امریکی پروپیگنڈے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل تک


میرے خیال سے اپنی فرسودہ نظریات اور ناقص سوچ کو ذاتی یا کسی محصوص گروہ کی مفادات کے لئے معاشرے میں ماس میڈیا کے ذریعے پھیلانے کا نام پروپیگنڈا ہے۔ لفظ پروپیگنڈے سے عام طور پر افواہ، جھوٹ، فریب، دھوکہ یا دورغ گوئی کے معنی لی جاتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار پروپیگنڈا مثبت یا کسی قوم کی ترقی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پروپیگنڈے کو زیادہ تر مذہب کے مقدس کپڑے میں لپیٹ کر ایسے پھیلایا گیا کہ اپنے وقت کے دانشور بھی اس کی اثر سے نہیں بچ سکیں۔ اب حقیقت پسنداور ترقی پسند سوچ کی بدولت نئی دنیا کے باسی اس قسم کی پروپیگنڈوں کی اثرسے کسی حد تک آزاد ہوچکے ہیں۔ لیکن ترقی پذیر ممالک اور حصوصا مسلم دنیا آج بھی اپنی ذاتی مفاد کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے خلاف مذہبی پروپیگنڈے کا سہارا لیتی ہے۔

5 فروری 2003 کو سلامتی کونسل میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ عراق کے صدر صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر مہلک اور تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ صدام حسین دہشتگردوں کے سہولت کار ہے، انہیں مالی امداد فراہم کرتے ہیں اور جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش میں بھی ہے۔ 3اپریل 2003 کو اتحادی افواج نے عراق پر ایسے ہلا بول دیا، جیسے ہندی تامل فلموں میں ولن اپنے ساتھیوں کے ہمراہ غریبوں کی بستی کو لوٹتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس جنگ میں آٹھ لاکھ کے قریب عراقی مارے گئیں۔ تقریبا ایک کروڑ افراد بے گھر ہوئے۔ جنگ کے نتیجے میں تاریخی نوادرات اور صحابہ کرام کے مزاروں کو شدید نقصان پہنچا۔

تیل اور دیگر معدنی ذخائر لوٹنے کے بعد امریکی حکام نے معافی مانگ لی کہ ہمیں عراق میں کوئی جوہری ہتھیار نہیں ملے۔ تو پھر مغربی ممالک سمیت درجنوں اسلامی ممالک کیوں عراق پر امریکی حملے کے حق میں تھے؟ کیونکہ انٹرنیشنل میڈیا نے عراق کے متعلق اتنا منفی پروپیگنڈا کیا تھا کہ عام لوگوں کا مائنڈ سیٹ بن چکاتھا کہ عراق سے دنیا کی امن کو خطرہ ہے۔ آج آپ عراق کے متعلق 2003 کے انٹرنیشنل میڈیا رپورٹس دیکھ لیں۔ آ پ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کیسے ایک جھوٹے پروپیگنڈے کو باربار تب تک پھیلایا گیا، جب تک لوگوں نے اس پر یقین نہیں کیا۔

2003 میں سوشل میڈیا کا طوطا پنجرے سے نہیں نکلا تھا۔ اس لئے عراق کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے مین سٹریم میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ اب سوشل کی اہمیت مین سٹریم میڈیا سے زیادہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ کیوں کہ خبر مین سٹریم میڈیا تک پہنچنے سے قبل سوشل میڈیا کی زینت بن چکی ہوتی ہے۔ چونکہ سوشل میڈیا تک رسائی کے لئے صرف ایک سمارٹ فون کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تقریبا 60 فیصد معلومات غلط ہوتی ہیں۔

رہی سہی کسر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل نے پوری کردی ہے۔ ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا پر عمران خان کی ایک تصویر گردش کررہی تھی۔ جو ٹائیگرز کے مطابق سعودی حکومت نے جذبہ خیرسگالی کے تحت ریاض کے کنگڈم سنٹر پر اویزاں کی تھی۔ جسے ایک نجی چینل نے بریکنگ نیوزبنا کربھی پیش کیا۔ حقیقت تب کھلی جب کنگڈم کے بغل میں رہنے والے ایک پاکستانی نے ویڈیو بنائی کہ پانچ دنوں سے میں نے یہاں کوئی تصویر نہیں دیکھی۔ اس کے بعد کیا تھا سوشل میڈیا ریاض کے کنگڈم سنٹر کے تصویروں سے ایسے بھر گیا جیسے عید کا میلہ قربانی کے جانوروں سے بھرا ہوتا ہے۔ کسی نے قائم علی شاہ تو کسی نے مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، نواب اسلم رئیسانی، الطاف حسین، زرداری، شہباز شریف، مریم نواز، جہانگیر ترین یہاں تک کہ کسی شرارتی نے بھارتی اداکارہ سنی لیون کی تصویربھی کنگڈم کی عمارت پر لگائی۔

اس سے قبل 31 جولائی کو تحریک انصاف کے کسی فیس بک صفحے سے خبر چلی کہ سابق وزیر تعلیم خیبر پختونخوا عاطف خان کو وزیراعلی خیبر پختونخوا منتخب کیا گیا۔ پھر کیا تھا یہ خبر سوشل میڈیا پر جنگل میں آگ کی طرح ایسی پھیلی کہ راقم بھی اس کی لپیٹ سے نہیں بچ سکا اور سوشل میڈیا کی وساطت سے عاطف خان کو وزیراعلی منتخب ہونے پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کی۔ بعض صحافی دوستوں نے تو عاطف خان کے ساتھ پرانی تصاویر شئیر کرکے دوستانہ انداز میں مبارک باد پیش کی۔ اس وقت عاطف خان کو اپنے سوشل میڈیا سیل اور سوشل میڈیا کی سپیڈ کا اندازہ ہوا ہوگا۔ کیونکہ جو عاطف خان کو پتا نہیں تھا وہ سب لوگوں کو پتا تھا۔ خبر کے دو گھنٹے بعد پتا چلا کہ یہ تو پروپیگنڈا ہے۔

تحریک انصاف کا سوشل میڈیا سیل اس لئے بھی دوسرے سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ٹیموں سے منفرد ہے کہ ان کے پاس فوٹوایڈیٹروں کی ایک کثیر تعداد بھی موجود ہے۔ جو کبھی قائداعظم سے عمران خان بناتے ہیں۔ کبھی ایک ہزار کے نوٹ پر عمران خان کی تصویر فٹ کرتے ہیں۔ کبھی جرمنی کے کسی شہر کے درمیان میں باب پشاور فلائی اوور لگاتے ہیں اور کیپشن میں نیا پاکستان لکھ دیتے ہیں اورکبھی امریکہ کے سان فرانسسکو شہر کی عمارتوں پر قصہ خوانی بازار اور چرگانوں چوک لکھ کر لوگوں کی دلوں میں عمران خان کی عزت بڑھاتے ہیں۔ اگربات یہی تک محدود ہوتی پھر بھی کوئی بات نہیں تھی لیکن انہوں نے مخالفین کی ایسی ایسی قابل اعتراض تصاویر ایڈیٹ کیں جنہیں دیکھ کر کسی بھی ذی شعور شخص کو غصہ آتا ہے۔

میرے خیال سے جب تک لوگ تاریخ سے ناواقف، اورحالات حاضرہ سے بے خبر ہیں۔ اصل اور فیک خبر میں فرق نہیں کرسکتیں، اوریجنل اور فوٹوشاپڈ تصویر کی پہچان نہیں کرسکتیں۔ تب تک سوشل میڈیا کی فضاؤں میں پروپیگنڈسٹ گدھ موجود رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).