چت چور کی کامنا اور من کا چور۔۔۔  


میٹھا رس زہر کیسے بن جاتا ہے؟ ۔۔۔ بہار کی بارش میں، لڑکپن سے مہکتی ہوئی، وہ تھی ۔۔۔ اور ۔۔۔وہ کالج میں سالِ اول کی طالبہ تھی، میں گریجوایشن کر رہا تھا، اور ہر شام اسے ٹیوشن پڑھانے آتا تھا۔ رفتہ رفتہ میں نے کچھ ایسا محسوس کیا، جیسے وہ مجھے عام نگاہوں سے نہیں دیکھتی، ممکن ہے، میں اُس کی باتوں کے گُنجل کی وضاحت نہ کرسکوں، اس کی نیم کش نظروں کو بیان نہ کرسکوں، کیوں کہ یہ سچ ہے، کہ چور دروازہ کہیں اندر کی طرف کھُلتا ہے۔

سر! آپ کو بارش کیسی لگتی ہے؟

بارش؟ ۔۔۔ ہاں اچھی ہے ۔۔۔ ٹھیک ہے۔

ٹھیک ہے! ۔۔۔ بس؟

تو اور کیا؟

سر میرا جی چاہتا ہے، بارش ہو، تو میں اوپر ہی اوپر ۔۔۔ آسمان میں کہیں ۔۔۔ اُڑتے ہوے، آخری حد تک چلی جاوں۔

ہممم ۔۔ پھر؟

پھر کیا! بس ایسا دل چاہتا ہے، آپ کا دل نہیں چاہتا؟

نہیں، میرا دل نہیں چاہتا۔

وہ مُسکراتے ہوے میرے دل میں جھانکنے لگی۔ میں نے پلکیں جھُکا لیں، دل کی کھڑکی آنکھیں ہی تو ہیں۔

سر آپ کچھ چھُپا رہے ہیں!

تم پڑھائ میں توجہ دو، ان فضول باتوں سے مطلب؟

میں تھوڑا تلخ ہو گیا، اس لیے کہ وہ سچ سمجھی تھی، میں واقعی کچھ چھُپا رہا تھا۔ بارش کا دھُندلکے سے ربط ہے، اور دھُند میں اسرار ہوتا ہے، اور اسرار میں دل کشی ہے؛اور اسرار کے دروازے ہوتے ہیں، ڈھُونڈنے پڑتے ہیں۔

آج پڑھنے کو من نہیں کر رہا۔ اس نے گویا اداسی سے انگڑائ لی، اور اُٹھ کر کھڑکی کے قریب چلی گئی۔ دیکھیے سر کتنے مزے کی بارش ہورہی ہے۔ یہ کہ کر اُس نے اپنے بازو کھڑکی سے باہر نکال دیئے، جیسے اُڑان بھرنے کا ارادہ ہو۔ بُوندیں اُس کی چکنی جلد کو چُومتی، پھسلتی زمین میں دفن ہوتی رہیں۔

بھیگو مت بیمار پڑ جاؤ گی۔

وہ کھِل کھِلاتے ہوئے پلٹ آئی۔

سر آپ اتنے بزرگ نہیں، جتنا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

تم نے آج پڑھنا نہیں؟

نہیں سر، آج نہیں۔

تو پھر میں چلتا ہوں۔ میں اُٹھ گیا۔

بیٹھیے نا سر ۔۔۔ ہر وقت اصول قاعدوں میں بندھے رہنے سے آدمی بے کار ہوجاتا ہے، مشین بن جاتا ہے۔

تو؟

آدمی کو آدمی رہنا چاہیے۔ نہیں؟!

میں غیر ارادی طور پر مسکرایا، اور اپنی نشسست پر بیٹھ گیا۔ امیر گھرانے کی لڑکی تھی، اور کچھ نہ ہو، تو ان کا اعتماد دیکھنے لائق ہوتا ہے؛ ہم متوسط طبقے کے افراد اظہار میں بہت بودے ہوتے ہیں۔

اگر آپ ماینڈ نہ کریں، تو بتایئے مُحَبت کیا ہوتی ہے؟

کیسی باتیں پوچھ رہی ہو؟ میں نے اپنی پیشانی سے غیر مرئی پسینہ صاف کیا۔

بُری بات تو نہیں، استاد ہی سے پوچھا ہے!

میں کہنا چاہتا تھا، اے ننھی پری، جو دُکھ تم نے دیکھے نہیں (اور خدا چاہے، کہ نہ دیکھو) میں تُمھیں کیسے سمجھا سکتا ہوں؟ اے خُوش رنگ تتلی، تمھارے پروں کے رنگ ابھی کچے ہیں، بہار آئی ہے، تو انھی کے رنگ لے لو، انھی کو رنگ دے دو، میری بارشوں میں مت بھیگو۔

میں‌کچھ نہ کہ سکا، اضطرابی کیفیت میں، کمرے کے دروازے سے باہر نکلا، پھر پلٹ کر کبھی اُدھر نہیں گیا۔

چور دروازہ کہیں اندر کی طرف کھُلتا ہے.

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran