ہم نے عمران خان کو جاگنگ کرتے دیکھ رکھا ہے، اب وزارت عظمیٰ چلائیں


 تجزیہ کرنے والے نہ تو تنقید برائے تنقید کرتے ہیں، نہ ہی تنقید سے ان کی مراد تنقیص ہوتی ہے جبکہ تنقید کا مطلب مخالفت تو ہرگز نہیں ہوتا۔ جب عمران خان وزیراعظم بن ہی چکے ہیں تو ہر جمہوریت پسند کی خواہش ہوگی کہ وہ اپنی جائز اور آئینی مدت پوری کریں۔ کسی بھی وقت اگر عدالتیں الیکشن سے متعلق کوئی ایسے فیصلے کرتی ہیں جو ان کی مدت پوری کرنے میں حارج ہوں گے تو ظاہر ہے اس بارے میں کچھ بھی کہنا، جیسی کہ ملک میں عدلیہ ہے، فی الفور توہین عدالت کے زمرے میں آ جائے گا۔ ہاں البتہ اگر کوئی غیر جمہوری، غیر سیاسی قوت ایک بھی روڑا اٹکاتی ہے تو وزیر اعظم کے مخالف اگر وہ جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہونگے پلک جھپکتے میں، ان کی حمایت میں آ کھڑے ہونگے۔ مخالفین اگر عیاں طور پر یا درپردہ جمہوریت مخالف یا جمہوریت دشمن ہوں تو ان کے بارے میں کچھ کہنا ویسے ہی بے سود ہو گا۔

وزیراعظم پاکستان نے قوم سے کیے اپنے پہلے خطاب میں ملک میں عوام کے مختلف طبقوں کو چباتے نگلتے ہوئے مسائل کا ذکر کیا۔ بلا شبہ ان مسائل کو حل ہونا چاہیے۔ پھر انہوں نے ان مسائل سے نمٹنے کے طریقے بھی بتائے۔ لوگوں کو راغب کرنے کی کوشش کی کہ انکم ٹیکس دیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنا سرمایہ ملک میں لائیں اور ترسیل زر بینکوں کے توسط سے کریں تاکہ ملک کے بینکوں میں ڈالر پہنچیں جن کی کہ ملک کو اشد ضرورت ہے۔

 تعلیم کے شعبے میں انہوں نے گورنمنٹ سکولوں کو بہتر بنانے کی بات کی بلکہ گورنمنٹ سکولوں کی عمارت اسکول تمام ہونے کے بعد کے اوقات میں تعلیم سے وابستہ نجی لوگوں یا اداروں کو کرائے پر دینے کا عندیہ بھی دیا۔

 پہلے تو عمران خان کا کہنا ہوتا تھا کہ ملک میں تین طرح کا نظام تعلیم ہے جسے ایک کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ویسے چار طرح کے نظام ہائے تعلیم ہیں یعنی گورنمنٹ سکول، پرائیویٹ سکول، اشرافیہ کے سکول جیسے ایچی سن اور امیریکن سکول وغیرہ، اور مدرسے۔ خیر ان کے نظام کو وہ بعد میں کہیں جا کر مربوط کر لیں گے مگر سکولوں کو کرائے پر دینے سے ایک مسئلہ پیدا ہوگا کہ صبح کو تعلیم دینے والے تعلیم دیں گے اور شام کو تعلیم دینے کا کاروبار کرنے والے۔ صبح والوں کی فیس مثال کے طور پر 25 روپے یا آدھی فیس یا فیس معاف ہوگی مگر شام کے سکول میں 250 یا شاید 2500 تک۔

 اب ہمارے عمرانو فیلیک ( عمران خان کے شیدائی۔ ویسے یہ ٹرم میں نے وضع نہیں کی بلکہ عمران کی کسی بھی بات سے مختلف بات کرنے والے کو ان کے شیدائی جھٹ سے کہتے ہیں کہ آپ کو عمرانو فوبیا ہو گیا ہے، چنانچہ محبت کرنے والے عمرانو فیلز ہوئے ) سمجھیں گے کہ یہ تنقید ہے چنانچہ فی الفور تاویل و تشریح کے گرز لے کر پیچھے پڑ جائیں گے مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ مثبت تنقید اصلاح کے لیے کی جاتی ہے تاکہ شاید آپ کوئی زیادہ منطقی بات کرنے لگیں جس سے آپ کا اس بات سے متعلق عمل بھی ہوائی کی بجائے عملیت پسندانہ ہو جائے۔

 معاملہ یہ ہے کہ گذشہ ایک ڈیڑھ عشرے سے دنیا بھر میں پاپولزم کی وبا چلی ہوئی ہے۔ میں نے پاپولزم پر بسیط مضمون کہیں 1984۔85 میں لکھا تھا، تب میں جنگ کے ادارتی صفحات کے لیے لکھا کرتا تھا۔ اس مضمون سے میں نے جس انگریزی کتاب سے مدد لی تھی وہ روس میں شائع کردہ تھی یعنی کسی روسی کی لکھی کتاب کا انگریزی ترجمہ۔ یقین کیجیے کہ تب تک مغرب میں پاپولزم سے متعلق کوئی زیادہ نہیں لکھا گیا تھا اگرچہ اس سے پہلے جمال ناصر، ذوالفقار علی بھٹو اور سوئیکارنو پاپولزم کی لکڑی سے بنی لمبی ٹانگوں پر چل کے مقبول ہوئے اور برسر اقتدار آئے تھے، پھر تینوں جب باری باری گرے تو اونچی نقلی ٹانگیں رکھنے کے سبب بہت زور سے گرے تھے، گرنے کی آواز گونجدار تھی اور صدائے باز گشت دیر تک سنائی دی جاتی رہی تھی۔

 مگر مغرب نے انہیں پاپولسٹ کی بجائے سوشلسٹ کہا تھا کیونکہ سرد جنگ کے عہد میں مغرب ہر مقبول عوامی رہنما کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے اسے مخالف کیمپ والے خون آشام تیز دانتوں والے عفریت کمیونزم کے چھوٹے مگر ویسے ہی خطرناک بھائی سوشلزم سے تعبیر کیا کرتا تھا۔

 پاپولزم ہے کیا؟ ایسے مسائل کو اٹھایا جانا جو لوگوں کے دل کو چھو لے اس لیے کہ وہ مسائل فی الواقعی موجود ہوتے ہیں مگر اہم بات یہ کہ ایسی بات نچلے یا غریب طبقوں کی بجائے درمیانے یا بالائی درمیانے طبقے پر اثر انداز بھی ہو رہی ہوتی ہے اور انہیں جلا بھی رہی ہوتی ہے کہ وہ ایسا کیوں نہ کر پائے یعنی بڑے پائے کی مالی بدعنوانی جسے عرف عام میں کرپشن کہا جاتا ہے۔

اگر حقیقت دیکھی جائے تو کلرک کی لی گئی رشوت، پولیس کا رقم اینٹھنا، ٹھیکیداروں کا ناقص مواد استعمال کرکے سرکاری تعمیرات کرنا خود بھی جیب بھرنا اور سرکاری افسروں و اہلکاروں کی جیبیں بھی گرم رکھنا، ڈاکٹر کا غیر مناسب معاوضہ، اس قسم کی تمام حرکات مالی بدعنوانی کے زمرے میں آئیں گی مگر پاپولزم میں مالی بدعنوانی سرکاری خزانے پر ڈاکہ ڈالنے کو کہا جائے گا۔ صبح سے شام تک حکومت وقت بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے ٹوتھ پیسٹ سے خوردنی تیل تا حتٰی مرغی کے گوشت اور دودھ تک کی خرید و فروخت پر جو عوام الناس کو لوٹ رہی ہوتی ہے اس کو کوئی بھی کرپشن نہیں کہے گا کیونکہ مقروض ملک اسی طرح عوام کو نچوڑ کر اگر قرض نہیں تو اس کا سود ادا کرنے کے پیسے جمع کرتا ہے۔

 پاپولزم کا اثر کیا ہوتا ہے؟ لوگ پاپولسٹ لیڈر کو مسیحا سمجھنے بلکہ ماننے لگ جاتے ہیں۔ اس پر تنقید کو اس کی توہین جان کر تنقید کرنے والے پر پل پڑتے ہیں۔ شروع شروع میں پاپولسٹ رہنما بہت دل کو لگنے والی باتیں کرتا ہے، معاملات درست کرنے سے متعلق چکنی چپڑی باتیں کرتا ہے جیسے اب برا نہ منائیے گا محض مثال ہے، موجودہ وزیراعظم نے فرمایا کہ وزیراعظم ہاؤس میں 542 ملازمین ہیں تو کیا ان سب کو بیروزگار کر دیا جائے گا؟ آپ کہیں گے کہ انہیں دوسری وزارتوں میں کھپا دیا جائے گا تو کیا فرق بڑے گا تنخواہیں تو ان کی دینی ہی پڑیں گی بلکہ وہاں جا کر وہ لوگوں کی جیبیں کاٹیں گے۔ ہاں یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ خدمات پر مامور سینکڑوں مالیوں، صفائی کرنے والوں والیوں اور اس قبیل کے لوگوں کو فارغ کیا جا سکتا ہے تو کیا وہ بیروزگار نہیں ہو جائیں گے؟ کیا اتنا بڑا وزیراعظم خالی پڑا رہے گا؟ آپ کہیں گے کہ نہیں اسے ریسرچ یونیورسٹی بنا دیں گی۔ نچلا عملہ پھر بھی اتنا ہی رکھنا پڑے گا کیونکہ رقبہ بھی وہی رہے گا اور روشوں و لانز کی اسی طرح دیکھ بھال کرنا پڑے گی۔ مستزاد یہ کہ غیر ضروری لوگوں کی موجودگی سے اس کے احاطے میں موجود وزیراعظم کے ” تین کمرے کے گھر جس کے ہم نے ڈرائنگ روم، پینٹری، لاؤنج وغیرہ نہیں گنے” میں وزیر اعظم کا رہنا غیر محفوظ ہو جائے گا تب ان کے لیے اور گھر لے لیں گے، ہے نا؟

ایک ڈاکٹر محض دس سال سے امریکہ میں رہ رہا ہے، اس نے وڈیو جاری کی جس میں کہا کہ میں آ رہا ہوں ڈالروں کی بوری لے کر۔ سوشل میڈیا نے وڈیو دکھانا شروع کر دی۔ کتنا کمایا ہوگا اس ڈاکٹر نے وہاں، گیو می اے بریک یار، ایک ملین کما لیے ہونگے۔ گھر جسے بیچنا چاہتا ہے مارگیج پر ہو گا۔ چلو ایک ملین لے آئے دو لے آئے تو کیا ہوگا؟ کیا امریکہ سے سارے پاکستانی ڈاکٹر قافلے کی صورت میں آ رہے ہیں؟ آ جائیں تو وہ کھپیں گے کہاں؟ ان کی استعداد کے مطابق ہسپتال کتنے ہیں۔

 اسی کو کہتے ہیں پاپولزم کہ دکھا دو خواب اور خواب کی تعبیر کا ایک کروڑواں پورا ہوتا لگے تو اسے کھینچ تان کے اور نہیں تو ہزار گنا بڑھا کے پیش کرو۔ لوگ اب احمق نہیں رہے۔ لوگ بہت جلدی خواب دیکھ لیتے ہیں مگر تعبیر پانے کو صبر سے کام نہیں لیتے۔ خود ہی مل کر لکڑی کی ٹانگوں پر کھڑے اپنے قد آور محبوب رہنما کی ٹانگوں سے لپٹ جاتے ہیں۔

 میری زندگی میں پہلی بار ہے کہ چھوٹا سرکاری عملہ عمران خان کو مسیحا جان رہا ہے اور بڑے افسر یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ” ہم تو ہیں ہی سرکاری ملازم ہمیں تو حمایت کرنی پڑتی ہے”۔ چھوٹا سرکاری عملہ کیوں حق میں ہے اور بڑے سرکاری افسر مجبوری کا اظہار کیوں کر رہے ہیں، میں اس سے کوئی نتیجہ نکال کر آپ کو مایوس یا ناراض نہیں کرنا چاہتا مگر یاد رکھیں کہ افسر شاہی کام نہ کرنے کے دس ہزار اور کروائے جانے والے کاموں میں اڑچنیں ڈلوانے کے لاکھ گر جانتی ہے۔ اپنی آئی پر آ جائے تو ان گروں کو آزماتی بھی ہے۔

 یہ سچ ہے کہ مجھے عمران خان میں “پرائم منسٹر سٹف” دکھائی نہیں دیتا، یہ میرا تعصب یا ذاتی رائے نہیں بلکہ پچھلے چند روز کی ان کی تمام حرکات و سکنات اس کی غماض ہیں۔ میں پھر بھی چاہتا ہوں کہ وہ “میں، میں، میں ” کے پاپولسٹ انداز سے گریز کرتے ہوئے کام کریں اور کروائیں مگر مجھے ڈر ہے کہ شاید ایسا نہ ہو پائے کیونکہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بہت ہیں۔ ان کی جاگنگ کی تصویر وائرل کر دی جسے دیکھ کر مجھے بش اور اوبامہ کی جاگنگ کی تصویریں یاد آ گئیں جو انہوں نے اپنی مقبولیت کم ہوتے دیکھ کر جاری کی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ خان صاحب نے یہ تصویر خود جاری نہیں کروائی۔۔۔ گڈ لک عمران خان وزیر اعظم پاکستان، گڈ لک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).