کیرالہ میں ”عورتوں کی وجہ سے“ بدترین سیلاب


میں نے بھارتی سیاست و ثقافت کو جس قدر جانا میڈیا کے ذریعے جانا۔ کیمرے کی آنکھ سے بھارت کو دیکھتے ہوئے میں اکثر اپنے اندر الجھتی رہی، سوالوں کی گرہیں کھولنے کے چکر میں گھن چکر بنی رہی۔ ہونٹ بھینچے عجب مخمصوں میں گرفتار رہی۔ خدایا! کس پر اعتبار کروں؟ بولی وڈ کی فلموں اور بھارتی ٹی وی چینلوں کے ڈراموں میں دکھائی جانے والی چمکتی دنیا کو انڈیا جانوں یا بین الاقوامی اخبارات میں بھارت کے دکھائے جانے والے سطحی چہرے کو سچ مانوں۔ کافی تحقیق کے بعد رفتہ رفتہ مجھے یہ یقین ہوتا گیا کہ انڈیا کا معاشرہ تضادات سے بھرا ہوا معاشرہ ہے اور اصلی انڈیا مودی کے شائننگ انڈیا سے یک سر مختلف ہے۔ بھارتی ریاست کیرالہ میں رواں ماہ آنے والے تباہ کن سیلاب اور اس پر بھارتی معاشرے کے رد عمل نے میری سوچوں کو ایک مضبوط خول فراہم کردیا۔

کیرالہ میں سیلاب

کیرالہ میں سن 1924کے بعد سے اب تک آنے والے نناوے سیلابوں میں یہ بدترین سیلاب ہے۔ اب تک سیلابی پانی کی بھینٹ چار سو جانیں چڑھ چکی ہیں جب کہ آٹھ لاکھ لوگ بے گھر ہیں۔ دس ہزار مکانات سیلابی ریلے میں بہہ گئے اور چھبیس ہزار تباہ ہوگئے۔ سیلابی ریلوں نے تاحال کیرالہ کو الوداع نہیں کہا ہے۔ تباہی اتنی زیادہ ہے کہ دنیا چاہے بھی تو نظرانداز کر نہیں سکتی۔ سانحے کی تفصیلات کھنگالتے کھنگالتے بھارتی ہندوؤں کی اکثریت کے ایسے ایسے رویے اور بیانات میری نظروں سے گزرے جو نہ صرف انتہائی شرم ناک ہیں بلکہ کسی ایسے معاشرے کو زیب ہی نہیں دیتے جہاں شرح تعلیم 74 فی صد سے بھی تجاوز کرچکی ہو۔

جی ہاں! بھارت میں شرح تعلیم تو اچھی خاصی بلند ہے لیکن عام فرد کے گرتے ہوئے شعور کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس اندوہ ناک قدرتی آفت کا ذمے دار عورتوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یہ پڑھ کر پہلے تو مجھے حیرت کا جھٹکا لگا لیکن بعد میں اپنی ہی حیرت پر حیرانی ہوئی کہ جس بھارت میں عورتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیرانسانی سلوک کا عالم یہ ہوکہ ہر دس سال میں آٹھ ملین بچیوں کو ماں کے پیٹ میں مار دیا جاتا ہو، ہر گھنٹے میں ایک عورت جہیز نہ لانے پر سسرال والوں کے ہاتھوں اپنی جان گنواتی ہو، ہر ایک گھنٹے میں چار عورتیں ریپ اور گینگ ریپ کا شکار ہوتی ہوں، جہاں نابالغ بچیوں کی شادی کی شرح دنیا میں سب سے بلند ہو، ایسے معاشرے میں اگر عورت کے ”نحس وجود‘‘ کو سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی وجہ بھی قرار دے دیا جائے تو حیرت کس بات کی؟

کہانی کچھ یوں ہے کہ کیرالہ کے مغربی گھاٹ کی ایک پہاڑی پر سبریمالہ مندر قائم ہے۔ یہ مندر ہر سال نومبر سے جنوری تک عقیدت مندوں کے لیے کُھلتا ہے۔ مکہ مکرمہ کے بعد اس مندر میں دنیا کا دوسرا بڑا مذہبی اجتماع منعقد ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے زائرین آتے ہیں۔ 1991 میں کیرالہ ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ دیا جس کی رو سے دس سے پچاس سال کی درمیانی عمر کی عورتوں کے لیے مندر میں جانے کی ممانعت کردی گئی۔ وجہ یہ قرار دی کہ اس عمر میں عورتیں ذاتی پاکیزگی برقرار نہیں رکھ سکتیں، اس لیے بھگوان کی ناراضگی کا سبب بنتی ہیں، لہٰذا ان کو مندر سے دور رہنا چاہیے۔ اس معاملے کا نوٹس بھارتی سپریم کورٹ نے لیا اور طویل مقدمے کے بعد فیصلہ ہندو عورتوں کے حق میں دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں نجی مندر کا کوئی اصول ہی نہیں۔ یہ عوامی ملکیت ہے اور عوامی ملکیت میں جب مرد داخل ہو سکتے ہیں تو عورتوں کو بھی نہیں روکا جا سکتا۔

فیصلے سے عورتوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی لیکن بدقسمتی سے ابھی خوشی صحیح سے منا بھی نہ پائی تھیں کہ اگست میں (سپریم کورٹ کے فیصلے کے تقریباً مہینے بعد) کیرالہ بد ترین سیلاب میں ڈوب گیا۔

دنیا کے ہر توہم پرست معاشرے میں قدرتی آفات کی کوئی نہ کوئی انسانی خطا ضرور تلاش کرلی جاتی ہے اور سائنسی عوامل کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ یہی کیرالہ میں ہوا۔ اس سال 257 فی صد زیادہ بارش ہونے کے سبب ریاست کیرالہ میں موجود انتالیس میں سے پینتیس ڈیموں کے دہانے کھول دیے گئے تو ایک بد ترین تباہی نے ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہندو توہم پرستوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر سر پیٹنے کے بجائے شور مچادیا کہ اس آفت کا ذمے دار سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے جس میں عورتوں کو سبریمالہ مندر میں جانے کی اجازت دی گئی ہے اور یہ کہ دیوتا عورتوں کے مندر جانے کے فیصلے پر بہت ناراض ہیں اور انہوں نے سزا کے طور پر کیرالہ کو ڈبو دیا ہے، اب بھی وقت ہے کہ اپنے فیصلے کو واپس لے کر بھگوان کو راضی کیا جائے، بھگوان مندر میں عورتوں کا وجود دیکھنا نہیں چاہتا۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ بھارتی معاشرہ صرف تضادات کا معاشرہ ہے۔ 2001 میں بھارتی ریاست گجرات میں آنے والے زلزلے پر کرناٹک کے سول ایوی ایشن منسٹر نے اس سانحے کو قدرتی آفت قرار دینے کے بجائے کہا کہ ’یہ بھگوان کی طرف سے نازل کردہ عذاب ہے کیوں کہ گجرات میں ہندوؤں کے ہاتھوں عیسائیوں کے قتل عام پر دیوتا ناراض ہے۔ ‘ بس جناب! یوں سمجھیے کہ اس بیان کے بعد ایک اور زلزلہ آگیا۔

کیرالہ میں سیلاب

اب بھارتی معاشرے نے فوراً توہم پرستی کا چولا اتارا اور زلزلے کے سارے سائنسی عوامل تلاش کر ڈالے، اور شائننگ انڈیا میں وزیر موصوف کو توہم پرستی کی یہ سزا دی کہ ان سے کھڑے کھڑے استعفٰی لے کر گھر بھیج دیا گیا۔ اب کیرالہ کی بدقسمتی عروج پر ہے۔ مذہبی طبقہ اس تباہی کی آڑ میں کھل کر اپنا کھیل رہا ہے۔ یہاں زیادہ تر آبادی مسلمانوں اور عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ بھارت میں سوشل میڈیا پر ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے باقاعدہ مہمات چلائی جا رہی ہیں کہ ’کیرالہ کو اس آفت سے نمٹنے کے لیے کوئی بھی ریلیف فنڈ دینا بے کار ہے، یہاں جو لوگ ڈوب رہے ہیں وہ ہم میں سے نہیں، ان کا مرجانا ہی اچھا ہے۔ ‘

ان سب بیانات کو پڑھتے ہوئے میں سوچ رہی ہوں کہ بھارتی مثالی جمہوری اقدار پر ہنسوں یا روؤں؟ مذہبی بساط پر کھیلا جانے والا یہ سیاسی کھیل انسانیت سے عاری ہے۔ میں جب جب تصور کی آنکھ میں ساڑھے تین ہزار کیمپوں میں آٹھ لاکھ کیرالوی پناہ گزینوں کو ٹھنسا ہوا دیکھتی ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حاملہ عورتوں اور بچوں کو ہیلی کاپٹر سے لٹکا دیکھ کر آنکھوں سے آنسو رواں ہو رہے ہیں۔ کیرالہ کے مناظر دیکھ کر لگ رہا ہے کہ جیسے یہ قدرتی آفت کا شکار نہیں بلکہ کوئی جنگی خطہ ہے۔ کیرالہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے اکثریت میں ہونے کی وجہ سے وہاں جو مذہبی اور سیاسی کھیل شروع ہوا ہے اسے دیکھ کر اگر میں یہ کہوں کہ کیرالہ میں آنے والا سیلاب قدرتی نہیں بلکہ ہندوتوا سماج کی تشکیل کا ایک اور بڑا قدم ہے، تو کیا میں غلط ہوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).