خاکے خاکیوں کے بنتے ہیں، نوریوں کے نہیں۔۔۔۔


سنہ 2006ء میں، میں پنجاب  یونیورسٹی لاہور کے نیو کیمپس میں کمیونیکیشن سٹڈیز کے شعبے میں ماسٹرز کی طالبہ تھی۔ اور انہی دنوں ایک بد بخت ڈینش اخبار نویس نے تقدسِ رسالت مآبؐ پر ناپاک حملے کی جسارت کرتے ہوئے نبئ رحمتؐ کے خاکوں کا مقابلہ منعقد کروایا اور یہ خاکے اس نے اپنے اخبارجیلنڈز پوسٹن میں شائع کروا دئیے۔ اس پر وہاں کے مقامی مسلمانوں نے احتجاج کرنا شروع کیا اور ہوتے ہوتے اس احتجاج کی لہر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایک طوفان تھا جو پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ اسی دوران عامر چیمہ شہید کا جوان لاشہ ڈنمارک سے پاکستان پہنچا تو یوں لگا کہ عہدِ نبویؐ کے صحابہء کرامؓ کے عشقِ رسولؐ کی چنگاری ہر پاکستانی کے دل میں بھڑک اٹھی ہو، ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل رو رہا تھا۔ وہ وقت آج بھی قرطاسِ ذہن پر ایک انمٹ نقش کے طور پر محفوظ ہے۔اس واقعے کے نتیجے میں جس احتجاج اور اشتعال کا مسلمانانِ عالم نے عالمی سطح پر مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہماری ایک ٹیچر تھیں محترمہ الزبتھ آئڈے، مذہباً عیسائی تھیں اور ناروے سے ان کا تعلق تھا۔ وہ اس احتجاج سے سخت پریشان تھیں اوراپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرتی تھیں۔ ان کے لئے ایک اہلِ کتاب ہونے کے باوجودمسلمانوں کے اپنے پیغمبرؐ کے لئے دلی جذبات اور احساسات ناقابلِ فہم تھے۔ وہ ہم طلبہ سے انتہائی حیرت سے پوچھا کرتیں کہ اگر دنیا کے آخری کونے میں کسی ملک کے ایک غیر معروف اخبار نے تمہارے نبیؐ کے خاکے شائع کئے ہیں تو اس سے تم لوگ کیوں مشتعل ہو رہے ہو۔۔۔۔ اور جب بھی ہم میں سے کوئی انہیں اپنے نبیؐ کے ساتھ اپنی قلبی نسبت کا احوال سنانے کی کوشش کرتا تو وہ یہ دیکھ کر مزید حیران ہوتیں کہ ہر طالبعلم کی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں۔

کیا ہے یہ تعلق جو ایک کلمہ گو کا اپنے ہادئ برحق، خدا کے مرسل، اپنے رہبر، اپنے رہنما، جان سے پیارے نبیؐ کی ذاتِ بابرکات سے ہے، شاید خود ہمارے لئے بھی ناقابلِ فہم ہے۔ یہی وہ تعلق ہے، یہی وہ رشتہ ہے، یہی وہ بنیاد ہے کہ جو دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کو باہم جوڑے ہوئے ہے۔ اور یہی وہ پیمانہ ہے جو میں سمجھتی ہوں کہ کسی بھی مومن کے ایمان کا درجہ ماپنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ جو مسلمان دل میں جس قدر عشق اور محبتِ رسولؐ کا جذبہ رکھتا ہے وہ اتنا ہی ایمان کی بلندیوں پر فائز ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم مسلمانوں کی اکثریت شاید اپنی ذات کی توہین تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن کہیں بھی، کوئی بھی خدانخواستہ ہماری جانِ ایمان نبئ برحقؐ کی ذات سے متعلق توہین کے بارے میں سوچ بھی لے تو یہ سوچ ہر مسلمان کی غیرتِ ایمانی پر تازیانے کی طرح لگتی ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر ایک خبر بہت زیادہ گردش کر رہی ہے کہ ایک ڈچ سیاستدان جو اسلام کی شدید ترین مخالف فریڈم پارٹی کا رکن ہے۔ اس پلید انسان گیرٹ ولڈرز نے دوبارہ یہی گستاخانہ جسارت کی ہے جس کا ارتکاب 2005ء میں ہوا تھا۔ وہ بار بار اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اعلان کر رہا ہے کہ وہ نومبر میں حضور نبئ اکرمؐ کے خاکوں کا مقابلہ منعقد کروائے گا۔ گزشتہ روز بھی اس نے اپنے ٹویٹر اکاوءنٹ پر ایک گستاخانہ خاکہ شائع کر کے پھر سے اعلان کیا ہے کہ ہم اس طرح کے خاکوں کے مقابلے کا انعقاد کروا رہے ہیں۔ اور اس پیغام میں اس نے پھر سے اپنا وہی آزادئ اظہارِ رائے کا راگ الاپا ہے۔ بجا کہ اظہارِ رائے کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی چاہے جس بھی طرح کی ہو اس کی اپنی کچھ نہ کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں، جن کا پاس کرنے میں ہی انسانی معاشرے کی بھلائی مضمر ہوتی ہے۔ غالباً شاعرِ حق ترجمان علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ

ہو فکر اگر خام تو آزادئ اظہار

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

سوشل میڈیا پر بہت دنوں سے مسلمان اس حوالے سے مسلسل احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ دو دن پہلے وطنِ عزیز پاکستان کی نو منتخب شدہ قومی اسمبلی نے پہلی قرارداد منظور کی۔ یہ قرارداد عامر لیاقت حسین نے پیش کی جس میں مسلمانوں کی اپنے نبیؐ سے لازوال عشق اور محبت کا اظہار کرنے کے بعد اس گستاخانہ عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ عامر لیاقت حسین سے لاکھ اختلافات اپنی جگہ لیکن جن الفاظ میں یہ قرارداد پیش کی گئی، سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔ گزشتہ روز پنجاب کی نو منتخب اسمبلی نے بھی یہی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے۔ یہ ایک وقت کا بہت اہم تقاضا تھا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس احتجاج کو اسمبلی کے ایوانوں سے نکال کر سفارتی سطح پر منتقل کیا جائے پاکستان کی نو منتخب حکومت براہِ راست ڈچ حکومت کے سامنے اس حساس معاملے پر بھرپور احتجاج ریکارڈ کروائے اور اس حوالے سے مسلم امہ کی سطح پرکوئی مشترکہ حکمتِ عملی اپنائی جائے مثلاً پوری مسلم امہ مشترکہ طور پر ڈچ مصنوعات کا بائیکاٹ کرے یا ہالینڈ سے سفارتی تعلقات منقطع کئے جائیں یا اسی طرح کی کوئی اور حکمتِ عملی اپنائی جائے جس کی بدولت ڈچ حکومت اس فعلِ قبیح کا انعقاد روک دے۔ اللّہ پاک ہم مسلمانوں کو ناموسِ رسالتؐ کا سچا پاسبان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).