بھارتی ایٹمی دھماکہ، کارگل اور نواز شریف



جب گیارہ مئی انیس سو اٹھانوے کو بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اگلے روز کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا۔ اجلاس میں چوہدری نثار علی خان نے پاکستان کی جانب سے جوابی جوہری تجربے کی مخالفت کی۔ سرتاج عزیز، مشاہد حسین اور بیگم عابدہ حسین کے بھی یہی خیالات تھے۔ میری رائے یہ تھی کہ اگر ہم نے بھارت کا جواب نہ دیا تو لوگ سڑکوں پر آجائیں گے۔ اگلے روز کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس میں بری فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت نے کہا کہ ہماری تیاری مکمل ہے لیکن فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے۔ طے پایا کہ اس معاملے میں حزبِ اختلاف کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔

دو روز بعد پھر ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ جوہری دھماکے کے حق میں نہیں ہیں۔ جب میں نے دوبارہ جوہری تجربے کے حق میں بات کی تو وزیرِاعظم کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا انہوں نے ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے کہا کہ میں اس بارے میں سب کی رائے سننا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد وزیرِاعظم کے پرنسپل سکریٹری سعید مہدی اور مشیر انور زاہد تک سب ہی نے دھماکے کی وکالت کی۔ وزیرِاعظم کو جیسے ہی صورتحال کا اندازہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ میری باتوں کا غلط مطلب نہ لیا جائے ہم دھماکہ کریں گے۔

کارگل آپریشن کے بارے میں وزیرِاعظم کو آپریشن شروع ہونے سے پہلے بریف کیا گیا۔ پہلی میٹنگ میں جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کے علاوہ جنرل ریٹائرڈ مجید ملک، سرتاج عزیز، چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین، راجہ ظفر الحق اور سکریٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ افتخار علی خان موجود تھے۔ جبکہ دوسری میٹنگ آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں ہوئی جس میں بہت کم فوجی افسر شریک تھے۔ حتی کہ فضائیہ اور نیوی کے سربراہوں کو بھی نہیں بلایا گیا۔

دس اگست انیس سو ننانوے کو میں نے پانی و بجلی کے وزیر کے طور پر وزیرِاعظم سے ملاقات کی۔ گفتگو کے آخر میں ان کی آنکھوں میں سیدھا دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو کارگل آپریشن کے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ ایسی بات نہیں انہیں اس بارے میں دو دفعہ بریفنگ دی گئی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت جانے والی ہے۔ وزیرِاعظم نے کہا اللہ مالک ہے۔ آٹھ روز بعد میں نے ایک اور ملاقات میں انہیں پھر کہا کہ حکومت کی برطرفی ناگزیر ہے اور انہیں وہی لوگ گرفتار کریں گے جو اس وقت ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔

اس سیریز کے دیگر حصےایک بھارتی وزیراعظم کے والد پاکستانی دستور ساز اسمبلی کے رکن نکلے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).