سکول بیگ میں شراب اور چشتیاں کے ٹھگ


مجھے دو دن پہلے اسلام آباد سے ایک پی ٹی سی ایل نمبر سے کال آئی میں حیران ہوا کہ صاحب جی کا فون؟ پھر دماغ میں چند الفاظ جمع کیے یاد کیا کہ آخری بار جب ہماری بات ہوئی تھی تو کیا کیا مسائل زیر بحث رہے تھے۔ لمحہ بھر کو سوچا کہ اب میں نے اپنے صاحب جی سے کیا بات کرنی ہے کیا کہنا ہے۔ کیوں کہ جب میں اپنے صاحب جی سے بات کرتا ہوں تو مجھے دماغی طور پہ حاضر رہنا پڑتا ہے۔

خیر میں نے کال اٹینڈ کی سامنے سے ایک مرد گویا ہوا۔ آپ نوید صاحب بول رہے ہیں؟ میں سمجھا شاید میرے صاحب جی کا آپریٹر ہوگا۔ لیکن پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا مجھے جب بھی صاحب جی نے فون کیا خود کیا۔ آپریٹر کی خدمات کبھی نہیں لیں۔ پھر آج یہ کون ہے؟ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا وہ بندہ کمپیوٹر کی طرح ایک مخصوص انداز میں مسلسل بولنے لگا نوید صاحب میں موبی لنک ہیڈآفس اسلام آباد سے نمائندہ فخر آپ سے مخاطب ہوں۔ آپ کو مبارک ہو۔ آپ موبی کیش اکاونٹ استعمال کرنے اور اس میں رقم رکھنے پہ بذریعہ قرعہ اندازی سال بھر کے لیے تھری جی انٹر نیٹ بنڈل تمام ملکی نیٹ ورکس پہ مفت کال اور میسج پیکج بشمول پندرہ لاکھ روپے نقد کا انعام جیت چکے ہیں۔ موبی لنک کی طرف سے آپ کو بہت بہت مبارک۔ آپ کو بس ذرا سی معلومات ہمارے ساتھ شئیر کرنی ہیں اورآپ کو میرے بتائے گئے طریقے کے مطابق کچھ کوڈز اپنے موبائل پہ ڈائل کرنے ہیں۔ ذرا سے تعاون سے آپ اپنا جیتا ہوا تمام پیکج بالکل فری حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ ایک تسلسل سے بول رہا تھا۔

میں نے صرف اتنا کہا کہ سر میں نے تو پچھلے چھ ماہ سے اپنا موبی کیش اکاونٹ کبھی استعمال ہی نہیں کیا نہ کوئی ٹرانزکشن کی ہے نہ ہی اس میں کوئی رقم رکھی ہے۔ تو پھر انعام کیسا؟ تو وہ فوراً فون بند کر گیا۔ پھر مجھے ہیڈ اسلام سے شمالی شرقی غربی۔ دس فورڈ واہ۔ ڈھونڈ پور۔ کٹاریاں اور بخشن خاں کے علاقے سے تحصیل چشتیاں تک پھیلے ٹھگ یاد آئے جن کی کارروائیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اگر آپ تھانہ بخشن خاں یا تھانہ صدر حاصل پور کے رجسٹر اندراج مقدمہ اٹھا کر دیکھیں تو ان ٹھگوں کے خلاف درج کیے گئے سینکڑوں مقدمات ملیں گے۔

ضلع بہاولپور سے اگر آپ کبھی بہاولنگر کی طرف براستہ سڑک سفر کریں تو تحصیل حاصلپور سے نکلتے ہی چند کلو میٹر کے فاصلے پر چیک پوسٹ کٹاریاں سے ضلع بہاول نگر کی تحصیل چشتیاں شریف کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ حاصل پور سے چشتیاں کوئی لگ بھگ تیس کلو میٹر کا سرسبز شاداب علاقہ اپنی بہت سی خصوصیات کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں کے لوگ سادہ لوح بہادر اور سخت محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ دشمنی پرست بھی ہیں۔ یہ علاقہ خاندانی دشمنیوں کی بھینٹ چڑھ گیا جس وجہ سے یہاں کوئی خاص ترقی دیکھنے میں نہیں آتی اور یہاں اس علاقے کے سرکردہ لوگ بھڈیرے، وڈیرے، جوئیے، خان، سیاسی سماجی شخصیات مختلف مقدمات کی نذر ہو چکے ہیں۔

چیک پوسٹ کٹاریاں وہ مقام ہے جہاں قیدیوں سے بھری وین مع پولیس ملازمان گولیوں سے چھلنی کردی گئی گئی تھی۔ قیدیوں اور پولیس ملازمان کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا گیا تھا۔ چند ماہ قبل اسی علاقہ میں تھانہ بخشن خاں میں تعینات سب انسپکٹر نواز بگا کو شہید کر دیا گیا۔ اڈا بخشن خاں کے بالکل ساتھ ایک گاؤں 94 پٹھانوں والا کی بھی اپنی ایک الگ پہچان لیے ہے۔ جی ٹی روڈ سے شمال کی طرف ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں۔ ان بستیوں میں خانہ بدوش رہائش پذیر ہیں۔

تھوڑا مزید آگے جائیں تو وہ دیہات شروع ہو جاتے ہیں جو اپنی ایک مخصوص اور منفرد خوبی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جو کبھی خان وڈیروں اور سرداروں کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ مگر آج یہاں بسنے والے ٹھگ اس علاقے کی پہچان ہیں۔ ان ٹھگوں کی وجہ سے علاقہ کی پولیس نے جگہ جگہ اشتہار اور بینرز لگا رکھے ہیں جن پہ صاف صاف لکھا ہے۔ ”خبردار ٹھگوں سے ہوشیار رہیں “۔ اس علاقے میں رہنے والے ٹھگ صرف بھولے بھالے لوگوں کو ہی نہیں لوٹتے بلکہ ان ٹھگوں کا نشانہ زیادہ تر امیر لوگ یا مختلف محکموں سے ریٹائرڈ افسران ہوتے ہیں۔

یہ ٹھگ مکمل طور پہ غیر تعلیم یافتہ اور ان پڑھ ہیں مگر کسی سیانے نے کیا خوب کہا تھا ” جب تک لالچی زندہ ہیں ٹھگ بھوکے نہیں مر سکتے “۔ یہ ٹھگ اس سلیقے اور مہارت سے لالچی اور رئیس حضرات کو لوٹتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں لٹنے والے شرفاء کسی کو بتاتے تک نہیں اگر پولیس تک چلے بھی جائیں تو چھوٹا موٹا جعلسازی کاقابل ضمانت مقدمہ درج ہوتا ہے جس میں پہلی دوسری پیشی پہ ضمانت ہو جاتی ہے۔

یہ ٹھگ یا تو آپ کے گھر زمین یا رقبہ پر کسی موبائل کمپنی کا ٹاور لگانے کا جھانسہ دے کر شکار کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں یا نوٹ بنانے والی مشین آپ کو بیچتے ہیں۔ یا پاکستان کی مشہور کمپنیوں جیسے تیل گھی وائیٹل کوک پیپسی گورمے نمکو بسکٹ چپس وغیرہ کی ایجنسی آپ کو سستے اور آسان طریقوں سے الاٹ کرتے ہیں۔ جیسے جیسے زمانہ جدید سے جدید تر ہوتا جا رہا ہے نت نئی نئی ٹیکنالوجیز متعارف ہو رہی ہیں یہ ٹھگ بھی اپنی واردات کے انداز بدل رہے ہیں۔ کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کا جھانسہ دیکر۔ کبھی موبائل کمپنیز کی طرف سے نقد انعامات کی برسات۔ کبھی جیتو پاکستان میں لاکھوں کے انعامات نکلنے کی خوشخبری دے کر لالچی لوگوں کو شکار کرتے اور لوٹتے ہیں۔

اب یہ ٹھگ چشتیاں کے اس علاقے سے نکل کر ملک کے دیگر شہروں میں قدم جما چکے ہیں۔ یہی نہیں یہ سادہ لوہ ٹھگ دبئی، سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، جیسی عرب ریاستوں میں جاکر پُٹھی لگانے کا کام کرتے اور ریال دینار درہم کماتے ہیں۔ پُٹھی بھی ٹھگی کی ایک قسم ہے جس میں بڑی بڑی مارکیٹس اور شاپنگ پلازوں میں خریداری کی غرض سے جا کر یہ ٹھگ دکانداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے اور انھیں بے وقوف بنا کر پیسہ کماتے ہیں۔ اگر کبھی آپ کو ان ٹھگوں کی کچی پکی بستیوں میں جانے کا اتفاق ہو تو آپ دیکھیں گے کہ دور دورتک کوئی سکول نہیں بچوں کو سکول بھیجنے کا رواج نہیں اگر کہیں کوئی پرائمری ٹوٹی پھوٹی دیواروں والا سکول ہے تو اس میں اساتذہ کی حاضری کا تناسب انتہائی کم ہے بچوں کی تعداد قابل افسوس حد تک کم ہے۔

جب میں حاصل پور ایلیٹ فورس میں تعینات تھا تو میں نے ایک ایسے مکروہ شخص کو بھی دیکھا جو بلا نمبری موٹر سائیکل پہ اپنے ساتھ سکول بیگ پہنے سات آٹھ سال کے بچے کو بٹھائے ہوئے تھا۔ اس سکول بیگ میں کتابوں کی جگہ دیسی شراب کی تھیلیاں بھری تھیں اور وہ بندہ سپلائی دینے جا رہا تھا۔ اس آبادی کے نڈر بچے دریا سے سرکاری مچھلی چوری پکڑ کر بیچنے سے جرائم کی ابتداء کرتے اور گناہ کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور پھر ٹھگی چوری شراب فروشی جیسے گناہوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں اور ان جرائم کو بطور پیشہ اپنا لیتے ہیں۔ اور کبھی نہ ختم ہونے والی تاریکیوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).