بڑھک باز وزیر اعظم زندہ باد


میرے منہ میں خاک اور میرے ڈرائنگ روم تجزیوں پر لعنت۔ اللہ کرے مجھے یوں ہی شرمندگی اٹھانی پڑے جیسا کہ عمران خان صاحب کے وزیر اعظم نہ بن سکنے کا عندیہ دے کر اٹھانی پڑی۔ عمران کے وزیر اعظم بننے کے لیے مجھے پیپلز پارٹی کا ساتھ دینا ناگزیر نظر آ یا لیکن میں آ ر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھنے اور زرداری کی مجبوریوں کے اٹھنے کا اندازہ نہیں کر سکا۔ بہر حال خان صاحب کا وزیر اعظم بننا ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے اور فرسٹ لیڈی کی کرامات ہمارے منہ پر ایک طمانچہ ہیں۔ یہاں ہمارے سے مراد وہ لبرلز ہیں جو سماج کو سائنسی بنیادوں پر آ گے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں جہاں تاریخ سماجی عمل کو سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہو اور سیاسی و سماجی ڈھانچہ کو ترقی دینے کے لیے معاشی ڈھانچہ میں تبدیلی لانا ترقی کا پہلا زینہ ہے۔

سیاسی بڑھک بازی، کالی دال، ٹونے ٹوٹکے، کالا علم، کاسمیٹک تبدیلیاں ، سادگی اور کفایت شعاری کا درس، ریاست مدینہ کی مثالیں، “اب راج کرے گی خلق خدا” ٹائپ نعروں میں غریبوں (یعنی ذہنی غریب) کے لیے یقیناً کشش ہوگی لیکن ہمارا حال تو ، “وہ روز پڑی ہیں قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا” والا ہے۔ ایسے درس دینے والا ہمیں تو ” سُکے تے مل ماہیا ” کہنے والا لگتا ہے اور ہمیں اب پتہ چل جاتا ہے کہ ” ایہنے ووٹ لے کے مکر جانا جے”۔ لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر خان صاحب کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔

میں اس وقت گلگت بلتستان میں ہوں اور یہاں خان صاحب کی تقریر کو ایسے سنا جا رہا تھا جیسے کسی روحانی پیشوا کو سنا جاتا ہے۔ اس وقت خان کی ناکامی کی بات تو میں گھر میں بھی نہیں کرسکتا کیونکہ میری بیوی، بچیوں اور والد صاحب کی دل آزاری ہوتی ہے۔ فیس بک پر کمنٹ کرنا چھوڑ دیا ہے کہ دوست برا مانتے ہیں لیکن “دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا “۔

کارل مارکس کا اللّٰہ بیڑا غرق کرے جس نے انسانی بھوک اور استیصال کے بنیادی فیکٹرز کو ایکسپوز کر دیا اور سیاسی حرکیات کو معاشی تناظر میں دیکھنا سکھایا۔ ہمارا نیا وزیر اعظم بھی بورثوا سیاست کا ایک بونا ہے جو بے رحم معروضی حقائق کا مقابلہ سادگی اور کفایت شعاری سے ریاست مدینہ کی طرز پر سیاست سے کرنا چاہ رہا ہے۔ فرماتے ہیں اب مافیا کی چیخیں نکلیں گی اور ہمارے ذہن میں نرگسیت کا شکار وہ مرد آ گئے جو اپنی کسی کمزوری کو چھپانے کے لیے مردانگی کا اظہار جا بجا کرتے پھرتے ہیں، “چیکاں کڈا دیاں گے باچھا” یعنی چیخیں نکلوا دیں گے بادشاہ۔ ڈاکٹر عشرت حسین کو ٹاسک فورس دی ہے مافیا کی چیخیں نکلوانے کے لیے۔

کچھ ہفتہ قبل ڈاکٹر صاحب نے جنگ میں کالم لکھا تھا کہ کیسے دو سو ارب روپے کا سرمایہ ملک سے فرار ہونے کے لیے تیار ہے اور کیسے پچھلے برس سترہ ارب ڈالر تعلیم اور علاج کے نام پر باہر بھیجے گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ ٹیکس دینے والوں کو بھی ملک سے باہر سرمایہ نہ بھیجنے کا پابند ہونا چاہیے اور ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ناجائز ذرائع سے حاصل کیا ہوا سرمایہ جامد ملکیت کی صورت میں ملک کے اندر ہی موجود ہے۔ اسے باہر فرار ہونے سے روکا جا سکتا ہے کیونکہ مالکان کی آ مدن کے ذرائع اور ذرائع سے زیادہ اثاثوں کا ریکارڈ ایف بی آر کے پاس پڑا یے۔ دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے قانون سازی کرنی ہوگی جس کی بات خان صاحب نہیں کرتے۔ بس بڑھ ہانک دیتے ہیں۔

گاڑیوں کی نیلامی، ملازمین کی کمی، سادگی و کفایت شعاری کی باتیں مجھ جیسے کوڑھ مغز کی سمجھ میں نہیں آ تیں۔ گورنر ہاؤسز، وزیر اعظم ہاؤس میں اگر آ پ نہیں رہیں گے تو وہاں مکڑی جالا بن دے گی، چوہے دوڑتے پھریں گے، دیواریں مکینوں کی راہ تکتی رہیں گی۔ اب یا تو وہ غریب عوام کے حوالے کر دیں جو وفور اشک سے ان سائیں سائیں کرتے محلات کے دیوار و در کو در و دیوار کر لیں اور یا وہاں لائبریریاں بنا دیں جہاں رات دن کتابوں سے استفادہ کیا جا سکے لیکن اس قوم نے وہاں ڈیٹیں مارنا شروع کر دینی ہیں اور پڑھنا وڑھنا کسی نے بھی نہیں۔ کچھ عرصہ بعد خان صاحب خود ہی شفٹ ہو جائیں گے وہاں۔ شروع شروع میں تو انقلابی تبدیلیاں لانی ہیں نا۔

خان صاحب کو کیسے سمجھائیں کہ قرضے ہر حکومت اتارنا چاہتی تھی لیکن ننگی نہائے کیا اور نچوڑے کیا۔ جب پروفیسر ممتاز کے سامنے یہ محاورہ بولا گیا تو اس کا سارا انقلاب ایک دم بیٹھ گیا۔ بے ساختہ کہہ اٹھا، “اوئے۔۔۔۔۔۔۔ ننگی ہے کتھے؟ پھر ایک دم کھسیانا سا ہو کر کہنے لگا ، ” تواڈے ذہن ہی گندے نیں”. ہم نے کہا محاورہ ہے بھائی تو فرماتے ہیں کہ محاورہ میں خان صاحب کے لیے ترمیم ہونی چاہیے۔ جناب محاورہ میں ترمیم نہیں ہو سکتی البتہ آ پ کی عزت کرتے ہوئے ہم کہہ دیتے ہیں کہ ننگا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا۔ پروفیسر صاحب غصہ میں آ گئے اور بولے ،”خان صرف نہائے گا۔ نچوڑے گا تواڈی پین دی۔۔۔؟”۔

مدینہ کی ریاست یقیناً ماں جیسی ریاست ہو گی لیکن اسلام تجارتی سرمایہ داری یعنی مرکنٹائیل اکانومی کے دور میں آ یا اور اس کی ساری اخلاقیات تجارتی سرمایہ داری سے متعلق ہیں مثلاً مال کے بارے میں درست معلومات دو، ایک حد سے زیادہ منافع نہ کماؤ، منافع میں سے ایک حصہ سماج کے لیے مختص کرو وغیرہ۔ عالمی اجارہ داریاں اور ان کے پیسہ پر پلنے والی این جی اوز اور غیر ملکی سرمایہ کار وہی ہیں جنہوں نے آپ کی الیکشن کیمپین پر کروڑوں ڈالرز خرچ کیے ہیں۔ پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا کیونکہ قوم کے لیے ہمارے اوورسیز کے ہر جگہ درد ہوتا ہے سوائے ذہن کے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا استعارہ ہے۔ بیرونی فنڈنگ کیس کو ٹھڈا مار کر ایک سائیڈ پر پھینکا ہوا ہے۔ مجال ہے کوئی آ پ سے پوچھے کہ دس سے پندرہ کروڑ کا جلسہ کرتے ہوئے آپ کو قوم کی غریبی کا خیال نہیں آ یا۔ ہیلی کاپٹر پر جھولے لیتے ہوئے کے پی کی غربت کہاں گئی تھی۔ ذلتوں کے مارے بے چارے پھر تالیاں بجا رہے ہیں آپ کی سادگی پر۔ وزیر اعظم بننے کے بعد آ پ کو سادگی یاد آ گئی۔ مرزا غالب سے معذرت کے ساتھ، اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا / لڑتے ہیں اور ہاتھ میں “شلوار ” بھی نہیں۔

شلوار صرف وزن برابر رکھنے کے لیے لکھا ہے ، اصل میں یہ ڈھیلی نیکر ہے جو مقتدر حلقوں نے خان صاحب کو پہنا دی ہے کہ بس نیکر سنبھالتے رہو۔ اب نیکر سنبھالتے ہوئے خان صاحب مافیا کے ساتھ کیسے لڑ سکتے ہیں۔ سب سے طاقتور بزنس مافیا کے ساتھ لڑیں گے خان صاحب؟ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب پڑھ لیں۔ سمجھ آ جائے گا میں کیا کہہ رہا ہوں۔ مصنوعی جنگیں اور جنگی ہیجان پیدا کرنے والے مافیا سے لڑیں گے خان صاحب؟ محدود جنگ کی صورت پیدا کر کے جنگی سازو سامان درآمد کرنے والے مافیا سے لڑیں گے خان صاحب؟ ڈرگ مافیا سے لڑیں گے خان صاحب؟ فرماتے ہیں نیشنل ایکشن پلان پر عمل کریں گے۔ کسی ڈان لیکس میں پھنسنے کا ارادہ تو نہیں۔ مدرسہ سے ڈاکٹرز اور انجینئرز پیدا کریں گے آ پ اور اسی لیے آ پ نے حکومتی خزانہ سے مدرسوں کو تیس تیس کروڑ بانٹ دیے تھے۔ مدرسہ کا نصاب بھی اگر آ پ تبدیل کروا گئے تو کیا بات ہے لیکن آ پ کو مدرسہ کا کیا بتاؤں۔

لال مسجد کا واقعہ ہوا اور ہم نے جامعہ اشرفیہ کے کاشمیری صاحب کو پچاس منٹ میں بلوایا۔ لال مسجد میں اسلحہ کے سوال پر کہنے لگے ، “جناب ! آپ مجھے اسلام آباد میں ایک پستول لے جا کر دکھا دیں کسی کی مرضی کے خلاف پھر میں مان لوں گا کہ اسلحہ مدرسہ کے بچے لے گئے ہوں گے”۔ آ پ ناراض بلوچوں سے کیا بات کریں گے۔ اختر مینگل، جو کہ ناراض نہیں ہے، کی تقریر تک تو آ پ نے سنی نہیں۔ آ پ کو ناراض بلوچوں سے بات کی اجازت بھی شاید نہیں ہو گی۔ یونانی المیہ میں ٹریجک ہیرو اپنی کسی حماقت سے نہیں مرتا، اپنی اچھائی کے ہاتھوں مرتا ہے کیونکہ وہ اپنی پوزیشن کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ ہوتا وہ اچھا ہی ہے۔ خان صاحب ! بڑھک بازی چھوڑیں اور وہ کریں جو آپ کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).