ کیوں سمجھ لیا گیا ہے۔ بلکہ عمداً ایسی کاوش کی جا رہی ہے۔ جب رابطے کے تیز ترین اور بہترین ذرائع میسر ہیں تو ایسی پُرسہولت فضا میں کون عقل کا مارا بیٹھ کر خط لکھے۔

تو کیا مکتوب نگاری کا زمانہ لد چکا؟

آں قدح بشکست و آں ساقی نماند۔

 آہ ! اب کبھی مکتوب نہ لکھا جائے گا؟ دل کی باتیں کبھی نہیں کہی جائیں گی؟ ہاں میرا ماننا ہے کہ دل کی باتیں ایک خط میں ہی کہی جا سکتی ہیں جب کوئی تکلم کا سہارا لیے بغیر ہی گفتگو کرتا ہے۔ اور بڑی بے تکلفی کے ساتھ بے ساختہ حالِ دل رقم کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی اثر آفرینی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ بس مبہوت ہو کر رہ جائے۔ مگر یہ تو بہت پرانے زمانے کی بات ہے۔ آں دفتر را گاﺅ خورد والا معاملہ ہے۔ گویا کوئی صورت نظر نہیں آتی

مگر جناب من! کوئی صورت تو نکالنا پڑے گی۔ ورنہ مکتوب نویسی جیسی خوبصورت روایت کا احیا کیسے ہو گا؟ کون کرے گا؟ کیا واقعی یہ کارِ مشکل ہے؟

ایک مضبوط اور دل فریب روایت سے منہ موڑ لینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ مانا کہ ہم بڑے جدید ہو چکے ہیں مگر غالب کی جدّت طرازی بھی تو ملاحظہ کیجیے کہ وہ آج بھی اپنے مکتوبات کی آن بان سنبھالے ہمارے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔

مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

اگر ہم غالب کو جدّت پسند مانتے ہیں تو پھر گھر سے کان پر قلم رکھ کر نکلنا ہو گا۔ ہمیں خط لکھنا ہو گا۔ کچھ دیر کے لیے تن آسانی اور غفلت کو ایک طرف رکھ کر کیوں نہ ایک مکتوب لکھا جائے۔ ایک ایسا مکتوب کہ جس کے اندر رچی مٹھاس اور اپنائیت نرمی سے قائل کر دے۔ اور کیا چاہیے؟

یاد نہیں کتنے ماہ وسال بیت چکے ہیں، میں نے بھی خط نہیں لکھا۔ ایک طرف اس روایت کے تقریباً مٹ جانے کا دکھ تھا تو دوسری طرف عہدِ جدید سے مرعوبیت۔ اسی تضاد کا شکار ہو کر بہت سارا وقت گنوا دیا۔ اور میں مزید وقت بھی گنوا سکتی تھی۔ شاید میں کبھی خط نہ لکھتی اگر میں تسطیر سے متعارف نہ ہوتی۔ تسطیر کے پہلے دور سے میں واقف نہیں۔ جس کا مجھے ملال ہے ورنہ شاید میں اردو ادب کی ایک اچھی طالبہ ہوتی۔ لیکن دوسرے دور کے پہلے ہی شمارے میں میری تحریر کو بھی جگہ مل گئی۔ پہلا شمارہ میرے ہاتھ میں تھا اور انداز سراسر تنقیدی رنگ لیے ہوئے تھا، یعنی میں ایک قاری سے بڑھ کرایک نکتہ چیں کی حیثیت سے اس کا بغور مطالعہ کرتی رہتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں جائے اعتراض ڈھونڈتی تھی۔ گو اس حوالے سے میں نے پوری دیانت داری سے کوشش جاری رکھی مگر مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پھر جیسے جیسے شمارے آتے گئے مجھے تسطیر کی کامیابی پر پورا بھروسہ ہوتا چلا گیا۔ کیوں کہ یہ محض محنت کا تسلسل نہیں تھا بل کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہر بار کنواں نئے سرے سے کھودا جاتا ہے۔ اتنی جاںفشانی سے کام لیا جا رہا تھا کہ میں بے ساختہ کہہ اٹھتی کہ یہ کام کسی جن کا معلوم ہوتا ہے۔ ادب کی مختلف اصناف کو ہر مرتبہ ایک نئے قرینے سے آراستہ کرنا اور تنوّع کی اس قدر احتیاط برتنا کہ کہانی کا سا تجسس تمام اوراق میں برقرار رہے اور پھر ضخامت میں مسلسل اضافے کے باوجود پرچے کو پُرمغز بنائے رکھنا بھلا کس کا کام ہو سکتا ہے؟ اس کا نام بتانے کی ضرورت نہیں۔ اسے بھلا کون نہیں جانتا!

میری نظر میں تسطیر کئی حوالوں سے معتبر ادبی جریدہ ہے۔ عہدِ جدید میں جب کہ بہت کچھ بدل چکا ہے اور بہت کچھ بدل جائے گا اور تغیر کے اس بھونچال سے اردو ادب بھی محفوظ نہیں کہ جس کے مستقبل کے بارے میں اہلِ قلم بجا طور پر فکرمند ہیں، ایسے میں تسطیر کا اور صاحبِ تسطیر کا ہمارے درمیاں ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔ اس نے ہم لکھاریوں کی ڈھارس بندھائی ہے کہ اگر تیز ہواﺅں کی وجہ سے آشیاں بکھر بھی جائے تو تنکا تنکا چن کر گھونسلہ پھر سے بنایا جا سکتا ہے۔ البتّہ مہم جوئی شرط ہے۔

اس مہم جُو کے لیے جو تسطیر کے پسِ پردہ ہے، مبارکباد ایک بہت چھوٹا لفظ ہے۔ میں اسے آفرین کہتی ہوں۔ میرے نزدیک یہ سطر بندی محنت کار، جو درحقیقت محنت کار کم اور تخلیق کار زیادہ ہے، کا وہ لہو ہے جو دل سے نکلا ہے اور آنکھ سے ٹپکا ہے!

معظمہ تنویر
Latest posts by معظمہ تنویر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).