ہندوستانی سماج پر سینما کے اثرات


فلموں کے سماج پر اثرات، بحث کا ایک پرانا موضوع ہے؛ بعضے الزام لگاتے ہیں کہ فلمیں معاشرے کو بگاڑ رہی ہیں، جب کہ فلم میکر اپنا دفاع یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ ہم وہی دکھا رہے ہیں جو سماج میں ہوتا ہے، یا جسے فلم بین پسند کرتا ہے۔ اس بحث کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، کیوں کہ دونوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ ہاں! بات اگر اثرات کی کریں تو وہ بہت تشویش ناک سطح تک پہنچ گئے ہیں۔ عمارتوں سے چھلانگ لگانے، کھیل کھیل میں ساتھی کو چوٹ پہنچانے سے آگے بڑھ کر فلم کے ذریعے ناظرین جرم کرنا سیکھ گئے ہیں، اور یہ ان کی ترغیب بن رہی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہندوستان میں فلم کے عہد طفولیت ہی میں ہمارے بزرگوں نے اس کے بھیانک اثرات کے پیش نظر اس سے محتاط رہنے کی تلقین کی تھی۔
1926 میں مہاتما گاندھی نے ”ینگ انڈیا“ میں سینما سے جڑے افراد کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا تھا، ”اس کا برا اثر روزانہ میرے اوپر پڑتا ہے؛ اس لیے میں فلم بنانے والوں سے کہوں گا، کہ وہ سماج کو پاک صاف اور سدھار کرنے کے لیے اس کا استعمال کریں“۔
1935 میں پریم چند ”ہنس“ میں لکھتے ہیں ”سینما اگر ہماری زندگی کو صحت مند لطف نہیں دے پاتا ہے، ہمیں بے حیائی و بے شرمی اور فتنہ پردازی کی طرف لے جاتا اور حیوانیت کو بڑھاوا دیتا ہے، تو جتنی جلدی اس کا نشان مٹ جائے، اتنا ہی بہتر ہے“۔
1965 میں ورنداون لال ورما نے بھی اسے محسوس کرتے ہوئے لکھا تھا، ”فلم کا اثر ناظرین و سامعین پر بہت جلد اور گہرا پڑتا ہے، گندی فلموں کی بہتات ہے، جو معاشرے کو زوال کی جانب لے جا رہی ہیں؛ اپنے تہذیب کی حفاظت اور ملک کے اونچے آدرشوں کو بچانے اور اوپر لانے کی سخت ضرورت ہے“۔ لیکن اس کے باوجود اتنے متاثر کن اثرات کو زائل کرنے کے لیے خاص اقدام یا سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
1896میں یورپ میں لومیر برادرز کی طرف سے کیے گئے سینما کے پہلے مظاہرے کے کچھ مہینوں بعد ہی سنیما ہندوستان میں بھی دیکھا جا سکا تھا۔ 1897 میں یہاں عملی طور پر فلم بنانے کی شروعات بھی ہو گئی تھی۔ 1913 میں دادا صاحب پھالکے نے یہاں اپنی فیچر فلم ”راجا ہریش چندر“ مکمل کی اور آج ہندوستان تقریبا 800 فلمیں ہر سال بنا کر دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔ہر طرح کی پریشانیوں، تنقید، شور، ہنگامہ اور احتجاج کے باوجود ہندوستان میں سینما کا اس مقام تک پہنچ پانا یقینا اس کی طاقت کا احساس کرنے کے لیے کافی ہے۔ سینما کے طاقت کی سب سے بڑی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ ہم ان چیزوں اور واقعات کو ویسے ہی دیکھتے ہیں، جیسا وہ ہے یا ہوا ہو، بل کہ ذہنی طور پر ہم بھی واقعات کے اندر ہوتے ہیں۔ اصل میں کسی بھی فلم کو دیکھنے کے دوران شائقین کی آنکھ اور کان کے ساتھ دماغ کی بھی شراکت ضروری ہوتی ہے۔ سینما کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ جتنا سامنے نظر آتا ہے، اتنی ہی تصویر ہمارے دماغ میں بھی بنتی ہے۔ ہم کسی اداکار کو پہاڑ پر چڑھتے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، کانوں سے اس کے پیروں کی آواز، کیلیں گاڑنے کی آواز، ارد گرد کے ماحول، جنگل جھرنے وغیرہ کو بھی نہ صرف دیکھتے ہیں، بل کہ محسوس کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ اصلی ہے، لیکن یہاں صرف ہمیں اس کا احساس کرایا جاتا ہے؛ سات دن کے حقیقی وقت میں پوری ہونے والی چڑھائی کو صرف سات شوٹ میں سات منٹ سے بھی کم وقت میں دکھا دیا جاتا ہے۔ باقی کی کمی ہمارا دماغ پوری کرتا ہے۔ اصل میں اداکار کو پہاڑی چڑھتے ہم محض دیکھتے ہی نہیں، اس کے ساتھ ہوتے ہیں، وہ بھی ذہنی طور پر، اور ظاہر ہے جب ہم ذہنی طور پر کہیں ہوتے ہیں تو ذہن زیادہ چاہے کم، مثبت یا منفی اثر ضرور قبول کرتا ہے۔ تبھی ’ولے بنےویل‘ نے مانا تھا کہ سینما ہمارے دماغ پر افیون جیسا اثر کرتا ہے۔ ذہنی طور پر اپنے آپ کو مناظر کے اندر محسوس کرانے کی صلاحیت ہی ہے جو سینما کو اس قدر جاذب نظر بناتی ہے کہ کروڑوں لوگ بغیر کسی فلمی زبان اور ٹیکنالوجی کی سمجھ کے ٹکٹ خریدتے ہیں؛ فلم دیکھتے ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق اسے سمجھتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ادب یا فن کو یہ سہولت مہیا نہیں ہے؛ ادب یا فن کا استعمال ہم تب تک نہیں کر سکتے، جب تک کہ ہماری اس کے قواعد گرفت یا پکڑ مضبوط نہ ہو۔ سینما نے اپنے لیے ایسی فطری زبان کا انتخاب کیا ہے جو عام انسان کے صرف مجازی صلاحیت کے اصول پر مبنی ہوتی ہے۔ اصل میں ہندوستانی ثقافت نے جب سینما کو معصوم بچوں اور نو عمروں کے لیے ضرورت تسلیم کیا تھا تو اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ اس وقت نام نہاد ’اچھی فلموں‘ کی بہتات تھی، اس کی صحیح وجہ اس وقت کے ہندوستانی سماج کی یہ واقعی ضرورت اور واجبی سمجھ تھی کہ سنیما کہیں نہ کہیں ہمارے سوچنے سمجھنے اور تصور کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ انھیں احساس تھا کہ ”پیراشوٹ“ کی پرواز بچوں کے دماغ کو اس قدر تیز بنا سکتی ہے کہ وہ اندھے کنویں میں بھی چھلانگ لگا سکتے ہیں؛ جب کہ ان کا آزاد ذہن ”پیراشوٹ“ سے بھی اونچی اڑان بھر سکتا ہے۔لیکن اسے المیہ ہی کہا جائے گا کہ ہمارے یہاں دل میں کوئی تصور جنم لیتا ہے یا کچھ کرنے کی امید جاگتی ہے تو ہم اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کے علاوہ اسے دلیلوں پر تولنے لگ جاتے ہیں؛ جب کہ سامنے شرمندہ تعبیر ہوتے ”سچ“ کو دیکھ ہمیں دلیل کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
 ہم میں سے کتنے ہوں گے، جنھوں نے سینما دیکھنے کے لیے کبھی نہ کبھی ڈانٹ نہ کھائی ہو، یا مار نہ سہی ہو؛ تمام تر پابندیوں کے باوجود یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ سینما عام انسانوں کے تفریح کا سب سے محبوب اور موثر ذریعہ ہے۔ ہندوستان ہی میں نہیں، دنیا بھر میں پاکستان، ایران، سری لنکا سے لے کر کے انگلینڈ، امریکا، جاپان تک؛ حتی کہ مورکو اور طالبانیوں کو اپنی انقلابی خیالات و افکار کے تشہیر کے لیے سینما کی راہ اپنانا پڑی؛ اور تو اور معروف زمانہ ’ڈیوڈ دھون‘ کو اپنی حرکتوں سے شائقین کو خوش کر کے پیسے اینٹھنے کے لیے بھی سینما ہی سجھائی دیا۔ صورت احوال آج یہاں تک پہنچ چکی ہے، کی سینما بازاروں اور تھیٹروں سے ہوتے ہوئے ہمارے گھر کے اندر داخل ہو چکا ہے۔ ہم اسے دیکھیں یا نہیں، یہ بھی اب ہماری خواہش پر منحصر نہیں ہے۔ سیکڑوں چینلوں نے اس کو لے کر کے جہاں دھوم مچا رکھی ہے، وہیں نیوز چینلوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ محض ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے یاریت میں سر چھپا کر طوفان کو روکا جانا ممکن نہیں ہے۔ آج ٹیلی ویژن کی توسیع نے پورے ہندوستانیوں کے اذہان و قلوب کو مفلوج اور تذبذب کا شکار بنا دیا ہے۔
سنیما کی ثقافت اب صرف کپڑے کی بناوٹ اور بالوں کی سجاوٹ ہی کو متا ثر نہیں کر رہی، بلکہ اس نے سماجی اقدار کو بھی درہم برہم کر دیا ہے۔ سماجی مسائل کو فلم نے اپنے مسلسل اثرات سے اتنی کم اہمیت کی شئے بنا دیا ہے کہ تشدد، جرائم، زنا، عصمت دری، خودکشی اور اس طرح کا کوئی اور منظر اب ہمیں بے چین نہیں کر پاتا۔
سینما کے اس اثر کو سمجھتے ہوئے مغربی ممالک نے 50 کی دہائی ہی میں فلم مطالعے پر سنجیدگی سے غور و خوض کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسی وقت سے ان ممالک میں ریسرچ اسکالر اور ماہرین نفسیات کے لیے یہ تشویش کا موضوع تھا کہ بچے جتنا وقت اسکول میں گزارتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ٹیلی ویژن کے سامنے؛ اس لئے اس کا کوئی حل تلاش کیا جانا چاہیے اور انھوں نے اپنے اسی مطالعے کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا، کہ دو سال کی عمر ہی سے جب بچے مادری زبان سیکھنے کی ابتدا کرتے ہیں، ٹیلی ویژن اور فلم جیسے مناظر سے پیغام قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ دو تین سال کے بچے کا کارٹون نیٹ ورک کے آگے خاموش پڑے رہنا کوئی اتفاق نہیں، بلکہ ہمیں یہ قبول کرنا چاہیے کہ بچہ اسے دیکھ اور محسوس کر رہا ہوتا ہے۔

سینما آج ہماری طرز زندگی میں رچ بس گیا ہے۔ کھانا کھانا، آفس جانا، اسکول جانا اور اسی طرح دوسری ضروریات کی طرح ہم نے اس کو بھی اپنی زندگیوں میں شامل کر لیا ہے۔ اس کے باوجود فلم بینی کا انتخاب ہمارے نزدیک کوئی موضوع ہی نہیں رہا؛ یہاں تک کہ ذہن و فکر کو پراگندہ کر دینے والی فلمیں بھی ہم اپنے بچوں کے ساتھ دیکھنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ فلم دیکھتے ہوئے بچے کسی گالی کا مطلب ہم سے پوچھتے ہیں، تو ہم مسکرا کر جواب دیتے ہوئے بھی نہیں شرماتے۔ نام نہاد جدیدیت کی طرف گام زن ہندوستانی معاشرے کی یہ بد قسمتی ہے، کہ یہ مسلسل سمٹتا جا رہا ہے۔ بے شک اصلی خاندان اور معاشرے سے ہوتی دوری کو سماج سے پاٹنے کی اس مجازی دنیا کے پاس مجبوری ہوتی ہے، اور سماج کو اس کے لیے کچھ نہ کچھ چاہیے اور اس ’چاہیے‘ کے لیے متبادل اسے سینما سے ملا؛ یہ ’مجازی دنیا‘ سماج کی خاصیت تھی، یہ اس کے مطالبے پر دست یاب تھا۔ جب بھی تن تنہائی یا اکیلا پن محسوس ہو، چلو سینما، ایک خوش گوار بھرے پورے ماحول سے مطمئن لوٹ کر پھر لگ گئے اپنے روز کے جددوجہد میں۔ شاید اسی لیے سینما دیکھنا جو پہلے سال چھہ مہینے کا تہوار ہوتا تھا، اب ہفتے بلکہ روزانہ کا شغل بن گیا ہے۔
یہ بھی غور طلب ہے کہ گاوں، قصبوں، شہروں، محلوں میں جیسے جیسے خاندانی عناصر چھوٹی ہوتی گئیں اس شغل کی تبدیلی بڑھتی گئیں۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کی اس شغل نے سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کیا، کیوں کہ پورے خاندان میں سب سے اکیلا اور تن تنہا وہی تھا۔ تعجب کی بات نہیں کہ خاندان کے اس رویے سے فلم کے انتخاب کا فیصلہ دھیرے دھیرے بچوں کے ہاتھوں میں سمٹتا چلا گیا۔ انھیں مطلب سینما سے نہیں، بس سینما گھر کی رونق اور سینما کے پردے تک رسائی ’مجازی دنیا‘ سے تھا۔ اور حقیقت میں سرپرستوں کے لیے انھیں بھرے پورے سماج سے کاٹنے کا، یہ ایک پیش خیمہ تھا، اور یہ پیش خیمہ کس طرح ان کی سمجھ کو اپنی دنیا کے تئیں غیر ذمہ دارانہ اور مطلب پرستانہ بنا دیا، اس پر کچھ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
آج اس حالت میں جب کہ سنیما کے اثرات کو روکا نہیں جا سکتا، بہتر یہی ہے کہ لوگوں کو سینما دیکھنے سے روکنے کے بجائے اسے سینما دیکھنا سکھائیں۔ سکھانے کا مطلب ہے باقاعدہ فلم مطالعہ، اس باقاعدہ مطالعہ کا مطلب دماغ کو ایسے ذرائع سے لیس کیا جانا ہے کہ وہ علم کی مخفی دنیا کو سمجھ سکیں؛ کیوں کہ کسی بھی موضوع کو ایک شخص اپنی سمجھ سے ایک حد تک ہی سمجھ سکتا ہے۔ سینما تو فن کا سب سے پے چیدہ ذریعہ ہے، جس میں ادب بھی ہے، فن بھی، سائنس بھی اور ٹیکنالوجی بھی۔ سینما پر ہر نقطہ نظر سے غور و خوض اور مطالعے کی ضرورت ہے۔ ایک باضابطہ فن کے طور پر، ایک مقبول عوامی تفریح کے طور پر، معلومات اور سماجی اقدار کو بدلنے والے ذرائع کے طور پر، ثقافتی ماحول کی تعمیر کرنے والے ایک ایجنسی کے طور پر، جس میں تعمیری اور مثبت طرز فکر کا خیال رکھا گیا ہو یقینا اگر اسے اس طور سے برتا گیا اورباقاعدہ مطالعہ کے ذریعے کوئی لائحہ عمل بنانے کی کوشش کی گئی، تو یہ صرف فلم ہی کی نہیں، پورے ثقافتی ماحول کے لیے کار آمد اور ممد و معاون ثابت ہو گا۔
یہاں پر یہ بات بھی گوش گزار کر دینے کی ہے کہ 1980 میں ’نیشنل فلم پالیسی‘ کمیٹی کی طرف سے فلم مطالعے کو قومی تعلیمی نظام میں اور کالج یونیورسٹی کی سطح پر رسمی تعلیم میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ہندوستان کی حکومت نے سفارش قبول کرتے ہوئے یو جی سی اور این سی ای آر ٹی کو فلم مطالعے کی سمت میں ضروری اقدام اٹھانے کی ہدایت بھی جاری کی تھی۔لیکن آج بھی دور درشن کے پروگراموں میں ”انڈر اسٹینڈنگ“ کی ایک سیریز نشر کرنے اور یونیورسٹیوں میں تحقیق اور تدوین کی سطح پر اسے محض ایک موضوع کے طور پر قبول کر لینے کے، فلم کا مطالعہ جوں کا توں برقرار ہے ۔آج ایک اور ثقافت کو حاشیہ پر ڈال دینے کی نہیں بلکہ نفرت کرنے کی سیاسی دباو، ثقافت کو یونیفارم بنانے کا دباو اور تیسری طرف عالمی ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش سے خبردار ہونے کا ہے۔
اگر ابھی سینما پر ہم نے اپنا کنٹرول نہیں کیا، تو پلوں سے پانی کے گزر جانے کے بعد پھر آگے کتنا بھی سر پھٹول کر لیں خاطر خواہ نتیجہ ہاتھ نہیں آ سکتا۔ اس کے لیے ایک بار پھر سے نیشنل فلم پالیسی 1980 کو یاد کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ سینما کے تئیں بچپن ہی سے ایک صحیح سمجھ پروان چڑھ سکے۔ یہ ایک دن کی کوششوں سے نہیں ہو سکتا، مسلسل اور باقاعدہ مطالعے ہی سے صحیح اور غلط سنیما کی سمجھ کو عام کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ اب کسی بھی صورت میں لوگوں کو سینما دیکھنے پر روک یا پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ ہاں! اس بات کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ ایک صحت مند ناقدانہ ذہنیت کے ساتھ سینما کو سینما کی طرح دیکھا اور قبول کیا جائے۔ اس کے لیے عامیوں کے علاوہ حکومت اور پڑھے لکھے طبقہ اشراف کو بھی آگے آنا ہو گا۔
محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah