مٹیالا چلاس اورنظم و ضبط کی کیڑی!


\"waqarچلاس اس خطے بلکہ دریائے سند ھ کا اہم ترین تاریخی شہر رہا ہے۔ پتھروں پر کندہ تصویری عبارتوں کی تعداد سب سے زیادہ یہیں ہے۔ سنتے ہیں کہ چلاس کے مرکزی بازار میں کوئی مجسمہ ہوا کرتا تھا جس کی ٹانگوں کے نیچے سے آمدورفت ہوتی تھی۔ گلگت بلتستان کے خطے کا بھی سب سے پرانا اور مرکزی شہر یہی چلاس تھا۔

چلاس کی جدید تاریخ بھی یعنی 1810 سے آگے کی تاریخ جنگوں اور جھڑپوں سے عبارت ہے۔ پروفیسر لیٹنر کی کتاب داردستان میں ان جنگوں کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چلاس اور داریل کی جنگ، چلاس اور استوریوں کی جنگ، چلاس کی سلطنت کشمیر کی ساتھ جنگ، چلاس اور گلگت کی جنگ وغیرہ وغیرہ۔

آج چلاس کا تھانہ جس قلعہ میں واقع ہے اس قلعہ کی تاریخ بھی بہت ہی دلچسپ ہے۔ پروفیسر لیٹنر کی جب 1860کی دہائی میں یہاں آمد ہوئی تو چلاس اور استور کی جنگ جوبن پر تھی۔ چلاس کا استور کی زرخیز چراگاہوں سے جانور چرانا معمول بن چکا تھا۔ مہاراجہ کشمیر کئی دفعہ متنبہ کر چکا تھا لیکن اس جنگ میں استور کی مدد کے لیے مہاراجہ نے اپنی فوج بھیجی۔ استور کی آبادی اس قلعہ میں محصور ہو گئی۔ پروفیسر لیٹنر نے آنکھوں دیکھا حال مفصل لکھا ہے۔

بعد میں استو ر کے لشکر نے قلعہ میں آتے پانی کے چشموں میں زہر ملایا اور کافی ہلاکتیں ہوئیں۔

\"13275796_10154301196543578_1457062769_n\"آج کا سیاح بغیر چلاس پر توجہ کیے گزر جاتا ہے۔ آج کے چلاس کاتعارف کسی بھی سیاح کے تخیل میں چند ورکشاپوں، خشک میوہ جات کی دکانوں، کچھ ہوٹلوں، شدید گرمی، سیاہ خشک پہاڑوں اور سڑک پر گھومتے مریل کتوں کے سوا کیا ہے۔ لیکن یہ تعارف ان سیاحوں کے تخیل میں ہے جو کہیں جانے پہلے اس جگہ کے متعلق مطالعہ نہیں کرتے۔

مقامی اور بالخصوص بین الاقوامی سیاحوں کی کثیر تعداد جانتی ہے کہ چلاس کیا ہے۔

جب آپ جانتے ہوتے ہیں کہ چلاس کیا ہے اور اس کی تاریخ قبل از مسیح تک جاتی ہے تو یہاں کے  ایک ایک پتھر میں جان پڑ جاتی ہے۔

عجائب گھروں کی سیر کرنا، زمانہ قدیم کی اشیا کو سرسری دیکھنا ایک اور عمل ہے اور مستنصر حسین تارڑ کے ناول بہاﺅ کو پڑھنے کے بعد کسی عجائب گھر کو دیکھنا ایک اور تجربہ۔

ہر پتھر میں جان پڑ جاتی ہے، ہر برتن ’پاروشنی‘ کا برتن دکھائی دیتا ہے کہ شاید اس برتن میں کسی پاروشنی نے گندم پیسی ہو گی۔

بس یہی فرق چلاس کو سرسری دیکھنے اور مطالعہ کے بعد دیکھنے میں ہے۔ ایک کثیر تعداد قراقرم ہائی وے پر چند ہوٹلوں اور ورکشاپوں کو چلاس جانتی ہے۔ چلاس قراقرم ہائی وے سے دو کلومیٹر اوپر کی جانب واقع ہے، یہ بَٹھو نالہ کے کنارے پر واقع ہے اور یہ نالہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔

\"13278014_10154301197423578_1818520904_n\"چلاس کے لوگ بہت باکمال لوگ ہیں۔ سخت گیر رویوں کے پیچھے بڑی کہانیاں ہیں۔ چلاس ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، کافی کریڈٹ  1980 کی دہائی سے متعلق امیر المومنین کے حصے میں جاتا ہے۔ جن کی ٹوپی میں کارناموں کے پروں میں سے ایک پر کوہستان اور چلاس میں فرقہ پرستی کو شہہ دینا ہے۔ گلگت کے جلال آباد کو جب جلا دیا گیا تو سنتے ہیں کہ ہفتوں جانوروں اور انسانی جسموں کے جلنے کی بو آتی رہی لیکن کم لوگ واقف ہیں کہ جلال آباد فرقہ پرستی کے حوالے سے اس نوعیت کی دہشت گردی کا پہلا باقاعدہ شکار تھا، یوں کہیے کہ جلال آباد کے جلنے کے تیس برسوں کے بعد بھی پورے ملک میں انسانی جسموں کے جلنے کی بو آ رہی ہے۔

 اگر آپ چلاس شہر کی جانب جائیں تو آپ کو ائیر پورٹ کی لینڈنگ پٹی نظر آئے گی۔ گلگت اور سکردو میں موسم خراب ہونے کی صورت میں متبادل کے طور پر چلاس کا ائیرپورٹ بنایا جانا تھا لیکن کچھ مولویوں نے مقامی آبادی کے کانوں میں یہ ڈال دیا کہ جب جہاز فضا میں ہو گا تو اس میں بیٹھی سواریاں گھروں کے اندر صحنوں میں جھانکیں گی جس سے بے پردگی ہو گی۔ ۔

چلاس میں ایک ہوٹل ایسا شاندار ہے کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ ہوٹل شنگریلا چلاس ہے۔ سڑک سے گزر جائیں تو ہوٹل کی وسعت اور جمال نظر نہیں آتے، صرف ایک بورڈ یا چند کمرے نظر آتے ہیں لیکن جیسے ہی ہوٹل میں داخل ہوں تو ایک کائنات کھلتی چلی جاتی ہے۔ مٹی سے بنی کائنات

شنگریلا ہوٹل سڑک سے نیچے کی جانب دریائے سندھ کی جانب ہے، اس لیے سڑک پر صرف اس کے استقبالیہ کی عمارت اور چند کمرے ہی نظر آتے ہیں۔ یہ ہوٹل \"13231278_10154301197408578_1823800279_n\"وسیع و عریض رقبہ پر پھیلا ہے۔ مٹی سے صرف عمارتیں ہی نہیں بنی ہوئیں بلکہ کمروں کے اندر بیڈ تک مٹی کے ہیں۔ بیڈ کیا ہیں مٹی کے چبوترے ہیں جن کے اوپر بستر بچھے ہیں۔ روشنی تک کا انتظام مٹی سے بنی لالٹینوں سے کیا گیا ہے جن کے اند ر ننھے بلب لگے ہیں۔ حتیٰ کہ واش روم میں سنک میں منہ ہاتھ دھونے کی جگہ کو چھوڑ کر مٹی ہی مٹی ہے۔ شنگریلا میں خوبصورت باغیچے ہیں اور باغیچوں سے نیچے بہتا دریائے سندھ۔

کہنے دیجئے کہ چلاس میں شنگریلا کے باغیچے کی شام کرہ ارض پر اترتی بہترین شاموں میں سے ایک ہے۔ چلاس میں ہر وقت ہوا چلتی رہتی ہے۔ یہ ہوا دن کو تپش لیے ہوتی ہے لیکن شام اور رات کو یہی ہوا گالوں پر نرم تھپیڑے مارتی ہے۔

چلاس میں دوسرے ہوٹلز بھی کمال ہیں۔ مجھے ان ہوٹلوں میں باغیچے متاثر کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا شاید اس لیے ہوتا ہے کہ سبزہ دیکھے ایک مدت ہو چکی ہوتی ہے ایسے میں چلاس میں پینوراما ہوٹل کے باغیچے میں کسی انگور کی بیل کے نیچے بیٹھے حیرتیں اترتی ہیں کہ کیا کمال ہے کائنات میں سبز رنگ بھی ہوتا ہے اور کیا خوب رنگ ہے اور جن پر یہ رنگ چڑھا ہوا ہے یہ کیا عجیب مخلوق ہے۔

چلاس پہنچ کر کوئی حواس باختہ انسان یہ سوال پوچھ بھی سکتا ہے کہ اس مخلوق کا کیا نام ہے اور مقامی چلاسی فرد حیرت سے اسے دیکھ بھی سکتا ہے کہ بھلا اسے پودوں اور درختوں کا بھی نہیں معلوم۔ ۔ ضرور یہ بد بخت میرے ساتھ مخول کرتا ہے،

\"13236164_10154301197388578_1582727163_n\"چلاس پہنچنے پر کیا احساسات ہوتے ہیں۔ اگر آپ چلاس نہیں گئے تو نوٹ کر لیجئے اور اگر آپ چلاس گئے ہیں تو لطف اٹھائیے۔

1۔ جاتے ہی اوندھے منہ بستر پر گر جانا اور امید رکھنا کہ کوئی اور دوست استقبالیہ پر جائے اور کہے کہ کمرے میں ٹھنڈا پانی بھجوا دیں۔

2۔ کسی اور دوست کی منت کرنا کہ خدا کے لیے اس کا موبائل بھی چارجنگ پر لگا دے۔

3۔ ویٹر کا آکر پوچھنا کہ شام کو آپ لوگ کیا کھائیں گے، اور اوندھے پڑے دوستوں کا ایک دوسرے کی جانب دیکھنا کہ کوئی تو اس ویٹر کے سوال کا جواب دے۔

4۔ کولر سے آتی ٹھنڈی ہوا کا چہرے سے ٹکرانا اور نیند کی وادی میں اترتے ہوئے سوچنا کہ کاش موت بھی ایسے ہی کسی لطیف احساس کے ساتھ آتی۔

\"13233459_10154301196513578_1516266888_n\"5۔ رات کو آٹھ بجے بازار کا ایک چکر یوں لگانا کہ ہر دوست دوسرے دوست کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سہارا طلب انداز سے پیدل چل رہا ہے۔

6۔ ہر خشک میوہ جات کی دکان پر رکنا اور بادام اخروٹ اور چلغوزوں کے دام پوچھنا اور دل میں عہد کرنا کہ واپسی پر خریدیں گے اور واپسی پر جلدی کے چکر میں خریداری کے خیال پر بھی لعنت بھیجنا

7۔ رات دس سے بارہ تک گپ شپ کا دور چلنا۔ اور ہر گروپ میں نظم وضبط کی بیماری میں مبتلا کسی دوست کا بار بار تلقین کرنا کہ سو جائیں صبح جلدی اٹھنا ہے۔

8۔ نظم و ضبط والی بیماری کا بارہ بجے سو جانا اور دوسرے دوستوں کا رات تین بجے یہ عہد کر کہ سونا کہ صبح سات بجے بیدار ہو جانا ہے تاکہ آٹھ بجے ناشتہ واشتہ کر کے چلاس سے نکل جائیں۔

9۔ متذکرہ بالا فقرہ منہ سے نکالتے ہوئے ہر دوست کا چہرے پر یقین سجانا اور دل میں اس فقرے پر ایمان لانا۔ پرانے پاپیوں کا پچھلے تجربوں کی یاداشت ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بے وقوف بنانا۔

10۔ نظم وضبط کی کیڑی کا سات بجے اٹھنا، اکیلے ٹہلنا، بازار کا چکر لگانا۔ تنگ آ کر نو بجے دوستوں کو اٹھانا۔

\"13233365_10154301197453578_1658165619_n\"11۔ دوستوں کا بصد اصرار ایک دوسرے کو کہنا کہ آپ پہلے نہا لیں۔ اور خود ایک صوفے پر نیم دراز ہو کر سگریٹ پینا اور دنیا کی بنت پر غور فرمانا۔

12۔ ساڑھے دس بجے ناشتہ کے لیے اکھٹے ہونا اور نظم و ضبط کی کیڑی کا منہ سجا کر بیٹھے ہونا۔

13۔ گیارہ بجے چیک آﺅٹ کرنا۔ سامان موٹر سائیکلوں کے پاس پہنچانا اور ایک دوست کا اطلاع دینا کہ میرے موٹر سائیکل کا پچھلا ٹائر ٹھس ہے۔ پنکچر ہے۔

14۔ اس اطلاع پر نظم و ضبط کی کیڑی کے دماغ میں بم پھٹنا، دوستوں کو کھری کھری سنانا، عہد کرنا کہ پھر تم لوگوں کے ساتھ نہیں آﺅں گا اور بقیہ پورے ٹور میں منہ بنائے رکھنا۔ دوستوں کو فکرمند کرنا، ہر وقت اپنا خون جلانا اور واپسی پر شیر و شکر ہو جانا۔

15۔ سات بجے نکلنے کا عہد کرنے والوں کا بارہ بجے چلاس سے یوں نکلنا کہ چہروں پر کسی شرمندگی کے آثار نہ ہونا۔ ایک دوسرے کو یہ کہہ کر دلاسہ دینا کہ راستے میں اب رکنا نہیں ہے اور رفتار تیز رکھنی ہے۔

(تارڑ صاحب نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ یہ ان کا بھی تجربہ ہے، انہوں نے گلگت بلتستان میں کوئی ایک ٹور بھی ایسا نہیں کیا جس میں کوئی ایک کردار منہ بسورے، دوسرے سے قطع تعلق کیے پریشان نہ پھرتا ہو اور واپسی پر سب سے شیر و شکر نہ ہو تا ہو )

 

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik